طلاق؛ اس سانحے سے کیسے بچا جائے

سیّد ذوالقرنین شاہ  جمعـء 3 مارچ 2017
طلاق کی حد سے بڑھتی ہوئی شرح ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ فوٹو: فائل

طلاق کی حد سے بڑھتی ہوئی شرح ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ فوٹو: فائل

یہ حقیقت ہے کہ میاں بیوی کا رشتہ اعتماد اور بھروسے کی بنیاد پر قائم رہتا ہے اور جب کبھی دونوں میں اعتماد اور بھروسے کا فقدان ہو تو اِس رشتے کی بنیادیں بھی کم زور ہو جاتی اور یہ رشتہ ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔ اگر دونوں میں اعتماد اور بھروسے کی بنیادیں مضبوط رہیں گی تو یہ رشتہ بھی مضبوط تر ہوتا جائے گا اور کبھی زوال پذیر نہیں ہوگا۔

عدم برداشت بھی طلاق کا ایک اہم سبب ہے اگر دونوں فریق برداشت اور تحمل سے کام لیں اور ایک دوسرے کی غلطیوں سے درگزر کریں تو اِس مقدس رشتے کو قائم رکھنا آسان ہے۔ چوں کہ ہماری معاشرتی اقدار میں شادی ایک سمجھوتا ہے، جو لوگ اپنے شریک حیات سے سمجھوتا کرلیتے اور گھریلو و زندگی کے دیگر اُمور میں باہمی مشاورت اور رضامندی سے کام لیتے ہیں، ایک دوسرے کی معمولی غلطیوں سے درگزر کرتے ہیں۔

اُن کی شادی قائم رہتی ہے اور جو لوگ سمجھوتا نہیں کرپاتے اُن کا یہ مقدس رشتہ ٹوٹ جاتا ہے۔ طلاق و خلع کے واقعات کا جائزہ یہ بتاتا ہے کہ شادی شدہ افراد میں جدائی کا سبب بننے والی بنیادی وجوہات میں گھریلو ناچاقی سرفہرست ہے، جب کہ ایثار و قربانی کا فقدان، جبری شادی، مشترکہ خاندانی نظام سے بغاوت، سماجی مرتبے کا حصول، حرص و ہوس، بیوی یا شوہر کا شکی مزاج ہونا بھی طلاق و خلع کی شرح میں تیزی سے اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔

طلاق کے اسباب میں سے ایک اہم سبب دین سے دوری ہے، اس کے بعد دیگر وجوہات آتی ہیں۔ چوں کہ ایک مسلم خاندان کی ابتدا نکاح سے ہوتی ہے، اِس لیے اسلام میں نکاح ایک ایسا سماجی معاہدہ ہے، جسے اسلام نے تقدیس عطا کرکے اسے عبادت کا درجہ دیا ہے اور اسلام یہ چاہتا ہے کہ یہ رشتہ تاحیات برقرار رہے، جس کے لیے اسلام نے ایسے اقدامات تجویز کیے ہیں جو اِس مقدس رشتے کی بقاء کی ضمانت دیتے اور اسے دوام بخشتے ہیں۔

یہ رشتہ اِس قدر عظیم ہے کہ اِس میں منسلک ہونے کے بعد ایک جوڑا جس میں اِس سے پہلے کوئی شناسائی نہیں ہوتی، ایک دوسرے سے بے پناہ پیار و محبت کا اظہار کرتا اور ہر خوشی و غمی میں زندگی بھر کا ساتھی بن جاتا ہے۔ اِن کا باہمی تعلق اِس قدر لطیف ہے کہ قرآن مجید نے دونوں کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا ہے۔ تاہم بعض اوقات یہ عظیم رشتہ مکدر ہو جاتاہے اور اِس میں دراڑیں پڑجاتی ہیں، اگر بشری کم زوریوں اور سماجی حالات کی وجہ سے اِس رشتے کو برقرار رکھنا مشکل ہوجائے تو شریعت مطہرہ نے طلاق کو انتہائی ناپسندیدہ عمل قرار دیتے ہوئے ایک دوسرے سے جدا ہونے کا راستہ رکھا ہے۔

اسلام اجازت دیتا ہے کہ فریقین طلاق کے ایک متعین طریقہ کار پر عمل کرتے ہوئے ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں کہ شاید اِس جدائی کے بعد اﷲ کریم اُن کے لیے خوش گوار زندگی کا کوئی اور سبب بنادے۔ طلاق نہایت ہی مجبوری کی حالت میں دی جا سکتی ہے۔

طلاق کی حد سے بڑھتی ہوئی شرح ایک لمحۂ فکریہ ہے، اس عمل کو حلال کاموں میں سب سے زیادہ ناپسندیدہ قرار دیا گیا ہے اور شیطان کو سب سے زیادہ خوشی شوہر اور بیوی کے درمیان علیحدگی کرانے سے ہوتی ہے۔ لیکن آج جب ہم اپنے معاشرے میں طلاق کے بڑھتے ہوئے واقعات دیکھتے ہیں اور اِن کے اعداد و شمار کا جائزہ لیتے ہیں تو ایک خطرناک تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔ لہٰذا ضرورت اِس بات کی ہے کہ اس صورت حال پر معاشرے کے حساس اور ذمہ دار طبقات اور علماء کو خصوصی توجہ دینے اور اِس کے اسباب کا جائزہ لے کر تدارک کرنے کی شدید ضرورت ہے۔ جس معاشرے میں طلاق کی کثرت ہوجائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ وہ معاشرہ اپنی فطری زندگی کے راستے سے بھٹک گیا ہے۔

طلاق خانگی زندگی کی تباہی کے ساتھ سب سے زیادہ اولاد کو متاثر کرتی ہے اور طلاق کی آگ کی لپیٹ میں دو خاندان بری طرح جلتے اور جھلستے رہتے ہیں۔ طلاق جیسا انتہائی قدم اٹھانے والے لمحے بھر کو بھی اِس نکتے پر غور نہیں کرتے، نتیجتاً اُن کے بچوں کی زندگی تباہ ہوجاتی ہے اور وہ کبھی نہ ختم ہونے والے احساس کم تری اور نفسیاتی عوارض کا شکار ہوجاتے ہیں۔

نفسیاتی اور دماغی امراض کے اسپتالوں میں کیے گئے سروے کے مطابق اِن بیماریوں میں مبتلا ہونے والے مریضوں میں بڑی تعداد ایسے افراد کی ہوتی ہے جو طلاق کی وجہ سے بچپن میں والدین کی شفقت سے محروم ہوجاتے ہیں۔ یہ محرومی بچوں کو جرائم کی طرف راغب کرنے کا سبب بنتی ہے۔ بعض اوقات طلاق خودکشی اور قتل کا سبب بھی بن جاتی ہے۔ جن والدین کے درمیان طلاق واقع ہوجاتی ہے، اُن کے بچے معمول کی زندگی گزارنے کے قابل نہیں رہتے اور عدم توازن اور عدم تحفظ کا شکار ہوجاتے، اُن کی تعلیمی اور معاشرتی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور اُن میں اعتماد اور خودداری کا ہمیشہ فقدان رہتا ہے جو معاشرے کو ایک مفید اور کار آمد شہری سے محروم کردیتا ہے۔

طلاق کے بڑھتے ہوئے رُجحان میں کمی کے لیے شوہر و بیوی دونوں کو اپنے درمیان اعتماد اور دوستی کو فروغ دیتے ہوئے ایک دوسرے کے حقوق کی پاس داری کرنا ہوگی اور مل جُل کر صورت حال کو بہتر بنانا ہوگا۔ طلاق کی وجہ سے مرد و خواتین اپنی جھوٹی انا کے لیے نہ صرف اپنا بل کہ دو خاندانوں کی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ معاشرتی سطح پر چوں کہ ہر خاندان ایک سماجی اکائی ہوتا ہے، اس لیے خاندانوں کے ٹوٹنے کا یہ عمل معاشرتی تبدیلیوں کے ساتھ سماجی شکست و ریخت کی نشان دہی بھی کرتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔