دہشت گرد تنظیموں کا غیر رسمی اتحاد  ‘لمحہ فکریہ

ایڈیٹوریل  جمعرات 2 مارچ 2017
۔ فوٹو: فائل

۔ فوٹو: فائل

شیطان کے ہرکارے یوں تو شرانگیزی میں ایک دوسرے کے معاون ہوتے ہی ہیں لیکن اب انکشاف ہوا ہے کہ دہشت گردی کی خطرناک وارداتوں میں ملوث داعش، ازبکستان اسلامی موومنٹ اور پاکستانی طالبان نے بھی غیر رسمی اتحاد بنالیا ہے، اس بات کا انکشاف افغانستان میں نیٹو کے امریکی کمانڈر جنرل جان نکلسن نے امریکی فوجی ادارے کومبیٹنگ ٹیررازم سینٹر میں ایک انٹرویو میں کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان، پاکستان اور دیگر ممالک میں شدت پسندوں کے درمیان اتحاد امریکا کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔

شدت پسندوں کے اتحاد کی یہ اطلاع یقیناً دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں شامل ملکوں کے لیے پریشان کن اور لمحہ فکریہ ہے۔امریکی جنرل کا کہنا تھا کہ القاعدہ طالبان کے ساتھ رابطے میں ہے۔ داعش، طالبان اور القاعدہ سمیت 5 تنظیموں کا غیر رسمی اتحاد ہے اور یہ ایک دوسرے کی مدد کرتی ہیں۔ امریکی جنرل کا یہ کہنا بھی چشم کشا ہے کہ امریکا کی جانب سے جن 98 تنظیموں کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے، ان میں سے 20 اس خطے میں موجود ہیں۔ جب کہ پاکستان میں حالیہ دہشت گردانہ حملوں میں بھی افغان شہری ملوث پائے گئے ہیں اور پاکستان بارہا عالمی فورم پر یہ بات اٹھاتا رہا ہے کہ خطے میں امن و امان کی خراب صورتحال کے پیچھے بھارت اور افغانستان میں موجود دہشت گرد تنظیمیں ملوث ہیں۔ اسی وجہ سے پاک افغان سرحد کو دہشت گردوں کا داخلہ روکنے کے لیے بند کیا گیا تھا لیکن اب اطلاع ہے کہ افغانستان کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف جنرل مراد علی مراد نے پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر کشیدگی میں کمی لانے اور سرحدی کراسنگ پوائنٹس دوبارہ کھولنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔

افغان جنرل نے سرحد کی بندش سے عوامی مشکلات اجاگر کرتے ہوئے تناؤ کی صورتحال ختم کرنے کی استدعا کی، اور معلومات کے تبادلے کی بنیاد پر دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا وعدہ بھی کیا۔ پاکستان خود افغانستان میں امن کا خواہاں ہے لیکن افغان حکومت کو اپنے ملک میں پناہ گزین دہشت گردوں کے خلاف راست کارروائی کرنی چاہیے، نیز افغانستان کو دہشت گردوں کی جانب سے اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے سے روکنے کے لیے مناسب اقدامات کرنا بھی ضروری ہیں۔ بارڈر مینجمنٹ مستحکم کرنے کے لیے دونوں ممالک مشترکہ کوششیں کریں نیز دہشت گرد تنظیموں کی بیخ کنی کی جائے تاکہ خطے میں امن و امان کا قیام ممکن بنایا جاسکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔