خطے کا امن اوروزیر اعظم کا موقف

مقتدا منصور  بدھ 1 مارچ 2017
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

گزشتہ دنوں ترکی کے تین روزہ دورے کے موقع پر انقرہ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم میاں نواز شریف نے فرمایا کہ ’’ہم نے ووٹ بھارت کے ساتھ دوستی کے نام پر لیا، اس کے خلاف سازش نہیں کررہے، ہندوستان کے ساتھ اچھے تعلقات اور تجارت بڑھانا چاہتے ہیں‘‘۔

ان کے اس بیان پر بعض حلقوں کی طرف سے خاصی لے دے ہورہی ہے۔ ان حلقوں نے اس بیان کو عزت و وقار کا مسئلہ بنالیا ہے۔ حالانکہ یہ خطے کی مجموعی صورتحال کے تناظر میں ایک متوازن اور دوراندیشی پر مبنی بیان ہے۔ میاں صاحب کی بیشتر پالیسیوں سے اختلاف کے باوجود خطے میں امن کے بارے میں ان کی سوچ ہمیشہ سے قابل ستائش رہی ہے جس میں بالخصوص پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے ان کا نقطہ نظر بھی شامل ہے۔

جس کا کئی مواقع پر انھوں نے بلاخوف وخطر اظہار بھی کیا ہے۔ 2013 کی انتخابی مہم کے دوران انھوں نے ایک سے زائد مرتبہ جنوبی ایشیا کو ایک پرامن اور ترقی کی راہ پر گامزن خطہ بنانے کے خیالات کا اظہار کیا تھا۔ ساتھ ہی انھوں نے بھارت کے ساتھ دو طرفہ تعلقات اور تجارت پر بھی کھل کر اظہار کیا، جس سے یہ بات صاف طورپر عیاں تھی کہ مسلم لیگ (ن) کے ووٹر کو میاں صاحب کے خیالات پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔

یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ پاکستان میں گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران ہونے والے انتخابات بھارت مخالفت پر مرتکز نہیں تھے۔ البتہ یہ درست ہے کہ جب سے BJP نے بھارت کی ملک گیر سیاست میں قدم رکھا ہے، اس کی سیاست کا محور پاکستان سمیت بھارت میں موجود مذہبی اقلیتوں کی مخالفت چلا آرہا ہے۔ گویا BJP کا طرز عمل بالکل ویسا ہی جیسا کہ ہمارے ملک میں دائیں بازو کی مذہبی جماعتوں کا بھارت کے بارے میں ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے لیے اٹل بہاری واجپائی کے دور اقتدار میں پیش رفت کی گئی۔ مگر وہ بیل منڈھے نہ چڑھ سکی۔

اس میں شک نہیں کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان اصل تنازع کشمیر ہے۔ جس کا حل ان دونوں ممالک کے عوام کے حق میں ہے۔ مگر دونوں ممالک کی قیادتیں دوراندیشی اور تدبرسے کام لینے کے بجائے بے جا ضد، ہٹ دھرمی اور اناپرستی کا مظاہرہ کررہی ہیں۔ یہاں بھارتی منصوبہ سازوں کا رویہ زیادہ غیر ذمے دارانہ ہے کیونکہ ان کے زیر اثر کشمیر میں ہی انسانی حقوق کی پامالی ہورہی ہے۔ جس پر ارون دھتی رائے سمیت غیر جانبدار بھارتی دانشوروں کا ایک بڑا حلقہ مسلسل آوازیں اٹھا رہا ہے۔

جب کہ پاکستان کے زیر اثر کشمیر میں حقوق انسانی کی ایسی کوئی شکایت کسی بھی عالمی یا مقامی فورم پر آج تک رجسٹر نہیں ہوئی ہے۔ ریاستی منصوبہ سازوں کے رویوں کے باعث دونوں ممالک کے غیر سیاسی اور غیر ریاستی عناصر اس حد تک مضبوط ہوچکے ہیں کہ اس مسئلے کے صائب اور قابل قبول حل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئے ہیں۔ جس کی وجہ سے متعلقہ حکومتیں اگر کسی مرحلہ پر سیاسی عزم وبصیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کسی مناسب حل کی جانب بڑھنا بھی چاہیں، تو اسے ممکن نہیں ہونے دیا جاتا۔ شاید اسی لیے یہ مسئلہ پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتا چلا گیا ہے۔

یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بیسویں صدی کی آخری دہائیوں سے دنیا تیز رفتار تبدیلیوں کی لپیٹ میں ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ ہی نظریات کی جگہ (غلط یا صحیح) معیشت نے اولیت حاصل کرلی ہے۔ سیاست پر معیشت کی بالادستی کی وجہ سے بہت سے فکری رجحانات زمیں بوس ہوگئے۔ ریاستوں کے لیے معیشتوں کا استحکام اولین ترجیح ٹھہرا۔ اس حوالے سے دنیا کے کئی ممالک کی مثال ہمارے سامنے ہے، جنھوں نے اپنے نظریاتی، علاقائی اور سرحدی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر نئے علاقائی اتحاد قائم کیے یا پہلے سے قائم اتحادوں کو مزید مستحکم اور وسیع کیا ہے۔ اس طرح ان ممالک نے خطے کی معاشی ترقی اور استحکام کی خاطر دو قدم آگے بڑھ کر جرأت مندانہ فیصلے کیے اور ترقی کی منازل طے کیں۔

سب سے بڑی مثال قریبی دوست ملک چین کی ہے، جس کی اس وقت تجارت کا سب سے بڑا حجم امریکا کے ساتھ ہے۔ اسی طرح امریکا کی سب سے بڑی سرمایہ کاری بھی چین میں ہے۔ چین کے ساتھ امریکا کے تعلقات 1949 میں کمیونسٹ انقلاب کے بعد اس حد تک کشیدہ ہوگئے کہ امریکا کے چین کی اصل ریاست (Motherland) کے ساتھ سفارتی تعلقات تک منقطع ہوگئے۔ امریکا نے چین سے فرار ہوکر تائیوان کے جزیرے میں حکومت قائم کرنے والے چیانگ کائی شیک کی نہ صرف سرپرستی کی بلکہ اسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا 1971 تک مستقل رکن بنائے رکھا۔

اس وقت کے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ ہنری کسنجر جب پاکستان کے راستے خفیہ دورے پر چین گئے، تو دونوں ممالک کے درمیان برف پگھلنا شروع ہوئی۔ جس کے نتیجے میں یکم جنوری  1979 میں چین اور امریکا کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوئے۔ اس کے بعد ان دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا آغاز ہوا، جو اس وقت دنیا کی سب سے بڑی تجارت ہے۔ حالانکہ امریکا آج بھی تائیوان کی حکومت کی سرپرستی کررہا ہے۔ جب کہ چین اس پر اپنے دعوے سے دستبردار ہونے پر کسی طور آمادہ نہیں ہے، مگر دونوں نے اس نزاعی مسئلے کو ایک طرف رکھتے ہوئے تجارت اور سرمایہ کاری کے عمل کو جاری رکھا ہوا ہے۔

دوسری مثال بھی چین ہی کی ہے، جس کے بھارت کے ساتھ کئی سرحدی تنازعات ہیں۔ 1962 میں جنگ بھی ہوچکی ہے۔ بھارت نے چین کو مطلوب تبتی رہنما دلائی لامہ کوگزشتہ 60 برس سے اپنے یہاں پناہ دے رکھی ہے۔ ان تمام اختلافات کے باوجود چین اور بھارت کے درمیان تجارت میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے اور ان کی تجارت کا حجم امریکا کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔ تیسری مثال ملائیشیا اور انڈونیشیا کی ہے، جن کے درمیان کئی جزائر کی ملکیت پر تنازع ہے۔ مگر جب آسیان بنی تو تنازعات کو پس پشت ڈال کر دونوں ممالک آسیان کا حصہ بن گئے۔ آج چین اور بھارت کے بعد آسیان میں شامل ممالک ایشیا کی تیز رفتار معیشتیں بن گئی ہیں۔

اس کے برعکس جنوبی ایشیا کے دو اہم ممالک بھارت اور پاکستان آج بھی ماضی کی گھپاؤں میں بھٹک رہے ہیں، جہاں تک ہمارا معاملہ ہے، تو ہم فروری 1949 میں ترتیب دیے گئے بیانیہ اور سرد جنگ کی نفسیات سے جان چھڑانے پر آمادہ نہیں ہیں، جس کی وجہ سے ماضی کے غلط فیصلوں کو سرد جنگ ختم ہوجانے کے بعد بھی گلے لگائے ہوئے ہیں۔ بھارت کی صورتحال بھی کم وبیش یہی ہے۔ وہاں بانیان نے ملک کو سیکولر آئین تو دیدیا، مگر معاشرے کو عملاً سیکولر نہ بناسکے۔ نتیجتاً وہاں ہندو بنیاد پرستی کا تیزی کے ساتھ پھیلاؤ ہورہا ہے، جو سیکولر بھارت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ بنتا جارہا ہے۔ بھارت اور پاکستان کے انھی رویوں کی وجہ سے مسائل سلجھنے کے بجائے الجھتے جارہے ہیں، جس کا خمیازہ ان دونوں ممالک کے علاوہ خطے کے دوسرے ممالک بھی بھگتنے پر مجبور ہیں۔

یہ بات سمجھنے کی ہے کہ تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ تعلقات میں کشیدگی ختم نہ ہونے کی ذمے داری دونوں ممالک پر عائد ہوتی ہے۔ جس کے نتیجے میں دونوں طرف کے شدت پسند عناصر کو پھلنے پھولنے کا موقع مل رہا ہے۔ عالمی حالات کے تناظر میں ہم یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ خطے میں موجود تناؤ کا حل تہذیبی نرگسیت پر مبنی جنگ و جدل سے ممکن نہیں۔ بلکہ جلد یا بدیر مذاکرات ہی اس مسئلے کا واحد حل ہیں۔ جس میں جس قدر تاخیر ہوگی، عوام کا اتنا ہی زیادہ نقصان ہوگا۔ اس لیے میاں صاحب سے دیگر ریاستی امور پر ان گنت اختلافات کے باوجود خطے میں امن کے بارے میں ان کی سوچ قابل قدر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔