آئیڈیل معاشرہ

عابد محمود عزام  بدھ 1 مارچ 2017

چند دن پہلے کی بات ہے ایک دوست کہنے لگا کہ ہمارے ملک میں کتنی زیادہ پریشانیاں ہیں، روز کوئی نئی افتاد ٹوٹ پڑتی ہے۔ غربت، مہنگائی، بیروزگاری، خودکشیوں، ڈاکوں، چوریوں اور قتل و غارتگری سمیت بے شمار پریشانیاں ہی کیا کم تھیں کہ آئے روز کے بم دھماکوں نے زندگی کا سکون غارت کر کے رکھ دیا ہے۔ ٹی وی چلاتے ہیں، اخبار اٹھاتے ہیں تو پریشانی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔

شاید ہی کوئی ایسی خبر ملتی ہو جو تکلیف دہ نہ ہو۔ نت نئی پریشانیاں، نت نئے مسائل استقبال کر رہے ہوتے ہیں۔ ان پریشانیوں کی وجہ سے لوگ ڈپریشن کے مریض بنتے چلے جا رہے ہیں۔ مجھ سے پوچھنے لگا کہ معاشرے کو درپیش ان مسائل سے کسی طرح چھٹکارہ مل سکتا ہے؟ میں نے کہا کہ میرا تو نظریہ یہ ہے کہ یہ سب حالات اس لیے ہیں کہ ہم نے بحیثیت مجموعی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی پیروری کرنا چھوڑ دی ہے، جس کو رب نے بہترین نمونہ قرار دیا ہے۔ ایک پرامن اور پرسکون معاشرے کے قیام کے لیے سیرت النبیؐ کے مطالعے کو عام کرنے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر سیرت النبیؐ کے مطالعے کو عام کیا جائے اور اس پر عمل کرنے کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے تو معاشرے میں پھیلی بے چینی اور بدامنی میں کافی حد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔

معاشرے میں جتنی بھی خرابیاں پائی جاتی ہیں، اس کی شاید سب سے بڑی وجہ سیرت النبیؐ کا عام نہ ہونا ہے۔ اﷲ کے نبیؐ نے ایک آئیڈیل معاشرہ قائم کیا، جس کے لیے دنیا کو اعتدال پر لانا از حد ضروری تھا، اس مقصد کے لیے رسول اللہؐ نے معاشرے میں سدھار لانے کی کوشش کی اور تربیت کے ذریعے ایسے افراد تیار کیے، جن کو غیروں کی اصلاح سے پہلے اپنی ذات کی اصلاح کی طرف توجہ دلائی۔ آج بھی اگر معاشرے میں سیرت النبیؐ کا مطالعہ عام کیا جائے گا تو یقیناً تمام معاملات میں بے اعتدالی کی بنی فضا خودبخود ختم ہو جائے گی اور سیرت نبویؐ کی بدولت جس طرح اس وقت خیرالقرون کا صالح معاشرہ بنا، آج بھی وہی ماحول پیدا ہو سکتا ہے۔

اس وقت آپؐ کی سیرت سے متاثر ہو کر تیار ہونے والے لوگوں کے اندر شرم و حیا، صبر و شکر، دیانتداری و امانت داری اور سخاوت و شرافت، ایثار و قربانی، عفت و پاک دامنی اور تواضع و انکساری کی اعلیٰ صفات پائی جاتی تھیں۔ یہ تمام صفات اگر سیرت نبویؐ کی روشنی میں بیان کی جائیں اور رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اخلاقی تعلیمات کو عام کیا جائے تو آج بھی صالح اور آئیڈیل معاشرہ وجود میں آ سکتا ہے۔ اخلاقیات کا فقدان اور معاملات میں کمزوی موجودہ دور کا بڑا المیہ ہے۔ جھوٹ، چوری، وعدہ خلافی، بغض، کینہ، فخر، غرور، ریا، بدگوئی، فحش گوئی، بدگمانی، حرص، حسد، چغلی سمیت تمام اخلاقی برائیاں پورے معاشرے میں سرائیت کرتی جا رہی ہیں، جن کے سبب معاشرے میں بے چینی اور بدامنی جنم لے رہی ہے۔ اگر سیرت رسولؐ کو عام کیا جائے تو آسانی کے ساتھ اس اخلاقی انحطاط کا بھی علاج ہو سکتا ہے۔

اس وقت ملک میں سب سے بڑا مسئلہ دہشتگردی ہے، جو دو قسم کی ہے۔ ایک دہشتگردی تو وہ ہے جس میں ملک دشمن عناصر ملوث ہیں، اس کا علاج تو حکومت اور متعلقہ اداروں کی جانب سے سخت سیکیورٹی کے ذریعے ہی ممکن ہے، جب کہ دوسری قسم کی دہشتگردی جو مذہب کے نام پر کی جاتی ہے اور کچھ سرپھرے مذہبی انتہاپسند مسلک، فرقے یا نفاذ شریعت کے عنوان سے کرتے ہوئے بے گناہ لوگوں کا خون بہاتے ہیں، اس کا علاج سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عام کر کے ہی کیا جا سکتا ہے۔

یہ لوگ اگرچہ خود کو اسلام کے ٹھیکے دار سمجھتے ہیں، لیکن حقیقت میں سیرت النبیؐ سے نابلد ہوتے ہیں، ان کو معلوم ہی نہیں کہ جس نبی کے دین کا نام لے کر یہ بے گناہ لوگوں کو قتل کر رہے ہیں، وہ نبی تو ہر انسان کے جذبات کا احترام کرنے کا سبق دیتا ہے، مختلف مذہب کے پیروکاروں کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آنے کی تلقین کرتا ہے۔ مذہب کے نام پر دہشتگردی کرنے والے اگر نبی کی سیرت سے واقف ہوتے تو کبھی بے گناہ لوگوں کو قتل نہ کرتے اور جو مذہبی جماعتوں کے کارکن چھوٹے چھوٹے مسلکی اختلافات کو جنگ و جدل کا درجہ دینے لگتے ہیں اور ضد میں آکر اخلاق نبوی کو بھلا کر سطحیت پر اتر آتے ہیں، اخلاقیات کی دھجیاں اڑانا شروع کردیتے ہیں، اگر ان لوگوں کے سامنے نبیؐ کی سیرت ہو تو کبھی ایسا نہ کریں، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آج مذہبی جماعتوں کے کارکنان بھی اخلاق نبوی کو بھلا چکے ہیں، حالانکہ ان کو تو اخلاق نبوی کی عملی تصویر بن کر دکھانا تھا۔

حقیقت یہ ہے کہ ایسے لوگ اخلاق نبوی سے نابلد ہیں، سیرت کا مطالعہ نہیں، جس کا نتیجہ بداخلاقی کی صورت میں نکلتا ہے، ان کو نہیں معلوم ہوتا ہے کن حالات میں کس کے ساتھ کس طرح کا برتاؤ کرنا ہے۔ ہمارے معاشرے میں دیگر مسائل کے ساتھ عصبیت کا اژدھا بھی معاشرے کو ڈس رہا ہے۔ اچھے خاصے سنجیدہ لوگ بھی لسانی، صوبائی، نسلی اور مسلکی عصبیت کا شکار ہیں، حالانکہ رسول اللہؐ عصبیت کے بتوں کو توڑنے کے لیے آئے تھے۔ اگر سیرت رسولؐ کے مطالعے کو عام کیا جائے تو بہت سے مسائل خود ہی دم توڑ جائیں گے۔

حکومت کو اس معاملے میں ذمے داری کا ثبوت دینا چاہیے۔ اس حوالے سے سیرت رسولؐ کو زیادہ سے زیادہ شامل نصاب کرنا چاہیے، تاکہ شروع سے طلبا کو سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کرکے یہ معلوم ہو کہ لوگوں کے ساتھ معاملات کیسے کیے جائیں، دوسروں کو تکلیف دینا کتنا بڑا جرم ہے، کسی بے گناہ انسان کی جان لینا کتنا بڑا جرم ہے، مختلف افکار، نظریات اور بود و باش کے لوگوں کے ساتھ مل جل کر رہنے اور انھیں برداشت کرنے سے متعلق سیرت النبیؐ میں کیا رہنمائی موجود ہے؟

جب آپؐ کے دور میں مختلف مذاہب کے لوگ بغیر لڑائی جھگڑے کے ایک ساتھ زندگی گزار سکتے تھے تو آج مختلف مسالک و فرق اور مختلف نظریات کے لوگ ایک ساتھ باآسانی زندگی کیوں نہیں گزار سکتے؟ حکومت کو سیرت النبیؐ کی کتب کو معاشرے میں زیادہ سے زیادہ عام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سیرت رسولؐ کی کتب مفت تقسیم کی جائیں، اس حوالے سے بک فیئر منعقد کیے جائیں، سیمینارز اور کانفرنسز کا انعقاد کیا جائے۔ علمائے کرام کے زیر نگرانی اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیز کی سطح پر سیرت النبیؐ کے عنوان پر تقریری اور تحریری مقابلے کروائے جائیں۔ یہ بات پورے وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ معاشرے میں جتنا زیادہ سیرت رسولؐ کو عام کیا جائے گا، اتنی ہی تیزی سے معاشرے میں سدھار آتا جائے گا، کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا ہر ہر پہلو لوگوں کی زندگیاں بدلنے کی طاقت رکھتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔