ملک کی مجموعی آبادی میں سندھ کا حصہ (پہلا حصہ)

تاج حیدر  جمعرات 2 مارچ 2017

صوبہ سندھ کی اصل آبادی کتنی ہے اور پاکستان کی مجموعی آبادی میں سندھ کی آبادی کا تناسب کیا ہے؟ یہ سوال نہ صرف قومی اور صوبائی اسمبلی میں سندھ کی نشستوں کے اعتبار سے اہم ہے بلکہ ملک کے مجموعی وسائل کی تقسیم میں صوبہ سندھ کو جائزطور پرکتنا حصہ ملنا چاہیے اس اعتبارسے بھی اس سوال کی اہمیت کہیں زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

اصل صورت حال یہ ہے کہ ایک جانب تو دوسرے صوبوں سے اور دوسرے ملکوں تک سے لوگ مسلسل سندھ میں آرہے ہیں اورسندھ کی اپنی آبادی میں اضافے کی شرح بھی ملکی اوسط شرح پیدائش سے کہیں زیادہ ہے تو دوسری جانب مختلف حیلوں بہانوں سے سندھ کی آبادی کو اس کی اصل تعداد سے کہیں کم دکھایا جاتا رہا ہے، وجوہات صرف اور صرف سیاسی ہیں۔ سندھ پر بوجھ کو بڑھانے اورسندھ کے جائز وسائل سندھ کو نہ دینے کے پیچھے گہری منصوبہ بندی ہے۔افسوس اس بات کا ہے کہ آنے والی آدم شماری میں اس سیاست کو بڑے پیمانے پر دہرایا جارہا ہے اور اس بات کا شدید خطرہ ہے کہ پہلے کی طرح اگلے دس سال تک بھی سندھ کو مجموعی قومی وسائل میں سے اس کا جائز حصہ نہیں ملے گا اور دوسرے صوبوں سے نقل مکانی کرنیوالوں کی سندھ میں آمد اسی طرح جاری رہے گی۔

کوشش کی جارہی تھی کہ آدم شماری کرانے کو ایک ناممکن عمل دکھاکر آیندہ تیس سال کے لیے صوبائی آبادیوں کے موجودہ لیکن نا انصافی پر بنائے ہوئے تناسب کو منجمدکر دیا جائے۔ ہم نے دو سال قبل ایک کل جماعتی کانفرنس منعقدکرائی تھی جس میں سندھ کی اٹھائیس چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں نے فوری طور پر درست رائے شماری کرانے کی قرارداد متفقہ طور پر منظورکی تھی۔ مرکز نے اس متفقہ قرارداد کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی اور اگر سپریم کورٹ اس معاملے میں براہ راست حکم نہ دیتی توآئین کی یہ سنگین خلاف ورزی شاید اسی طرح جاری رہتی۔ جی ہاں سپریم کورٹ کے حکم پر بظاہر عمل درآمد تو ہورہا ہے لیکن جو اقدامات کیے جارہے ہیں،ان سے یہی بات سامنے آرہی ہے کہ سندھ کے ساتھ ایک بار پھر شدید نا انصافی ہونے جارہی ہے۔

چند روز قبل میں نے کہا تھا کہ سندھ کی آبادی ملک کی مجموعی آبادی کا تیس فی صد حصہ ہے۔ میڈیا کے کئی دوستوں نے مجھ سے سوال کیا کہ آخر میں نے یہ حساب کس طرح لگایا ہے۔ میرا جواب کہیں چھپا کہیں نہیں چھپا۔ معاملے کی اہمیت کے پیش نظر میں یہ مناسب سمجھتا ہوں کہ قسط وار مضامین کی شکل میں پورے دلائل اور شواہد کے ساتھ مردم شماری کے عمل میں کوتاہیوں اور نا انصافیوں پر بات کی جائے۔ دوسرے دوست بھی اس مسئلے پر اس کی حقیقی اہمیت کے پیش نظر بات کریں اوراگر کہیں ہم غلطی پر ہیں تو اس کی بھی نشان دہی کی جائے تاکہ غلطیوں کو درست کیا جائے اور مردم شماری قابل اعتبار ہوجائے۔ مختلف مردم شماریوں کے انعقاد کے وقت جو سیاسی عوامل ان مردم شماریوں پر اثر انداز ہوئے ان کا بھی ذکر کرنا ہمیں مسئلے کو اس کے پس منظرکے ساتھ سمجھنے میں مدد دے گی۔

ملک میں پہلی مردم شماری 1951 میں ہوئی تھی۔ اس وقت آبادی کے لحاظ سے بڑا صوبہ مشرقی پاکستان تھا اور ہمارے لیے کوئی وجہ اس بات کی نہیں تھی کہ موجودہ پاکستان کے کسی بھی صوبے کی آبادی کوکم دکھایا جائے۔ اس مردم شماری میں جس کو بڑی حد تک قابل اعتبارکہا جاسکتا ہے صوبہ سندھ کی آبادی موجودہ پاکستان کی آبادی کا 18.1 فی صد شمار ہوئی تھی۔

ملک میں دوسری مردم شماری 1961میں دس سال کے وقفے کے بعد کرائی گئی تھی۔ مشرقی پاکستان اس وقت بھی ہمارے ملک کا حصہ تھا، صوبوں کو ختم کرکے ون یونٹ بنایا جاچکا تھا لیکن کوئی وجہ نہیں تھی کہ اس وقت کے مغربی پاکستان میں کسی بھی حصے کی آبادی کو اس کی اصل آبادی سے کم دکھایا جائے۔ اس مردم شماری میں ہمیں دوسرے علاقوں سے سندھ میں بڑے پیمانے پر انتقال آبادی اور قومی اوسط کے مقابلے میں سندھ کی اپنی شرح پیدائش کے زیادہ ہونے کا ایک واضح رجحان نظر آتا ہے۔ 1961 کی اس رائے شماری میں سندھ کی آبادی اس وقت کے مغربی پاکستان اور موجودہ پاکستان کی آبادی کا 19.6 فی صد تھی۔ یعنی یہ کہ دس سال کے عرصے میں مجموعی آبادی کے حصے کی حیثیت سے سندھ کی آبادی میں 1.5 فی صدکا اضافہ ہوا۔

ملک کی مجموعی آبادی میں سندھ کے حصے میں تیزی سے اضافے کا رجحان 1972کی آدم شماری میں بڑے واضح طور پر سامنے آتا ہے۔ اس وقت ملک دولخت ہو چکا تھا۔ مرکز میں ذوالفقار علی بھٹو برسر اقتدار تھے اور سندھ اور پنجاب دونوں میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت تھی۔ بلکہ اگر دیکھا جائے تو پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں پاکستان پیپلزپارٹی کی سندھ کی صوبائی اسمبلی کے مقابلے میں بڑی اکثریت تھی۔ اس لیے ایک صوبے کی آبادی بڑھانے اور دوسرے کی کم کرنے کی بظاہرکوئی وجہ نہیں تھی۔ 1972کی آدم شماری میں سندھ کی آبادی ملک کی مجموعی آبادی کا 21.8 فی صد تھی۔گویا کہ گیارہ سال کے اس عرصے میں اس تناسب میں 2.2 فی صد کا اضافہ ہوا تھا۔

1972کے بعد سندھ کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے، جس کی وجوہات ہر ایک کی نظر میں ہیں۔ بنگلہ دیش سے نقل مکانی کرنے والوں کی بہت بڑی تعداد کسی دوسرے صوبے میں نہیں بلکہ سندھ میں آکر آباد ہوئی۔اسی طرح اس وقت بنگلہ دیش کے معاشی حالات میں عدم استحکام کے باعث بنگلہ دیش کے محنت کشوں کی بڑی تعداد روزگار کی تلاش میں سندھ آئی اور مستقل طور پر قیام پذیر ہوگئی۔ بنگلہ دیش سے روزگار کی تلاش میں آنے والے ہمیں کسی دوسرے صوبے میں نہیں ملتے۔

اسی طرح پنجاب، صوبہ پختونخوا اور فاٹا سے محنت کشوں کی بہت بڑی تعداد نقل مکانی کرکے روزگار کی تلاش میں 1972کے بعد سندھ میں آباد ہوئی۔ انتقال آبادی کا یہ ایک ایسا رجحان ہے جس میں مسلسل اضافہ ہوا ہے اورکسی قسم کی کمی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ اس کے برخلاف سندھ کے لوگوں کے صوبہ پنجاب یا کسی بھی دوسرے صوبے میں جاکر آباد ہونے کے کسی قسم کے شواہد نہیں پائے جاتے۔

ذوالفقار علی بھٹوکی ہر پاکستانی کو پاسپورٹ دینے اور مشرق وسطیٰ کے ممالک میں پاکستانی محنت کشوں کے لیے وسائل روزگار تلاش کرنے کے نتیجے میں محنت کشوں کی بڑی تعداد میں بیرون ملک جانے کے رجحان میں تیزی پنجاب، پختونخوا اور فاٹا میں دیکھنے میں آئی۔ سندھ سے انتہائی قلیل تعداد میں محنت کش اس دوران بیرون ملک گئے اور جب ہم کبھی بیرون ملک جاتے ہیں تو وہاں سندھ کے رہنے والے خال خال ہی نظر آتے ہیں۔

(جاری ہے ۔)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔