بے حد معذرت کے ساتھ

سائرہ اکبر  بدھ 9 جنوری 2013

آج کل ہم جب اپنے اردگرد نظر ڈالتے ہیں تو ہر سمت ہمیں افراتفری، بے سکونی و نفسا نفسی کا عالم دکھائی دیتا ہے اور ان سب کے ساتھ ساتھ معاشرے میں بڑھتی ہوئی ابتری و بے راہ روی خصوصاً نوجوان نسل میں نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ جس کے لیے والدین اس ضمن میں انٹرنیٹ، کیبل، مارکیٹ میں دستیاب فحاشی و عریانی پر مبنی سی ڈیز اور ڈش کو ان سب کا ذمے دار قرار دیتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ افسوس ناک حد تک نوجوانوں میں نشے کا بڑھتا ہوا رجحان بھی خطرناک حد تک تشویشناک صورت حال اختیار کرتا جا رہا ہے ۔

جیسے کہ آج کل شیشہ جیسا مہلک نشہ نوجوانوں کی رگ وپے میں تیزی سے زہر بھرتے ہوئے انھیں زندگی بھر کے لیے مفلوج کرتا جا رہا ہے تو ان تمام تر سنگین حالت و واقعات کے لیے بعض حلقے والدین کو قصور وار گردانتے ہیں کہ خواہ باہر کے حالات کتنے ہی دگرگوں کیوں نہ ہوں اگر گھر کی تربیت درست نہج پر ہو تو باہر کی آلودہ فضائیں بچے کو کبھی اپنی لپیٹ میں نہیں لیتیں۔ اس حوالے سے ہمارے مشاہدے میں دونوں طرح کے والدین آئے ہیں۔ ایک قسم ان والدین کی ہے جنہوں نے اپنے سپوتوں کو دنیا بھر کی آسائشوں کا اس قدر عادی بنا دیا ہے کہ وہ بے جا لاڈ پیار کے باعث خود سر ہوتے ہوئے اب ماں باپ کے بھی نافرمان ہوتے جا رہے ہیں جب کہ دوسری جانب ایسے بھی والدین دیکھنے میں آئے ہیں جنہوں نے اپنے ہی ہاتھوں اپنے جگر گوشوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے۔

بہر طور ہم آج جس جانب آپ کی توجہ مبذول کرانا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہم نے اس تمام تر آزادیوں و من مانیوں کے دور میں بھی بعض ایسے خاندان و گھرانے بھی دیکھے ہیں جن پر آج بھی بڑوں و بزرگوں کا بے جا تسلط ہے جس کی بنا پر وہاں کے مکین خصوصاً نوجوان طبقہ اس دور میں بھی اپنی جائز خواہشات کی تکمیل کے لیے کس طرح تڑپتا ہے اور گھر کے بڑوں کے وضع کردہ سخت قسم کے اصولوں و قواعد کی بنا پر اپنی فطری تمناؤں کی تسکین کے لیے کیسے دن رات چکّی کے دو پاٹوں میں پستا رہتا ہے اس کا اندازہ ان سے بہتر کون لگا سکتا ہے جو ہمہ وقت گھٹن زدہ ماحول میں اپنی زندگی کے دن بتا رہے ہیں۔

اسی حوالے سے چند دن قبل ہماری ملاقات ایک ایسے طالب علم سے ہوئی جو O لیول میں زیر تعلیم ہے، بچپن سے لے کر آج تک یہ ذہین طالب علم تعلیمی میدان میں اپنی ذہانتوں کے جھنڈے گاڑتا آیا ہے اسی بنا پر سب کی طرح ہم بھی اس کے بے مثال تعلیمی ریکارڈ کے باعث اس سے بے حد متاثر ہوئے لہٰذا اس سے ملاقات ہونے پر ہم نے نہ صرف اسے بے حد سراہا بلکہ اس کے تابناک مستقبل کے حوالے سے اسے ڈھیروں دعائیں بھی دیں۔ مگر ان سب کے باوجود وہ ہمیں نہ جانے کیوں بے حد مضطرب اور الجھا الجھا سا نظر آیا۔ ہم کچھ دیر اس سے ہلکے پھلکے انداز میں باتیں کرتے رہے، باتوں کے دوران ہم نے اسی سے پوچھا آج کل آپ کا کیا کرنے کو جی چاہتا ہے؟ ’’خودکشی‘‘ اس ذہین و فطین طالب علم کے منہ سے یہ غیر متوقع جواب سن کر جو اس نے نہایت سنجیدگی سے دیا تھا ہم سر سے پیر تک لرز کر رہ گئے۔ جس کے بعد پھر اس سے مزید کچھ پوچھنے کا حوصلہ نہ رہا اور اب سنا ہے کہ وہی ہونہار لڑکا شدید ڈپریشن کے باعث آج کل ہاسپٹل میں زیر علاج ہے۔

اس طرز کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے کہ اس سے قبل بھی ہم اکثر اخبارات کے ذریعے یہ اندوہناک خبریں پڑھتے اور سنتے رہے ہیں کہ طالب علموں نے اپنے والدین و اساتذہ کے مسلسل شدید دباؤ کے باعث اپنی جان خود ہی لے لی۔ اسی طرح اس دلدوز واقعے نے لوگوں کو تڑپا کر رکھ دیا تھا۔ جب برطانیہ کے شہر کارڈف میں مقیم بھارتی نژاد مسلم فیملی میں ایک ماں نے جو اپنے سات سالہ بیٹے کو حافظ قرآن بنانے کے لیے اس قدر جنونی ہو گئی تھی کہ بالآخر اس نے اپنے ہاتھوں سے اپنے چشم و چراغ کو ہمیشہ کے لیے بجھا کر رکھ دیا۔

اس ضمن میں ہمیں اپنی وہ ساتھی اسٹوڈنٹ یاد آ رہی ہے جو 9th-10th میں ہمارے ساتھ زیر تعلیم تھی۔ ہم دوستوں کے علم میں جب یہ بات آئی کہ وہ بہت اچھی شاعرہ بھی ہے تو ہم سب اصرار کرنے لگے کہ تم اپنی شاعری کہیں چھپواؤ، جس پر اس نے آزردہ لہجے میں کہا تھا کہ میں شاعری گھر والوں سے چھپ کر کرتی ہوں کہ مجھے اس کی اجازت نہیں ہے اور پھر ایک روز جب وہ اسکول آئی تو بے حد دل گرفتہ اور بے چین سی تھی اس نے بتایا کہ آج اسکول میں اس کا آخری دن ہے اور یہ کہ شاید وہ اب پھر کبھی شاعری نہیں کر سکے گی کیونکہ اس کے گھر کے بزرگوں نے اس کی ساری شاعری نذرآتش کر دی ہے جس کے بعد وہ نرم و نازک لڑکی جس کی شاعری بھی مہین مہین سے جذبوں پر مبنی تھی ہمیشہ کے لیے ہماری زندگیوں سے نکل گئی اور پھر بہت عرصے بعد اس کی بابت سننے میں آیا تھا کہ وہ اب اپنے ہوش و حواس کھو چکی ہے اور کسی نفسیاتی ادارے میں اس کا علاج ہو رہا ہے تو یہ خبر ہم سب دوستوں پر بجلی بن کر گری تھی۔ آج بھی کبھی کبھی جب اس کا خوبصورت چہرہ نظروں کے سامنے آتا ہے تو دل بے اختیار اداس و افسردہ ہو جاتا ہے۔

اسی طرح ایک بزرگ شخصیت ہیں جنھیں ہم بچپن سے جانتے ہیں، زندگی کی وہ کون سی آسائیشیں تھیں جو انھیں نوجوانی کے دور میں حاصل نہیں تھیں، زمانے بھر کی رنگینیاں انھوں نے عہد جوانی میں اپنے دامن میں سمیٹی تھیں، والدین کے حد درجہ لاڈ پیار نے انھیں نافرمان سے کہیں زیادہ گستاخ بنا دیا تھا، متمول گھرانے سے تعلق رکھتے تھے لہٰذا ہر ویک اینڈ پر سینما جانا اور اکثر اپنے دوستوں کے ساتھ گانے بجانے کی محفلوں میں شرکت کرنا ان کے معمولات میں شامل تھا، ہمیں اس وقت اتنا شعور نہیں تھا لیکن لوگ بتاتے ہیں کہ ان کی شادی پر کراچی کی ایک نامور رقاصہ نے ان کے گھر پر پرفارم کیا تھا، مگر پھر گزرتے وقت کے ساتھ بڑھتی ہوئی عمر کے پیش نظر انھیں فکر آخرت ستانے لگی۔

یوں پھر وہ دنیا کی ساری خرافات سے منہ موڑ کر پوری طرح دین میں شامل ہو گئے جو کہ بلاشبہ ایک مستحسن عمل ہے لیکن ان نمایاں مثبت تبدیلیوں کے باعث پھر وہ ہر اپنے پرائے پر قہر و غضب بن کر ٹوٹے جس کے باعث آج ان کا مثالی گھرانہ ابتری کا شکار ہے ان کی اولاد نہایت فرمانبردار تھی پر آج ان کی بے جا سختیوں و بندشوں کے باعث ان سے دن بدن دور ہوتی جا رہی ہے اور ان سب کے ساتھ ساتھ ان کے ملنے جلنے والے ان سے متنفر ہوتے جا رہے ہیں اور ان تمام تر حالات و واقعات کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ان محترم کے تمام تر اصول و قوانین صرف اور صرف اپنے صاحبزادوں اور ان کی بیگمات پر نافذ ہوتے ہیں ۔

جب کہ ان سے ان کی صاحبزادیاں مبرا ہیں، جن کی وجہ سے گھر میں تنازعات جنم لے رہے ہیں اور یہ تفریق ہم نے بھی دیکھی ہے (کہ ہم خود بزرگوں کے اس بیمار طرز عمل کا متعدد بار شکار ہوئے ہیں اور ہوتے رہتے ہیں) تو اس وقت ہمیں زیادہ دکھ اس بات کا ہوتا ہے کہ جب یہی بزرگ حضرات ایک فریق کو سن کر فوراً فیصلہ صادر فرما دیتے ہیں جب کہ کسی بھی نتیجے پر پہنچنے کے لیے تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھنا چاہیے۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ سارے خواتین و حضرات (بزرگ) ایک جیسے ہوتے ہیں، بلاشبہ بے شمار ایسے بھی ہوں گے جو تمام معاملات میں منصفانہ فیصلے کرتے ہوں گے مگر بدقسمتی سے ہمارے تجربے و مشاہدے میں اب تک ایسے بزرگ خواتین و حضرات دیکھنے میں آتے ہیں۔

جنہوں نے کسی بھی بڑے معاملات میں صحیح معنوں میں حسن و صداقت کے تقاضوں کو پورا نہیں کیا تو اس تمام تر صورت حال کے پیش نظر ہم ایسے تمام محترم بزرگ ہستیوں سے دست بستہ گزارش کرنا چاہیں گے کہ انسانی زندگی بے حد مختصر ہے اور آج کل کے حالات کو مد نظر رکھا جائے تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انسانی زندگی کی مدت کتنی ہے۔ لہٰذا خدارا! اپنی ناتمام حسرتوں کے محل نوجوانوں کی آنکھوں میں سجے سپنوں کو مسمار کر کے تعمیر نہ کریں اور اپنی محرومیوں کے ازالے کے لیے نئی نسل کے دلوں میں بسی امنگوں کو نہ کچلیں کہ ماشاء اللہ سے آپ سب تو طویل اور لمبی عمریں اپنی مرضی و منشا سے گزار چکے یا اعتدال کو مد نظر رکھ کر بسر کر چکے۔

لہٰذا اپنے بچوں کو خواہ وہ طالب علم ہوں یا نئے نئے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے ہوں انھیں اس سنہرے دور کا کچھ حصہ اپنی طرح سے گزر لینے دیں کہ اس کے بعد انھیں ویسے بھی بقیہ زندگی اپنے اوپر عائد ذمے داریوں کا بوجھ اٹھانا ہے۔ معاشی و معاشرتی اعتبار سے جدوجہد کرتے ہوئے بلاشبہ آسمان کی وسعتوں کو چھونا ہے اور اس مقام تک پہنچنا ہے کہ جہاں آپ محترم بزرگ خواتین و حضرات، والدین انھیں دیکھنا چاہتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔