باطن کی روشنی

شبنم گل  بدھ 1 مارچ 2017
shabnumg@yahoo.com

[email protected]

سردیوں کی راتیں طویل ہوتی ہیں۔ قدیم زمانے میں یہ طویل راتیں اکثر قصے،کہانیوں سے بھرپور ہوا کرتیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہArabian Nights (عرب راتوں) کی کہانیاں بہت مشہور ہوئیں۔ جس کے مطابق شہریار نامی بادشاہ جو عورتوں کی بے وفائی سے خائف تھا ہر رات شادی کر کے دوسرے دن اپنی بیوی کو قتل کروا دیا کرتا تھا، لیکن شہر زاد نامی دوشیزہ نے اس کی زندگی میں آکر یہ غیرانسانی روایت ختم کرنے کی کوشش کی۔ وہ ہر رات شہریار بادشاہ کو کہانی سناکر کہانی دوسرے دن مکمل کرنے کا وعدہ کرتی اور بادشاہ کہانیاں سننے کی جستجو میں اسے ایک دن اور جینے کی اجازت دے دیتا۔

ان ہی راتوں کے حسین سحر میں کئی دیومالائی قصوں نے جنم لیا۔ یونانی دیومالائی قصوں میں Phobetor ڈراؤنے خوابوں کا دیوتا کہلاتا ہے، جب کہ Achlys دائمی رات، مصیبت اور دکھ کی دیوی کے نام سے جانی جاتی ہے اور ایریبس اندھیرے کی دیوی۔ رومن میتھالوجی میں ٹریویا، نوکس، لیونا اورلیٹونا بھی تاریکی، بھوت، دہشت و موت اورنحوست کی دیویاں کہلاتی ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ سیاہ رنگ پراسراریت، راز اوربدی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یہ دکھ کا استعارہ بھی ہے۔ ابہام کی طرف اشارہ جوکسی مخفی سوچ کی پیداوار ہوتی ہے۔ یہ ابہام انسانی زندگی کو اپنے منفی سیٹ میں لے لیتا ہے۔ رات کے اندھیرے کے خوف کو Nyctophobia کہا جاتا ہے۔ جو یونانی لفظ Nyctus کا ماخذ ہے، جس کا مطلب گہرا خوف ہے۔ جس کی وجہ دہشت پر مبنی فلمیں، جنوں بھوتوں کے قصے، گھریلو تشدد یا ہیجانی واقعات وغیرہ ہوسکتے ہیں۔ یہ وجوہات نائٹ میئر (ڈراؤنے خوابوں) کا سبب بنتی ہیں۔

انسانی ذہن کمپیوٹر کی طرح ہے۔ اس میں آپ جو خیال فیڈ کریں گے، وہی زندگی اور شخصیت کے راستے متعین کرتا ہے۔ لہٰذا ڈراؤنے خوابوں کو دلچسپ اور خوشگوار خوابوں میں منتقل کیا جا سکتا ہے اگر سونے سے پہلے اچھے تصورات ذہن میں لائے جائیں تو، ان خوف پر مبنی خوابوں کا راستہ روکا جا سکتا ہے۔ یہ خواب روح کے خالی پن کی ترجمانی بھی کرتے ہیں۔ ان کا حل اچھی کونسلنگ بھی ہو سکتی ہے کیونکہ سوچ کا زاویہ بدلنے سے کئی مسائل حل ہو جاتے ہیں۔

رات کا تصور نیند اور آرام سے وابستہ ہے لیکن اچھی اور پرسکون نیند دور حاضر میں محض خواب و خیال بن کر رہ گئی ہے۔ بے خوابی کی وجوہات میں کافی، چائے کا زیادہ استعمال، ڈپریشن، اینگزائٹی اور صحت کے مسائل وغیرہ شامل ہیں۔ اس کی وجہ Sleep Apnea بھی ہو سکتا ہے۔ جس میں رات میں سانس رکنے سے کئی بار آنکھ کھل جاتی ہے اور پورا دن بوجھل گزرتا ہے۔ اسے سیریس ڈس آرڈر کہا جاتا ہے۔ جو جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔

رات کو جاگنے والے زیادہ کھانا کھاتے ہیں۔ جسے Night Eating Syndrome کہا جاتا ہے۔ اسے آپ خطرے کی گھنٹی سمجھ لیجیے جو کئی بیماریوں کا پیش خیمہ بنتی ہے۔ یہ لوگ بھی ڈپریشن اور تشویشی امراض کا شکار ہوتے ہیں۔ جو لوگ ٹھیک سے رات کا کھانا نہیں لیتے انھیں بھی نیند نہیں آتی۔ ہر روز شام کو پینتیس منٹ پیدل چلنے سے اچھی نیند آتی ہے۔ سانسوں کی مشق، اروما تھراپی (خوشبوکو سونگھنا) جس میں لیونڈر،گلاب یا اسینشل آئل وغیرہ کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ دن بھر کام کرنے کے بعد، شام اور رات کے لمحوں کی بہت بڑی اہمیت ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں کی کامیابی کا راز وقت کی مناسب تقسیم ہے۔ جیسے وہاں شام کوکاروبار بند کردیا جاتا ہے۔ بہت کم لوگ رات کو باہر دکھائی دیتے ہیں۔ ساؤتھ ایشیا کے بہت سے ملک یورپ کی تقلید کر رہے ہیں۔ انھوں نے سر شام کاروباری مراکز بند کرکے بجلی کے بحران پر بھی قابو پا لیا ہے۔ رات کی سرگرمیاں ختم ہونے سے جرائم میں بھی کمی آ جاتی ہے۔

رات ہر انتشار کو مرکزیت پر واپس لے کر آتی ہے۔ یہ فطرت کا خالص پن ہے جو دن کے ہنگامے ہم سے چھین لیتے ہیں۔ رات الہامی کیفیات کا سرچشمہ بھی ہے۔ اکثر لوگ رات میں مراقبے اور عبادت سے بھرپور لطف اٹھاتے ہیں۔ انگریزی کے مشہور شاعر شیلے اپنی نظم ’’رات کو خطاب‘‘ میں رات کو شخصیت قرار دیتا ہے۔ وہ رات کی روح کو دھوئیں بھرے غار سے باہر نکلنے کے لیے کہتا ہے۔ غار میں رہتے ہوئے رات، ڈروخوشی کے خواب بن رہی ہے۔ شاعرکو دن کا وقت اچھا نہیں لگتا۔ وہ رات کا شدت سے منتظر رہتا ہے۔ بالکل اسی طرح جان کیٹس اپنی نظم ’’نیند سے خطاب‘‘ میں نیند کو محسوس کرتا ہے، جو نرم انگلیوں سے اس کی آنکھیں بند کرتے ہوئے اسے فراموشی کی حالت میں پہنچاتی ہے۔ وہ نیند کا منتظر ہے جو اسے دن کے دکھ سے بچائے گی۔ نیند ہی ہے جو اس کے دل و دماغ کے صندوق کو بند کرکے اسے ضمیر کے بوجھ سے نجات دلائے گی۔

یہ حقیقت ہے کہ کائنات کی ہر شے کو سکون مل جاتا ہے ماسوائے لاشعور کو۔ یہ ہمارا تحت الشعور مستقل جاگتا ہے۔ جو نہ فقط جسم کی تمام کارکردگی کو فعال رکھتا ہے بلکہ رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ انسان کے دماغ کا یہ حصہ معجزاتی تخلیق ہے۔ جس کے لیے لاشعور سے دوستی کرنی پڑتی ہے۔ جب ہم لاشعور کے شورکو خاموش کراتے ہیں تو دریافت کے سفر پر نکل کھڑے ہوتے ہیں اور ایک غیر مرئی طاقت آپ کی رہنمائی کرنے لگتی ہے۔ یہ قوت آپ کو ہر جگہ ملے گی۔ سورج کی روشنی سے نباتات کی انوکھی اور سرسبز دنیا تک یہ کائنات کا کرشمہ ہی ہے، جو فطری قوانین کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔ ایک بار اگر انسان کو سمجھ آجائے کہ اس کے اندر ایک بہت بڑی طاقت موجزن ہے، تو وہ اپنی زندگی میں بہت کچھ بدل سکتا ہے ناممکن کو ممکن کردکھاتا ہے۔

رات اور تاریکی کو بدی کی قوتوں اور غیر انسانی رویوں سے بھی منسوب کیا جاتا ہے۔ کارل مارکس کے جدلیاتی مادیت سے لے کر تاریکی مادیت اور ایک نئے نظام سوشلزم تک دنیا فکری و روحانی ارتقائی مراحل طے کرتی رہی۔ عالمی جنگ کے بعد روس کے انقلاب نے پسماندہ طبقوں میں نئی روح پھونک دی۔ مگر فاشسٹ اور آمریت کے مہیب سائے روپ بدل کر تاریکی کی تجدید کرتے رہے۔ لہٰذا رات کا ہونا، تاریکی کی دلیل نہیں ہے۔ باطن کی روشنی جبر کے اندھیروں کو ملیا میٹ کر دیتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔