دواخانے کے اداکار

کے ایم خالد  بدھ 1 مارچ 2017
ٹی وی پر حکیموں کے بے دھڑک اور بلا روک ٹوک لمبے دورانیہ کےاشتہارات دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کا علاج بس انہی کے پاس ہے۔ فوٹو: فائل

ٹی وی پر حکیموں کے بے دھڑک اور بلا روک ٹوک لمبے دورانیہ کےاشتہارات دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ دنیا کا علاج بس انہی کے پاس ہے۔ فوٹو: فائل

کوئی دور تھا کہ جب اداکار صرف تھیٹر، ٹی وی ڈرامہ یا فلموں میں ہی پائے جاتے تھے مگر فی زمانہ اداکاروں کی ہر شعبہ ہائے زندگی میں بہتات ہے۔ حتیٰ کہ میڈیا کا سب سے خُشک شعبہ نیوز اور حالاتِ حاضرہ بھی اِس سے محفوظ نہیں، تین دہائیوں قبل تک پی ٹی وی کے اِن شعبوں میں اُن شخصیات کا قبضہ تھا جنہیں شاید کبھی کسی نے ہنستے ہوئے بھی نہیں پایا تھا، لیکن اب میڈیا کے اِن شعبوں میں جو جتنا ’’جولی اور ہولی‘‘ ( جولی انگلش اور ہولی پنجابی زبان کا لفظ ہے) طبیعت کا مالک نیوز کاسٹر یا اینکر ہو وہ اتنا ہی کام یاب ہوگا۔

ماضی میں چونکہ پبلسٹی (مشہوری) کا مناسب انتظام نہیں تھا اور طِب کے شعبے میں تو خاص طور پر اِس حکیم کو بُری نظر سے دیکھا جاتا تھا جو کسی مریض کو  اپنی تعریف دوسروں تک پہنچانے کے لئے راضی کرتے تھے۔ کسی حکیم کی شہرت سینہ بہ سینہ ہی پھیلتی تھی اور یہ شہرت بھی مریض کی مرض سے شفایابی سے مشروط ہوتی تھی اور حکیم صاحب کی شہرت کے اِس پھیلاؤ میں برسوں درکار ہوتے تھے۔ زمانہ بدلا اور نیم حکیم اخباروں اور ویگنوں، گاڑیوں میں بانٹے جانے والے اشتہارات کے ذریعے مریضوں تک پہنچنے لگے لیکن اس میں بھی اصل حکیم سے ذیادہ نیم حکیم شامل تھے، جن کا مقصد ہی مریضوں کی جیب خالی کرنا تھا۔

زمانہ تبدیل ہوا اور دورِ جدید نے ہر شعبہ پر اپنے اثرات مرتب کئے، اب یہ ٹیکنالوجی کے ثمرات ہیں کہ مختلف چینلز پر چلنے والے حکیموں کے بے دھڑک اور بلا روک ٹوک لمبے لمبے دورانیہ کے اشتہارات ان کی 24 گھنٹے کے دوران نشر ہونے والی ’’حکیمانہ نشریات‘‘ سے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ان دو چار عطائیوں کے پاس ہی دنیا کی ہر بیماری کا علاج ہے اور انہی اشتہارات پر مشتمل نشریات کی بدولت پی آئی اے کی چاندی ہوگئی، اور دنیا بھر سے مریض جوق در جوق پاکستان کا رُخ کر رہے ہیں۔

سمجھ تویہ بھی نہیں آتا کہ، جانے ان حکماء کے پاس اشتہاریات کیلئے اتنا پیسہ کہاں سے آگیا کہ وہ چینلز پر اپنے ایک گھنٹے کے اشتہار کے بعد دوسرے گھنٹے ایک نئی بیماری کی علامات ، علاج، پرہیز کا ’’رٹا ‘‘ لگا کر آ دھمکتے ہیں۔ حکیم صاحب خود بھی اداکاری کے شوقین محسوس ہوتے ہیں جو کہ شاید فلموں یا ڈراموں میں اداکاری کے جوہر نہ دکھانے کے باعث اپنا اداکاری کا شوق بھی حکیمی کے ساتھ ہی پورا کرنے کی کوشش میں مصروف دکھائے دیتے ہیں۔

اپنی اداکاری کے ساتھ ان عطائی حضرات نے پورے ملک کے خاص شہروں سے علاقائی بیمار محسوس ہونے والے اداکار بھی دریافت کرلئے ہیں، ان میں مرد و زن کی کوئی قید نہیں بلکہ جتنا مریض اداکار بوڑھا ہوگا اتنا ہی وہ کامیاب ہوگا جو کہ اپنی علاقائی زبان میں پہلے تو حکیم صاحب تک پہنچنے کا حال بیان فرمائیں گے، اِس کے بعد اپنی بیماری میں مبتلا ہونے اور پھر حکیم صاحب سے علاج اور پھر چند ہی ہفتوں میں بیماری سے شفایابی کی نوید سنائیں گے۔ یہ علاقائی اداکارانہ اشتہار آدھے گھنٹے سے ایک گھنٹے کا بھی ہوسکتا ہے، اِس میں اس علاقائی مریض کی اداکاری کی داد تو بنتی ہے جو خوشی، غمی کے سارے تاُثرات اپنی اداکاری میں سمو دیتا ہے۔

ان اداکاروں کے علاوہ اس حکیمانہ اشتہاری دوڑ میں ماضی کے وہ اداکار بھی شامل ہیں جن کا فلموں میں توتی بولتا تھا، اب وہ ان حکیمانہ اشتہاری فلموں میں طوطے کی طرح بول رہے ہیں۔ ان کی اشتہاری فلموں میں کام کی سمجھ تو یہ ہی آتی ہے چونکہ اب فلمیں نہیں بن رہی تو وہ اپنی فلمی ٹھرک پورا کرنے کے لئے ان اشتہاری فلموں میں کام کررہے ہیں، جب کہ آٹو گراف دیتے وقت وہ جوانی سے لے کر اب تک کی فِٹنس کا سبب حکیم صاحب کی دوائیوں کو ہی گردانتے ہیں۔

ان علاقائی اداکاروں کےعلاوہ بھی بہت سے صفِ اول کے اداکار اِن حکماء کا ’’چورن‘‘ بیچنے میں پیش پیش ہیں۔ مریض تو بے چارے مرض کے ہاتھوں دیوانے ہوتے ہیں، پھر مستزاد ماضی کی فلموں کے شوخ وشنگ اداکاروں کےعلاوہ علاقائی زبان کے اداکار مریض کو اپنی گرفت میں ایسا جکڑتے ہیں کہ وہ اس حکیم کو ہی مسیحا سمجھتے ہوئے اس کی تلاش میں نکل کھڑے ہوتے ہیں۔ خدارا! ذرا دروغ گوئی اور اداکاری کے جوہر کم دکھائیے، کچھ تو حقیقت پسندی سے کام لیجئے کیونکہ یہ کوئی برانڈڈ جوتوں یا کپڑوں کی تشہیر کا معاملہ نہیں بلکہ امید کی آس لگائے مریضوں کی زندگی کا سوال ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کر

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔