شفاف انتخابات کس کی ذمے داری؟

نجمہ عالم  جمعرات 2 مارچ 2017
najmalam.jafri@gmail.com

[email protected]

مکمل اور واضح اصلاحات کے بغیر اگلے انتخابات کرانا ملک پر ایک غیر ضروری بوجھ کے سوا کچھ نہیں۔ اگر جیسے انتخابات اب تک ہوتے رہے ہیں ویسے ہی 2018کے بھی ہوں تو ممکن ہے کہ کرسی وزارت عظمیٰ پر چہرہ بدل جائے (جس کا کوئی خاص امکان نہیں) مگر طرز حکمرانی بدلے گا نہ معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی رونما ہوگی۔ جہاں طاقت کا سرچشمہ عوام نہیں دولت ہو، ووٹر (عوام) کے حالات بدلنے کا امکان دور دور نظر نہیں آتا۔ ویسے سننے میں آیا ہے کہ کچھ اصلاحات حزب مخالف کے شور مچانے پر ہوئی تو ہیں، مگر یہ سب الفاظ کا ہیر پھیر ہی ہو گا۔ نظام حکمرانی میں 19، 20 کا کچھ فرق ہوجائے تو اور بات ہے مگر اس کے ثمرات بھی عوام کے لیے نہیں حکمرانوں تک ہی محدود رہیںگے۔

موجودہ ایوان کی رسم حلف برداری میں ہمیں بھی شرکت کا اعزاز حاصل ہے۔ خواتین کی گیلری میں ارد گرد بیٹھی خواتین کی گفتگو سے پتہ چلا کہ کسی کے چاچے آٹھویں بار، کسی کا ماما چھٹی بار، کسی کا بیٹا تیسری بار اور کسی صاحبہ کے شوہر ساتویں بار ایوان کے رکن منتخب ہوئے ہیں اور یہ خواتین اتنی ہی بار ایوان کی اس تقریب میں شرکت سے لطف اٹھاچکی ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ایوان پر مخصوص افراد کا باقاعدہ ’’قبضہ‘‘ ہے۔

واضح ہو کہ ’’مخصوص افراد‘‘ کا، مخصوص جماعت کا نہیں، کیونکہ جو صاحب آٹھویں یا ساتویں بار ایوان کا حصہ بنے ضروری نہیں کہ ہر بار ایک ہی جماعت کے نمایندے رہے ہوں، یہ بھی ہوسکتا ہے بلکہ ہوتا ہے کہ وہ ہر بار ممکنہ طور پر حکومت بنانے والی جماعت کے ٹکٹ پر منتخب ہوتے ہوں۔ جو حلقہ ان کا ہے اس سے ان کے علاوہ اور کوئی جیت ہی نہیں سکتا تو سیاسی پارٹیاں خود انھیں اپنے ٹکٹ پیش کرتی ہیں اور وہ حالات اور موقع کی مناسبت سے جس جماعت کا ساتھ دینے پر راضی ہو جائیں، وہ خود کو خوش قسمت سمجھتی ہے۔

ایسے افراد جب ایک بار ایوان میں آگئے تو اب انھیں کوئی مہلک بیماری یا دنیا سے کنارہ کشی ہی یہاں آنے سے روک سکتی ہے۔ مگر اس کا مطلب بھی نہیں کہ یہ حلقہ کسی اور کو مل جائے گا، ان کے بعد ان کا بھائی، بیٹا یا بھتیجا ان کی نشست پر ایوان میں تشریف لے آئیںگے۔ یہ سارا چکر دولت خرچ کرکے دولت سمیٹنے کا ہے۔ یعنی سیاست نہیں تجارت ہے۔ ایوان میں برادریوں، جاگیرداروں، وڈیروں، چوہدریوں اور سرداروں کے اکاؤنٹ کھلے ہیں اب وہ جتنی بار چاہیں خود ایوان میں آئیں یا کسی ’’اپنے‘‘ کو بھیجیں۔

ہمارا سیاسی نظام اندر سے کھوکھلا، بظاہر بے حد مضبوط ہے۔ ہر پارٹی جمہوریت کی دہائی دے کر شخصی آمریت کو برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہے اور عوامی خدمت کے دلکش نعرے لگاکر عوام کے ایسے ایسے مسائل جن سے خود عوام بھی واقف نہ ہوںگے، ان کے انتخابی منشور کا نمایاں حصہ ہوتے ہیں۔ بڑے بڑے جلسے جن پر کروڑوں کا خرچ آتا ہے ان میں سادہ لوح عوام کو غلط معلومات فراہم کرکے امیدوار کو ’’فرشتہ‘‘ ثابت کیا جاتا ہے۔ عوام کی محرومیوں کو سنہرے خوابوں کی تھپکی دے کر سلادیا جاتا ہے۔

یوں عوامی نمایندے کے نام پر علاقے کا وڈیرہ یا ان کا کوئی ’’چہیتا‘‘ ایوان میں پہنچ کر عوام دشمن بلز پیش کرتا ہے اور اکثریتی جماعت کے ووٹوں سے وہ بل پاس بھی ہوجاتا ہے۔ یہ وہ عمل ہے جو برسوں سے دوہرایا جارہا ہے اور شاید آیندہ بھی ایسا ہی ہوتا رہے۔ اگر انتخابات کو مراعات یافتہ گروہوں کے قبضے سے آزاد نہ کرایا گیا تو قبضہ گروپ سے انتخابات کو کیسے آزاد کرایا جائے؟ یہ سوال اہم اور خصوصی توجہ کا حامل ہے۔ نجی محفلوں میں سیاست کے ستائے خواتین و حضرات عموماً اپنے اپنے انداز سے نظام کے نقائص پر اظہار خیال کرتے ہیں۔

ان میں سے کچھ بڑی سادہ مگر کارآمد آرا بھی سامنے آتی ہیں۔ اگر ان کو یکجا کرکے ان سے استفادہ کیا جائے تو حالات پر باآسانی قابو پایا جاسکتا ہے۔ ہم نے ان میں سے چند آرا کو سامنے لانے کی کوشش کی ہے۔ عوام کی اکثریت کو یقین ہے کہ اگر چار عناصر اپنا اپنا کردار ذمے داری سے ادا کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ صورتحال تبدیل نہ ہو سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ الیکشن کمیشن، عدلیہ، ذرایع ابلاغ اور خود عوام اپنی فکر اور رویے سے انتخابات کے نظام کو بہتر کر سکتے ہیں۔

انتخابات کی شفافیت کی ذمے داری الیکشن کمیشن اور عدلیہ یکساں طور پر عاید ہوتی ہے، عدلیہ کا فرض ہے کہ کسی بھی ایسے شخص کو جس پر کسی بھی مد میں کوئی الزام یا مقدمہ عائد ہو یا وہ کسی بھی معاشرتی برائی میں ملوث ہو اس کو نااہل قرار دیا جائے۔ خاص کر انتخاب کے لیے دولت کے استعمال کو ناجائز قرار دیا جائے۔ ذمے دار، باکردار، جذبہ خدمت خلق کے حامل افراد جو دولت کی ہوس میں مبتلا نہ ہوں۔ ذاتی کردار اور عوامی خدمت کے لیے خود کو وقف کرنے والے ہی منتخب ہوکر ایوانوں میں آئیں۔ جو عوامی مسائل کو حل نہیں کرنے کا اخلاقی فرض ادا کرنے کے لیے شہرت رکھتے ہوں۔

یہ ساری باتیں کہنے یا لکھنے میں تو آسان ہیں، مگر سب سے پہلے ہر طرح کی بدعنوانی کو لگام دینی ہوگی جو موجودہ صورت حال میں ایک گمبھیر اور مشکل امر ہے، مگر ناممکن ہرگز نہیں۔ یہ کام عدلیہ اور الیکشن کمیشن کی غیر جانبدارانہ ذمے داری سے ممکن بنایا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں سیاسی جماعتوں کے جلسوں پر بے دریغ اخراجات کو غیر ضروری اور ملکی دولت کا بے جا استعمال قرار دیا جائے۔

ساتھ ہی ہر سیاسی جماعتوں کو ضابطہ اخلاق (جواب بھی موجود ہے مگر بے عملی کا شکار ہے) کا پابند کیا جائے، اس میں سرفہرست یہ ہو کہ ان افراد کو ٹکٹ دیا جائے جو بڑی قیمت دے کر نہیں بلکہ اپنی کارکردگی کی بنا پر آگے آنا چاہتے ہوں۔ جو اپنے حلقے کی پسندیدہ شخصیت اور عوامی خدمت کے حوالے سے اپنا کوئی پس منظر رکھتے ہوں۔ ایوان کے حلف نامے میں واضح تبدیلی کی جائے کہ ایوان کارکن اپنے ووٹر کے مفاد کو مدنظر رکھنے کا پابند ہے، پارٹی لیڈر یا وڈیرے کے مفاد کا نہیں۔ اس حلف کی خلاف ورزی پر فوری طور ایسے رکن کو معطل کردیا جائے اور عدلیہ ایسی شخصیت کو تاحیات نااہل قرار دیں۔

ذرایع ابلاغ کا کردار اس سلسلے میں بے حد اہم ہے۔ وہ انتخابی اصلاحات کو ہر خبرنامے کا حصہ بنائیں۔ ہر پروگرام سے پہلے، درمیان میں عوام کو آگاہی فراہم کریں، ملکی مفاد کو مدنظر رکھیں، عوام جن کا ووٹ سب سے زیادہ اہم ہے ان کو بھی سوچنا چاہیے کہ ستر سالہ مسائل کا حل ان کے ووٹ کے درست استعمال میں پوشیدہ ہے تو ان کو چاہیے کہ وہ عوامی نمایندگی کو یقینی بنائیں۔

باتیں اور تجاویز تو بہت ہیں۔ بیس کروڑ دماغ کچھ نہ کچھ سوچتے ہیں مگر ان کی فکر پر بھی اگر پہرے ہوں، وہ چیختے چلاتے اور بولتے رہیں اور کسی کے کان پر جوں نہ رینگے تو اس کا مطلب ہے کہ یا تو عوام بے حس ہوگئے ہیں یا پھر کوئی انقلاب رونما ہونے کو ہے۔ بہرحال انتخابات کی شفافیت، غیر جانبدارانہ اور مفید ہونے کے لیے الیکشن کمیشن، عدلیہ، ذرایع ابلاغ اور خود عوام پر بھاری ذمے داری عائد ہوتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔