پی ایس ایل فائنل ، ہم سب کا

ایاز خان  بدھ 1 مارچ 2017
ayazkhan@express.com.pk

[email protected]

کپتان بھی کمال آدمی ہے۔ اچھا بھلا چلتے چلتے اچانک کسی انٹرویو یا بیان میں کوئی ایسی متنازعہ بات کہہ دیتے ہیں کہ پوری ن لیگ ان پر چڑھ دوڑتی ہے۔ پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کا فائنل لاہور میں کرانے کا اعلان ہوا تو کپتان نے اس کی مخالفت کر دی۔ جب تک لاہور میں فائنل کا اعلان نہیں ہوا تھا کپتان اس کی حمایت کر رہا تھا۔عمران کا مسئلہ یہ ہے کہ اسے لگی لپٹی بات کرنی نہیں آتی۔ جوش جذبات میں بعض اوقات وہ یہ بھی بھول جاتا ہے کہ ایک ہی ایشو پر پچھلی بار کیا موقف اختیار کیا تھا یہی وجہ ہے کہ مخالفین یوٹرن لینے کا الزام لگا دیتے ہیں۔

کرکٹ کی طرح سیاست میں بھی ٹائمنگ بہت اہم ہوتی ہے۔ کرکٹر کپتان کی ٹائمنگ غضب کی تھی مگر سیاست میں… بہتر ہے، اسے رہنے ہی دیں۔ کپتان کو سیاست کے اسرار و رموز سیکھنے کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ شیخ رشید ان کے اتحادی ہیں۔ وہ جب چاہیں ان سے داؤ پیچ سیکھ سکتے ہیں۔جس دن خان نے لاہور میں فائنل کرانے کی مخالفت کی تھی اسی دن بلکہ تھوڑی دیر بعد شیخ رشید سے فائنل کے حوالے سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ تواسٹیڈیم ضرور جائیں گے دیکھنے کے لیے۔ عمران نے فائنل کے حوالے سے جن خدشات کا اظہار کیا تھا وہ اپنی جگہ درست ہیں لیکن یہ بات کرتے ہوئے وہ بھول گئے کہ عوام کی نبض کیا کہہ رہی ہے۔ عوامی نبض پر ہاتھ رکھنا کوئی شیخ رشید صاحب سے سیکھے۔ کپتان سے زیادہ سوجھ بوجھ کا مظاہرہ تو ان کے وزیراعلیٰ کے پی کے پرویز خٹک نے کیا۔ انھوں نے کہا تھا وقت ملا تو لاہور ضرور جاؤں گا۔

پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کیوں؟ یہ سب سے اہم سوال ہے۔ پورا ٹورنامنٹ دبئی اور شارجہ میں کھیلا گیا تو پھر اس کا فائنل بھی وہیں ہو جاتا تو اس میں کیا برائی تھی۔ کوئی اگر یہ دعویٰ کرے کہ سیکیورٹی کے خدشات ہیں تو اسے بھی غلط نہیں کہا جا سکتا۔ ابھی زیادہ دن نہیںگزرے جب لاہور سمیت ملک کے کئی علاقوں میں دھماکے ہوئے ہیں۔ اللہ کسی حادثے سے بچائے مگر خدشات موجود ہیں۔ جہاں ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے سیکیورٹی فورسز فول پروف سیکیورٹی یقینی بنانے کے لیے دن رات کام کر رہی ہیں وہیں دہشتگرد بھی اپنا وار کرنے کی پوری کوشش کر رہے ہوں گے۔ عوامی خواہشات کے مطابق پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں کرانے کا فیصلہ ہوا ہے تو اب اس کی سپورٹ سب پر فرض ہے۔

اب یہ فائنل پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کا نہیں بلکہ ہم سب کا ہے۔ وزیراعظم، آرمی چیف، وزیراعلیٰ پنجاب سمیت ساری اہم شخصیات سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ فائنل سے چند دن پہلے اسلام آباد میں اقتصادی تعاون تنظیم ( ای سی او) کا انعقاد کر کے دشمن کو یہ پیغام دے دیا گیا ہے کہ پاکستان پر امن ملک ہے۔ ہم دہشت گردوں سے ڈرنے والے نہیں۔ فائنل لاہور میں کرانے کا فیصلہ واپس لینے کا مقصد یہ ہوتا کہ ہم دہشت گردوں سے ڈر گئے ہیں۔

قوم کی خواہش ہے کہ دہشت گردی پر مکمل قابو پا لیا جائے لیکن یہ کیسے ممکن ہے کہ جب تک ان وطن دشمنوں کا خاتمہ نہیں ہوتا ہم اپنے معمولات زندگی ترک کر دیں۔کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ حادثے کے خوف سے انسان سفر کرنا ہی چھوڑ دے۔ کپتان کو خدشہ ہے کہ خدانخواستہ کوئی واقعہ ہو گیا تو مدت تک انٹرنیشنل کرکٹ نہیں ہو سکے گی تو اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے کون سی انٹرنیشنل کرکٹ یہاں ہو رہی ہے۔ 3مارچ 2009ء میں قذافی اسٹیڈیم کے قریب لبرٹی راؤنڈ اباؤٹ پر سری لنکن کرکٹ ٹیم کو نشانہ ہی اس لیے بنایا گیا تھا کہ پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ نہ ہو سکے۔ سری لنکن ٹیم اپنا دورہ ادھورا چھوڑ کر چلی گئی تھی اور پھر ہمارے میدان ویران ہو گئے۔

سری لنکن ٹیم پر حملے کے 6برس بعدمئی 2015ء میں زمبابوے کی ٹیم نے جرات کا مظاہرہ کیا اور 2ٹی ٹوئنٹی اور 3 ون ڈے میچوں کی سیریز کھیلنے پاکستان آگئی۔ تمام 5میچوں کا اہتمام قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کیا گیا۔ دونوں ٹی ٹوئنٹی اور پہلا ون ڈے خیریت سے گزر گیا۔ دوسرے ون ڈے کے دوران رات 9بجے کے قریب اسٹیڈیم جہاں میچ ہو رہا تھا سے کافی فاصلے یعنی فیروز پور روڈ پر ایک خود کش حملہ آور رکشہ میں سوار آیا اور ایک سب انسپکٹر عبدالمجیدکے روکنے پر خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ سب انسپکٹر شہید ہو گیا مگر اس نے دہشتگرد کو سیکیورٹی حصار توڑنے میں کامیاب نہیں ہونے دیا۔ دھماکے کے باوجود دوسرا ون ڈے نہ صرف جاری رہا بلکہ مکمل بھی ہوا۔ زمبابوے کی ٹیم مینجمنٹ تک دھماکے کی خبر پہنچ گئی مگر انھوں نے آخری ون ڈے کھیلنے پر رضامندی ظاہر کر دی۔

کرکٹ کے ساتھ میرا جنون پرانا ہے ۔ ٹی ٹوئنٹی کی سیریز کے دوران مصروفیت ایسی تھی کہ اسٹیڈیم نہیں جا سکا۔ ون ڈے سیریز کے دوران جانا بھی مشکل لگ رہا تھا۔ دوسرے ون ڈے کے دوران دھماکے کی خبر ملی تو تیسرے اور آخری ون ڈے میں شرکت کے لیے اسٹیڈیم جانا ضروری ہو گیا۔ 29مئی کی وہ سہ پہر آج بھی یاد ہے۔ گاڑی قذافی اسٹیڈیم سے ’’میلوں‘‘ دور کھڑی کرنا پڑی۔ کاروں سے اترنے کے بعد پیدل چلتے گئے اور تھوڑا چلنے کے بعد سیکیورٹی چیک کا پہلا ناکہ آگیا۔ اسے کراس کیا، تھوڑی دورچلے تو ایک اور ناکہ آگیا ، اس موقع پر منیر نیازی کا وہ شعر یاد آگیا کہ۔

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو

میں ایک دریاکے پار اترا تو میں نے دیکھا

دوسرے کے بعد تیسرا، پھر چوتھا، پانچواں، چھٹا ۔ ناکے آتے گئے، تلاشی ہوتی گئی اورپھر وہ وقت آگیا جب میں اور میری اہلیہ اسٹیڈیم کے گیٹ کے سامنے کھڑے تھے۔ مجھے حیرت اس بات پر تھی کہ اتنی جگہ جامہ تلاشی اور چیکنگ کے باوجود بالکل برا نہیں لگا ۔ اسٹیڈیم میں داخل ہوا تو کراؤڈ کی تعداد اور ان کا جوش دیکھ کر اندازہ ہوا کہ اس قوم کو دہشت گردوں کی کارروائیوں سے ڈرایا نہیں جا سکتا۔

سنا ہے بیشتر انٹرنیشنل کرکٹر فائنل کے لیے لاہور نہیں آرہے۔ کوئی بات نہیں۔ ہمارے اپنے کھلاڑی موجود ہوں گے۔ ہمارے کھلاڑی بھی انٹرنیشنل ہیں۔ ایسے کھلاڑی جو ابھی ڈومیسٹک لیول پر ہی کھیل رہے ہیں وہ بھی کسی انٹرنیشنل پلیئر سے کم نہیں۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہور میں ہوگا۔ کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کے منٹور ویون رچرڈز لاہور آرہے ہیں۔

توقع ہے کچھ دیگر غیر ملکی بھی آئیں گے۔ کپتان نے شاید لاہور میں فائنل کی مخالفت اس لیے کی کہ نجم سیٹھی پی ایس ایل کے چیئرمین ہیں۔ انھیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ لاہور میں فائنل نجم سیٹھی نہیں پاکستان کرا رہا ہے۔ کپتان صرف سیاستدان نہیں سابق کرکٹر بھی ہیں۔ ان کی بات کا اثر انٹرنیشنل کرکٹر بھی لیتے ہیں۔کپتان کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ نوجوان انھیں بہت پسندکرتے ہیں۔ لاہور میں فائنل کے انعقاد پر آصف علی زرداری نے بھی تنقید کی ہے لیکن انھوں نے الفاظ کا چناؤ بڑی مہارت سے کیا ہے۔

اگرچہ تنقید ان کی بھی غیر مناسب ہے۔ سیاست کو سیاست تک رہنے دیں تو بہتر ہے۔خوشیوں کے لیے ترسی ہوئی اس قوم کو اور نہ ترسائیں۔ کیا کپتان نے یہ نہیں دیکھا کہ ٹکٹوں کے حصول کے لیے شائقین میں کتنا جوش تھا۔ بھارتی میڈیا پر بھی ایک نظر ڈال لیں۔ یوں لگتا ہے کہ وہاں کوئی سوگ کی کیفیت ہے۔ آئیں ! دعا کریں ، پی ایس ایل کا فائنل خیرو عافیت سے ہو جائے۔ پھر ہم جشن اور بھارت سوگ منائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔