مردم شماری، سپریم کورٹ کا کمال

سردار قریشی  بدھ 1 مارچ 2017

وہ جادو تھا یا نظربندی، ہمیں نہیں پتہ، لیکن اس کا پہلا مظاہرہ ہم نے بچپن میں دیکھا تھا جب ہم پرائمری اسکول میں پڑھتے تھے۔ سال دو سال میں ایک آدھ بار اس قسم کے تماشے دیکھنے کو ملتے تھے۔

ہیڈ ماسٹر کی اجازت سے چار دیواری کے اندر گراؤنڈ میں چھٹی کے بعد سارے بچے دائرے کی شکل میں بیٹھتے، اساتذہ کرام پیچھے کرسیوں پر براجمان ہوتے اور جادوگر یا نظربندی کرنے والا، جو کوئی بھی ہوتا، درمیان میں کھڑا ہوکر تماشا دکھاتا۔ وہ کبھی چونی یا اٹھنی کا سکہ کسی بچے کو دے کر کہتا اسے ہاتھ میں رکھ کر مٹھی بند کرلو، خود بچے سے دور رہتا، بچہ سب کو سکہ دکھا کر مٹھی بند کرلیتا اور جب اسے مٹھی کھولنے کے لیے کہا جاتا تو سکہ غائب ہوتا، جو بعد میں ہیڈ ماسٹر کی جیب سے نکلتا۔ کبھی وہ سب کے سامنے پھولوں کی کیاری سے موتیے کا پھول توڑ کر کسی ٹیچر کی ہتھیلی پر رکھتا، کوئی منتر پڑھ کر پھونک مارتا اور انھیں مٹھی بند کرنے کے لیے کہتا، تھوڑی دیر بعد جب اس کے کہنے پر ٹیچر مٹھی کھولتے تو وہاں موتیے کی جگہ گلاب کا پھول ہوتا۔ اس قسم کے اور بھی بہت سے چھوٹے موٹے تماشے بچوں کو دکھائے جاتے تھے۔

ایک بار جادوگر نے دائرے کے ایک طرف بیٹھے ہوئے بچے کو دور سے باآواز بلند اپنی سلیٹ پر کوئی سے تین نام لکھنے کو کہا اور دائرے کی دوسری جانب بیٹھے ہوئے دوسرے بچے سے دیکھے بغیر وہ نام پڑھنے کے لیے کہا جو اس نے بالکل صحیح پڑھ کر سنائے۔ بچے اور بڑے سب جادو یا نظربندی کے یہ مظاہرے دیکھ کر بہت خوش ہوتے، تالیاں پیٹ پیٹ کر ہماری ہتھیلیاں دکھنے لگتیں۔ ہمیں اسکول میں دیکھے ہوئے اس قسم کے جس تماشے نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ اس جادوگر کا کمال تھا جس نے کسی سادھو کی طرح صرف لنگوٹ باندھ رکھا تھا، باقی سارا بدن تو ننگا تھا ہی، پاؤں میں جوتی تک نہ تھی۔

اس نے اپنی پٹاری میں سے دائرے کی شکل میں لپٹی ہوئی رسی نکالی اور اس کا ایک سرا اوپر آسمان کی طرف کیا اچھالا، رسی کا گولا یوں کھلتا گیا جیسے کوئی اوپر سے رسی کھینچ رہا ہو۔ دیکھتے ہی دیکھتے کئی گز لمبی رسی عمودی شکل میں تنی ہوئی ہوا میں معلق ہوگئی، پھر رسی کا جو دوسرا سرا جادوگر کے ہاتھ میں تھا اسے مضبوط پکڑ کر پہلے تووہ اس کے ساتھ لٹک گیا، پھر بندر کی طرح اچھل اچھل کر اوپر چڑھنے لگا اور دیکھتے ہی دیکھتے نظروں سے اوجھل ہوگیا۔ سب حیران تھے کہ وہ کہاں غائب ہوگیا، اچانک ایک بچے نے چیخ ماری ’’یہ رہا‘‘، دیکھا تو سادھو زمین پر بیٹھا اپنی کھلی ہوئی رسی لپیٹ رہا تھا۔ پھر ہم بچپن سے لڑکپن اور وہاں سے جوانی کی منزل میں داخل ہوکر گاؤں سے حیدرآباد پہنچ گئے۔

اس زمانے میں سینماؤں کی اشتہاری مہم لاؤڈ اسپیکر لگے تانگوں میں بیٹھ کر چلائی جاتی تھی۔ اتوار کی صبح مارننگ شو ہوا کرتے تھے، ایک دن سنا کہ اگلے اتوار کو صدر کے علاقے میں میجسٹک سینما میں مارننگ شو کی جگہ ایک ایرانی جادوگر اپنے فن کے کمالات دکھائے گا۔ دنیا بھر میں مشہور اس جادوگر کے لیے کہا جاتا تھا کہ شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی اپنے مہمانوں کی تفریح طبع کے لیے شاہی محل میں بلوا کر اس کے کمالات سے لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔ یہ 60ء کی دہائی کے اوائل دنوں کی بات ہے۔ ایرانی جادوگر کی اتنی تعریف سن کر ہمیں بھی اس کے جادوئی کمالات دیکھنے کا شوق چرایا اور شو دیکھنے سینما جا پہنچے، تھرڈ کلاس کا آٹھ آنے والا ٹکٹ دو روپے میں خرید کر ہال میں اسٹیج کے قریب اگلی بینچوں پر جا بیٹھے۔ اعلان کے مطابق جادوگر نے گیارہ سے ایک بجے تک، دو گھنٹے اپنے کمالات دکھانے تھے۔

اسٹیج پر ایک چھوٹی تپائی پر گلدستہ دھرا تھا اور پردے کے آگے چھت سے بڑا سا (گھڑیال) وال کلاک لٹک رہا تھا۔ ٹھیک گیارہ بجے جادوگر اسٹیج پر نمودار ہوا، وہ جادوگروں والا مخصوص لباس (کونے نکلے ہوئے بڑے کالروں والا کوٹ اور انکل سام جیسا ٹوپ) پہنے ہوئے تھا، اس نے جھک کر ناظرین کو سلام کیا، ٹوپ اتار کر تپائی پر رکھا، جیب سے رومال نکال کر ماتھا پونچھا اور سینے پر ہاتھ باندھ کر یوں ایک طرف ہٹ کر کھڑا ہوگیا جیسے بہت زیادہ کام کرکے تھک گیا ہو۔

فوراً ہی اس کا اسسٹنٹ آگے بڑھا، اس نے اتنی بڑی تعداد میں شو دیکھنے کے لیے آنے پر ناظرین کا شکریہ ادا کیا اور پھر دونوں الوداعی سلام کرکے اسٹیج سے اتر گئے۔ یہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ شو ختم۔ ہال میں بے ہنگم شور مچ گیا، جتنے منہ اتنی باتیں، ایک آواز آئی یہ کھلا دھوکا ہے تو دوسرے نے لقمہ دیا بھیک ہی چاہیے تھی تو سڑک پر کھڑے ہو کر جھولی پھیلاتے، ڈرامہ کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ پھر سب یک زبان ہوکر چلانے لگے ہمارے پیسے واپس کرو۔ اسی دوران ہال میں ایک پاٹ دار آواز گونجی، سینما منتظمین کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ جادوگر نے کوئی چیٹنگ نہیں کی، اس نے وعدے کے مطابق دو گھنٹے شو کیا، سامنے لٹکا ہوا گھڑیال دیکھ لیجیے، ایک بج رہا ہے، سب نے دیکھا گھڑیال واقعی ایک بجا رہا تھا۔

یہ کیا، ابھی گیارہ بجے شو شروع ہوا تھا، ابھی ایک کیسے بج گیا۔ اور اس وقت ہال میں سناٹا چھا گیا جب لوگوں نے اپنی کلائیوں پر بندھی گھڑیاں دیکھیں تو وہ بھی ایک ہی بجا رہی تھیں۔ میں نے اپنے ساتھ کھڑے ہوئے آدمی کو یہ کہتے ہوئے باہر نکلتے دیکھا کہ ایک منٹ میں دو گھنٹے گزرنے سے بڑا اور بھلا کون سا کمال ہوگا۔ لوگوں کو اس کی بات شاید دل سے لگی تھی کیونکہ دیکھتے ہی دیکھتے ہال خالی ہوگیا۔ دوسروں کا تو پتہ نہیں، میں نے واپس جاتے ہوئے ایک صاحب کی کلائی پر بندھی گھڑی دیکھ کر ٹائم پوچھا تو جواب ملا گیارہ بج کر پانچ منٹ۔ گویا یہ کوئی ٹِرک نہیں تھی بلکہ ایرانی جادوگر نے سب کی نظربندی کردی تھی۔

اب تقریباً نصف صدی بعد اس سے بھی بڑا کمال سپریم کورٹ نے کر دکھایا ہے، فرق صرف اتنا ہے کہ ایرانی جادوگر نے لوگوں کی نظربندی کی تھی جب کہ سپریم کورٹ نے حکومت کی بند آنکھیں کھول کر دکھا دی ہیں، جس کے نتیجے میں 19 سال سے زیر التوا چھٹی مردم شماری کرانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ زیریں سندھ میں مردم شماری کا پہلا مرحلہ 15 مارچ سے شروع ہوگا جس کے بعد دوسرے مرحلے میں بالائی سندھ میں مردم شماری ہوگی۔ پہلا مرحلہ دو مہینوں میں مکمل ہوگا جس کے دوران کراچی، حیدرآباد اور میرپورخاص ڈویژن میں مردم شماری کی جائے گی۔ دوسرے مرحلے میں یہی عمل بالائی سندھ کی تین ڈویژنوں سکھر، لاڑکانہ اور بینظیر آباد میں دہرایا جائے گا۔

قیام پاکستان سے لے کر اب تک صرف 5 بار مردم شماری کرائی گئی جو بالترتیب 1951ء، 1961ء، 1972ء، 1981ء اور 1998ء میں ہوئی تھیں۔ مردم شماری کے لیے عملہ محکمہ تعلیم، لوکل گورنمنٹ، سماجی بہبود اور محکمہ مال سے لیا جائے گا جب کہ فوج اس کو سیکیورٹی دے گی۔ صرف وہ گھر شمار کیا جائے گا جس کے سربراہ کے پاس کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ ہوگا۔ آئین کے مطابق ہر 10 سال بعد مردم شماری کرانی ہے۔ حکومت نے گزشتہ 18 سال سے اس طرف سے آنکھیں بند کر رکھی تھیں، جو اب سپریم کورٹ نے کھول دی ہیں۔

مردم شماری اس لیے ضروری ہوتی ہے کہ یہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں سیاسی نمایندگی کے لیے بنیاد فراہم کرنے کے علاوہ ان اسمبلیوں کی حلقہ بندیوں کے تعین، نیز قومی مالیاتی کمیشن کی جانب سے وفاقی اکائیوں کو فنڈز کی تقسیم اور وفاقی حکومت کی ملازمتوں میں ان کے کوٹہ کا تعین کرنے کے بھی کام آتی ہے۔ اس سے اندازہ کیجیے کہ حکومت نے کتنے اہم کام کو تقریباً دو عشروں سے سرد خانے کی نذر کر رکھا تھا، وہ تو اب بھی صورتحال کو جوں کا توں رکھنا چاہتی تھی لیکن سپریم کورٹ کی نظر بندی کرنے میں ناکام رہی، نتیجتاً مارچ سے مردم شماری شروع ہورہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔