جناح از اے پارلیمنٹرین

سعد اللہ جان برق  جمعرات 2 مارچ 2017
barq@email.com

[email protected]

ہم یہ کالم دوسری بار لکھ رہے ہیں کیونکہ پہلی بار کا لکھا ہوا کالم ’’کوہ غائب‘‘ یا غیبوں کے پہاڑ میں کہیں ایسا غائب ہو گیا کہ نشان ہی باقی نہیں رہ گیا، اکثر پہاڑی سلسلوں میں کوئی نہ کوئی پہاڑ کوہ غائب کے نام سے پایا جاتا ہے، ہمارے اپنے علاقے میں چراٹ کی ایک پہاڑی بھی اس نام سے منسوب ہے، کوئٹہ کے قریب بھی ایک پہاڑ اس نام کا ہے اور افغانستان میں دو تین پہاڑیاں کوہ غائب کہلاتی ہیں۔

اس کے پیچھے ایک کہانی بھی ہے جو بہت لمبی بھی ہے اور ہمیں اچھی طرح یاد بھی نہیں لیکن اتنا یاد ہے کہ ایک شخص اپنے 39 بیٹے اپنی ایک مکار بیوی کے کہنے پر پھینک آیا تھا ۔آخر میں اس مکار عورت کا بھی ایک بچہ پیدا ہو گیا جو نہایت نازو نعم کے باوجود اداس رہتا تھا اور کھیلنے کے لیے بھائی مانگتا تھا لیکن عورت کا دوسرا بچہ ہو نہیں رہا تھا، پھر انھوں نے سنا کہ وہ 39 بچے جو پہاڑوں میں پھنکوا دیے گئے تھے صحیح سلامت ہیں، تو انھوں نے کسی کے مشورے پر یہ تدبیر کی کہ اس آخری بچے کو پہاڑ کے قریب بٹھایا جائے تو وہ 39 بچے اس کے پاس آجائیں گے لیکن جب ایسا کیا گیا تو وہ انتالیس بچے اس چالیسویں بچے کو بھی ساتھ لے کر پہاڑ میں غائب ہو گئے، اس لیے اس پہاڑ کو ’’کوہ غیب‘‘ کہتے ہیں۔

واللہ اعلم،  چنانچہ اب ایک ایسا ہی کوہ غیب میں جا کر عدم پتہ ہونے والا کالم ہم دوبارہ لکھ رہے ہیں، یہ دراصل بھٹو دور کے ایک ممتاز سیاست دان ،کابینہ کے وزیر اور اہل قلم ملک محمد جعفر کی اس کتاب پر تبصرہ تھا جس کا نام ’’جناح از اے پارلیمنٹرین‘‘ تھا، کتاب نہایت ہی وقیع اور پرمغز تھی، خصوصی طور پر آج کل جب کہ پارلیمنٹ ایک تماشا گاہ کی صورت اختیار کر چکی ہے وہ وہ تماشے اور بازی گر دیکھنے میں آتے ہیں کہ بے چارے اخبار نویس حیراں ہیں کہ انھیں کیا نام دیں،کبھی کہتے ہیں ایوان مچھلی بازار بن گیا کبھی سرخی لگاتے ہیں کہ پارلیمنٹ میں سبزی منڈی کے مناظر، اکا دکا ہارس اینڈ کیٹل شو بھی کہہ دیتے ہیں کیوں کہ پارلیمان ہی میں پارلیمان کی روایتوں کو پامال کیا جاتا ہے، اکثر ممبران پارلیمنٹ اپنے اپنے استحقاق پر تو بات کرتے ہیں لیکن کبھی کسی نے پارلیمنٹ کے حق استحقاق کے لیے کوئی تحریک جمع نہیں کی ہے۔

ملک محمد جعفر نے جناح صاحب کے ان نظریات کا گہرائی سے مطالعہ کیا ہے جو جناح صاحب کے پارلیمنٹ کے بارے میں تھے، مرحوم کی آرزو تھی کہ پاکستان نہایت ہی صاف ستھری پارلیمانی سیاست کی مثال بن جائے اور ان کے نظریات کے یہ خدوخال ان کی اس تاریخی تقریر میں بھی نظر آتی ہیں جو انھوں نے پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کو مخاطب کر کے کی تھی، پارلیمنٹ اس کی حرمت اور روایات کے معاملے میں وہ اتنے سنجیدہ تھے کہ ایک عرصے تک وہ برطانوی پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں جاتے رہے تھے اور نہایت غور کے ساتھ پارلیمانی روایات، طریقہ کار اور ہونے والی تقاریر کا مشاہدہ کرتے تھے۔

ملک محمد جعفر کی یہ کتاب جناح از اے پارلیمنٹرین اس موضوع پر ایک نہایت ہی بھرپور اور رہنماء کتاب ہے جن لوگوں کو پاکستان کی آئیڈیالوجی اور پارلیمان سے ذرا بھی واسطہ ہو ان کو یہ کتاب غور سے پڑھنا چاہیے بل کہ ازبر کرنا چاہیے اسے اگر ہم پارلیمانی گائیڈ بک قرار دیں تو یقیناً درست ہو گا، اس کتاب کو بہت پہلے شایع ہو جانا چاہیے تھا اور ممکن ہے شایع ہو بھی جاتی لیکن اس سے پہلے کہ کتاب مارکیٹ میں آئے ضیاء الحق کا مارشل لاء آگیا جس کے بعد پارلیمنٹ اور پارلیمانی سیاست کا ایک طرح سے جنازہ ہی نکل گیا، لیکن اب بھی دیر نہیںہوئی ہے بل کہ اب اس کی ضرورت پہلے سے بھی زیادہ ہے، محترمہ ساجدہ جعفرجو ملک صاحب کی بیٹی ہیں انھوں نے اپنے لائق اور دانشور والد کے کام کو منظرعام پر لانے کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے، اس سے پہلے بھی انھوں نے اپنے والد کی زندگی اور کام پر ایک بڑی اچھی کتاب شایع کی ہے نام ’’جن روزوں ہم درویش ہوئے‘‘ کبھی کبھی ہمیں رشک آتا ہے جب کسی کی ایسی اولادیں دیکھتے ہیں کیوں کہ یہ تمنا ہماری بھی ہے۔

بیٹے تو زندگی کے تیز رفتار گھڑ سوار بل کہ جاکی ہوتے ہیں وہ نہ ادھر دیکھتے ہیں نہ ادھر بل کہ پیچھے تو بالکل بھی مڑ کر نہیں دیکھتے، صرف بیٹیاں ہی اکثر والدین کی زندگی میں بھی محبت کا سرچشمہ ہوتی ہیں اور موت کے بعد بھی، اسی لیے تو ان کو رحمت قرار دیا گیا ہے،محترمہ ساجدہ جعفر بھی ایک ایسی ہی بیٹی ہیں جنہوں نے اپنے والد کو ایک طرح سے دوبارہ زندہ کر دیا ہے اور ملک محمد جعفر اپنے اس ’’پنر جنم‘‘ اپنے صحیح قدو قامت کے ساتھ نظر آرہے ہیں، اس کتاب میں صرف پارلیمانی باتیں ہی نہیں ہیں بل کہ یوں کہئے کہ برصغیر کی پوری سیاسی اور پارلیمانی تاریخ بھی اس میں آگئی ہے، ملک محمد جعفر بھٹو کے ساتھ تھے، وزیر بھی رہے لیکن جب انھوں نے بھٹو صاحب کے کہنے اور کرنے میں تضاد دیکھا تو بہت سے اہل فکر کی طرح

شہد آں کہ اہل نظر درکنارہ می رفتند

ہزار گونہ سخن درد ہان و لب خاموش

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔