قلم گوید کہ…

زاہدہ حنا  بدھ 1 مارچ 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

نئے لکھنے والے اور بطور خاص صحافت اختیار کرنے والے یہ سوال اکثر کرتے ہیں کہ انھیں اچھا لکھنے کے لیے کیا کرنا چاہیے۔ ان دنوں یہ سوال بہت تواتر سے ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سندھ یونیورسٹی، جام شورو، بہاؤ الدین ذکریا یونیورسٹی، بہاولپور، کراچی یونیورسٹی ، گھوٹکی اور اسلام آباد کے علاوہ حیدرآباد دکن یونیورسٹی سے کچھ طالبات اور طلبہ میری افسانہ نگاری اور کالم نگاری پر ایم فل یا پی ایچ ڈی کررہے ہیں۔

ان سب کو میں ایک ہی جواب دیتی ہوں کہ جی جان سے کتابیں پڑھئے، ہر موضوع اور ہر صنف پر بہت اچھی اور اچھی کتابیں۔ افسانے، ناول، تاریخ، تصوف، مذہبی اور غیر مذہبی کتابیں۔ ایک پیراگراف لکھنے سے پہلے دس کتابیں پڑھئے۔ یہ کتابیں جو خاموشی سے کسی لائبریری، کتب خانے یا آپ کے گھر میں رکھی رہتی ہیں، ان کی انگلی تھامئے اور زمانے کی سیر کیجیے۔ یہ آپ کو ماضی میں لے جائیں گی، آپ کو اگر سائنس یا سائنس فکشن سے دلچسپی ہے تو مستقبل کی جھلکیاں دکھائیں گی۔

ان دنوں نئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا بہت چرچا ہے۔ ان کے اپنے دانشور اور لکھاری انھیں عقل دشمن اور کتابوں سے دور رہنے والا قرار دیتے ہیں۔ مشہور ادیبوں اور دانشوروں کی بات چھوڑئیے، دوسرے درجے کے ادیب اور صحافی بھی ان کی اس دھونس میں آنے کے لیے تیار نہیں کہ وہ امریکا کے منتخب صدر ہیں۔ اسی حوالے سے ان دنوں امریکا میں میکارتھی ازم کا بھی بہت ذکر ہے۔ یہ میکارتھی ازم تھا جس نے 50 اور 60 کی دہائی میں انسان دوست اور جمہوریت پسند امریکیوں کی زندگی جہنم بنادی تھی۔ بہتوں نے جیل کاٹی، بہت سے اپنے روزگار سے محروم ہوئے، کچھ جان سے گئے اور چارلی چپلن جیسے مشہورِ زمانہ اداکار کو امریکی شہریت ترک کرکے سوئٹزرلینڈ میں جلاوطنی کی زندگی گزارنی پڑی۔

یہ اسی کی ہمت تھی کہ ہٹلر کے عروج کے زمانے میں اس نے 1940ء میں ’دی گریٹ ڈکٹیٹر‘ کے نام سے فلم بنائی۔ اس کی زندگی عروج و زوال سے گزری۔ وہ پیدائشی اعتبار سے برطانوی تھا لیکن پھر اس نے امریکی شہریت اختیار کرلی تھی۔ اسے جب اس کے کمیونسٹ خیالات کی وجہ سے امریکا میں بہت ناپسند کیا گیا اور وہ مختلف مقدموں میں مبتلا ہوا تو اس نے امریکا کو ترک کیا اور سوئٹرزلینڈ میں جلاوطنی کے دن گزارے۔ اس نے اپنی ایک تحریر میں امریکا کو ناپسندیدہ ترین ملک قرار دیا اور کہا کہ میں اس ملک کی نفرت انگیز پالیسیوں سے تنگ آچکا ہوں۔ چپلن کو ورلڈ پیس کونسل کی طرف سے انٹرنیشنل پیس پرائز دیا گیا۔ اس بات کو امریکا کے رجعت پرست حلقوں میں ناپسندیدگی سے دیکھا گیا اور خروشیف اور چو این لائی سے ملاقاتوں نے بھی اسے امریکا میں ایک ناپسندیدہ شخصیت بنادیا۔

چارلی چپلن کا ذکر درمیان میں آگیا، ورنہ اصل تذکرہ میں رے بریڈبری کے ناول 451 فیرن ہائٹ کا کرنا چاہتی تھی۔ یہ ناول بریڈ بری نے اس وقت لکھا جب امریکا میں میکارتھی ازم کا غلغلہ تھا۔ آزادی خیال اور آزادی اظہار امریکی سیاست کے رجعت پرست حلقوں کے شکنجے میں تھے۔ ’کمیونسٹ‘ خیالات رکھنا ایسا ہی تھا جیسے ’شیطان‘ کے ہاتھ پر بیعت کرلینا۔ رے بریڈبری ان امریکی ادیبوں میں سے تھا جنہوں نے بہت مشکل معاشی زندگی گزاری اور امریکا کے لیے خوبصورت خواب دیکھے۔ اس نے جو کہانیاں اور ناول لکھے ان میں سے بیشتر ہمیں آنے والے زمانوں کی کہانی سناتے ہیں ’’451 فیرن ہائٹ‘‘بھی ایک ایسا ہی ناول ہے۔

میں نے اس ناول کو بیس اکیس برس کی عمر میں پڑھا۔ یہ ایک دلچسپ اور سنسنی خیز ناول تھا، ایسے ناول عموماً پڑھ کر بھلا دیے جاتے ہیں لیکن اس میں کچھ ایسی بات تھی کہ ذہن کے کسی دور دراز گوشے میں اس کے حوالے سے ایک خلش سی رہ گئی۔ برسوں بعد اس ناول کو پھر سے پڑھنے کی خواہش ہوئی تو اسے ڈھونڈنے میں برسوں لگ گئے۔ جب یہ ناول دوبارہ ہاتھ آیا اور اسے توجہ سے پڑھا تو حیرت ہوئی کہ میں اس سے اس قدر سرسری کیوں گزر گئی تھی۔ جارج آرویل کے 1984ء کی طرح رے بریڈ بری نے بھی ایک خیالی دنیا کا قصہ لکھا ہے۔ بریڈ بری کے اس ناول کو بیسویں صدی کے اہم ترین سائنس فکشن اور خیالی ناولوں میں شمار کیا جاتا ہے۔

یہ ایک ایسے ملک کی کہانی ہے جہاں ادب دم توڑ رہا ہے اور ہر طرف ٹیلی وژن کی اور ٹیلی وژن کے ذریعے عقل دشمن انتظامیہ کی حکمرانی ہے۔ یہ ایک ایسی دنیا کا حصہ ہے جہاں کتابوں کو خطرناک سمجھا جاتا ہے، ایک ایسا سماج جس میں لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ کتابیں انسانی خوشی کی دشمن ہیں، یہ کتابیں ہیں جو انسانوں کے درمیان فساد اور جھگڑے کا سبب بنتی ہیں اس لیے انھیں جلا دینا چاہیء۔ اس سماج میں کتابیں لکھنا اور انھیں پڑھنا ’’جرم‘‘ ٹھہرتا ہے، ایک محکمہ قائم کیا جاتا ہے جس کا کام ہی کتابوں کو جلادینا ہے۔ ہر گھر سے کتابیں نکال کر بہ حق سرکار ضبط کرلی جاتی ہیں۔ جدید ترین سائنسی ایجادات کے ذریعے ان لوگوں کا ’’کھوج‘‘ لگایا جاتا ہے جو اس قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔

کتابوں کو چھپا کر رکھتے ہیں، انھیں محفوظ کرتے ہیں۔ جس سماج میں یہ سب کچھ ہورہا ہے۔ وہاں منحرفین اور باغیوں کی ایک برادری وجود میں آجاتی ہے۔ کتابوں کو محفوظ رکھنے کی خواہش میں ضخیم کتابوں کے باب آپس میں تقسیم کرلیے جاتے ہیں، کوئی شخص رسل کی کسی کتاب کے ابتدائی 100 صفحے یاد کرلیتا ہے تو کوئی دوسرا اس کے اگلے 100 صفحے۔ 500 صفحوں کی ایک کتاب پانچ انسانوں کے حافظے میں محفوظ ہوجاتی ہے۔ اس امید میں کہ جب تاریک دور سے نجات ملے گی تو یہ پانچوں اپنے حافظے کو کتاب کی شکل دے دیں گے۔ ان میں سے کوئی ختم ہوجائے گا تو کسی اور شہر، کسی اور قصبے میں کوئی اور مل جائے گا جسے وہ صفحے یاد ہوں گے۔

رے بریڈ بری نے اپنے اس ناول کو ’’فیرن ہائٹ 451‘‘ کا نام دیا۔ کاغذ اس درجۂ حرارت پر آگ پکڑ لیتا ہے۔ یہ ناول اس وقت لکھا گیا جب امریکا میں ’’میکارتھی ازم‘‘ اپنے عروج پر تھا اورآزادی فکر و خیال کو کچلنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ ناول ’’سنسر شپ‘‘ کے خلاف اور آزادی تحریر اور اس کی اشاعت کے انسانی حق پر اصرار کی ایک کشمکش ہے۔ بریڈ بر ی نے اسے جس طرح لکھا ہے اس کی بے حد پذیرائی ہوئی اور اس کا موازنہ ایڈگر ایلن پو، جارج آرویل اور آلڈس ہکسلے سے کیا گیا۔

ہمارے یہاں علم دشمنی جس طرح عروج حاصل کررہی ہے اور بعض خاص نوع کی کتابوں کے علاوہ دوسرے نقطہ نظر پر مبنی کتابوں، روشن خیالی اور خرد افروزی کے خیالات پر مشتمل کتابوں کو جس طرح حقارت کی نظر سے دیکھا جارہا ہے، انھیں جلا دینے، تلف کردینے اور بچوں اور نوجوانوں کو ان سے دور رکھنے کی کوشش کی جارہی ہے، حد تو یہ ہے کہ ان کے لکھنے والوں پر خطرناک الزامات عائد کرکے انھیں صفحۂ ہستی سے مٹا دینے کی باتیں ہورہی ہیں۔ یہ سب معاملات ہم اسی وقت سمجھ سکتے ہیں جب ہم نے ’’فیرن ہائٹ 451‘‘ یا اور اسی نوعیت کی کتابیں پڑھی ہوں۔ ہمیں اس کا علم ہو کہ بہ ظاہر جدید اور ترقی یافتہ ملکوں میں بھی علم اور خرد افروزی کو زندہ دفن کرنے کے کیسے منصوبے بنائے جاتے ہیں۔

یہ ناول جس کا مرکزی کردار ایک فائر مین ہے اور جس کا فرض منصبی کہیں لگی ہوئی آگ کو بجھانا ہے، اس کو بتایا جاتا ہے کہ کتابوں کو اور جن گھروں میں وہ کتابیں ہوں، انھیں آگ لگا کر خاکستر کردینا اس کی ’ڈیوٹی‘ میں شامل ہے۔ وہ چوں چرا کیے بغیر کتابوں کو آگ لگاتا رہتا ہے کیونکہ اسے بتایا گیا ہے کہ کتابیں انسان کی دشمن ہیں اور وہ لوگوں کو سوچنے اور سوال کرنے پر اکساتی ہیں۔ آہستہ آہستہ وہ کچھ کتابیں اپنے گھر میں چھپانے لگتا ہے، پھر وہ وقت بھی آتا ہے جب اس کا ’جرم‘ اعلیٰ حکام کی نظر میں آجاتا ہے۔ ایک تخیلاتی دنیا میں پیش آنے والا یہ قصہ ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ صارفیت، تیز رفتاری او ر کتابوں کو پڑھنے کے لیے وقت کا نہ ہونا، وہ سنسر شپ جو بظاہر موجود نہیں ہوتی، اس کے باوجود اپنی قہرناکی کو انسانوں پر نافذ کرتی جاتی ہے۔

آج ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، اس میں کتابوں سے، سوچنے کے عمل سے اور آزادی فکر سے دوری ہمیں اپنے خوابوں اور اپنی اصل سے دور لے جارہی ہے۔ اچھا لکھنے کے لیے مختلف موضوعات پر لکھی گئی کتابوں کو پڑھنا ناگزیر ہے۔

آج بھی فارسی کا یہ مصرعہ ہمارے لیے بہت سے مفاہیم رکھتا ہے کہ ’’قلم گوید کہ من شاہ جہانم‘‘۔ کتابیں اسی شاہ جہانی کا حصہ ہیں اور اس کی مملکت کی سیر کرنے کے لیے ہمیں کتابوں کی دنیا سے اپنا رشتہ گہرا اور پائیدار قائم کرنا چاہیے، تب ہی ہم چند اچھے جملے لکھ سکتے ہیں، تب ہی نئے خیالوں کی دنیا کی سیر ہمارے لیے ممکن ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔