اخلاقِ حسنہ؛ مومن کی میراث

علامہ محمد تبسّم بشیر اویسی  جمعـء 3 مارچ 2017
اگر آپ ؐ کا غلام بیمار پڑجاتا تو اُس کی جگہ خود اس کا کام انجام دیتے تھے۔ فوٹو : فائل

اگر آپ ؐ کا غلام بیمار پڑجاتا تو اُس کی جگہ خود اس کا کام انجام دیتے تھے۔ فوٹو : فائل

اﷲ تعالیٰ نے اخلاق، آغاز فطرت میں سب سے پہلے حضرت آدمؑ کو دیا اور حضرت آدم سے انبیائے کرامؑ نے ترکے میں پایا، یہاں تک کہ حضرت سیدِعالم ﷺ تک پہنچا اور آپؐ سے امت کو ورثے میں ملا ہے۔

اسی طرح تمام بُرے اخلاق، تقسیم کے وقت شیطان کو دیے گئے اور اس سے متکبروں اور نافرمانی کرنے والوں تک پہنچے اور یہی شیطان کی امت کہلائے۔ تو جو کوئی شریعت کی پیروی میں زیادہ مضبوط ہوگا، اُس کی خصلت اور اخلاق بھی اچھے ہوں گے۔ کیوں کہ اچھی خصلت والا بارگاہ خداوندی میں زیادہ عزیز ہو تا ہے۔

اخلاق حسنہ کا مظہر احکامِ خداوندی کی بجا آوری اور رسول اﷲ ﷺ کی پیروی کرنا ہے۔ کیوں کہ آپؐ کا رہن سہن اور جملہ افعال اﷲ تعالیٰ کو بہت پسند تھے۔ تو جو شخص آپؐ کی پیروی کرتا ہے اس پر لازم ہے کہ اس طرح زندگی بسر کرے، جیسی حضور اکرم ؐ نے بتائی ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ سب کے ساتھ اچھا برتاؤ رکھے۔ لوگوں کے ساتھ بدمزاجی سے پیش نہ آئے۔ ہنس مکھ اور کم بولنے والا اور سلام میں پہل کرے۔

کیوں کہ حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کی ملاقات اصحابؓ کے ساتھ اگر ایک دن میں سو مرتبہ بھی ہوتی، تو آپ ؐ ہر بار سبھی کو سلام کرتے تھے۔ جو کچھ اسے میسر ہے اسی میں سخاوت کرے۔ کیوں کہ حضور اکرمؐ کی زندگی میں کبھی اس کا موقع نہ آیا کہ رات تک آپؐ کے پاس ایک درہم یا ایک دینار باقی بچا ہو۔ غیبت، گالی اور جھوٹ سے پرہیز کرے۔ کیوں کہ اچھے اخلاق کی صفت بے تکلفی اور سادگی ہے۔ اپنے احوال و اعمال اور گفت گو میں سچائی کے دامن کو نہ چھوڑے اور شریعت کی اتباع میں کھانا، سونا، پہننا اور بولنا کم کر دے، ہرحال میں بلند ہمت رہے اور لالچ سے خود کو آلودہ نہ کرے۔ شک و شبے اور برباد کردینے والے خیالات سے کنارہ کشی اختیار کرے اور اس کی کوشش کرتا رہے کہ ہر حال میں حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ کے اسوہ حسنہ کی پیروی ہو۔ جہاں تک ہوسکے برے اخلاق سے پرہیز کرے۔ بل کہ اُسے اپنے پاس بھی نہ آنے دے تاکہ اس کی نسبت شیطان سے نہ ملنے پائے اور شیطان کی طرح بدکردار اور بدزبان نہ ہو۔

حضرت انس بن مالکؓ روایت کرتے ہیں کہ میں نے دس برس تک حضرت سرورِعالم ؐ کی خدمت کی۔ آپؐ نے کسی کام پر مجھ کو نہیں کہا کہ تونے کیوں کیا یا برا کیا۔ جب میں اچھا کام کرتا تو آپ ؐ دعا دیتے تھے اور جب مجھ سے کوئی کام خراب ہو جاتا تھا تو فرماتے تھے، اﷲ کا حکم اس کی قدرت میں پوشیدہ تھا۔ آپؐ اپنے ہاتھ سے کپڑے سیتے اور پیوند لگاتے، گھر کے کاموں میں خدام کے ساتھ شریک ہو جاتے، جوتوں کی مرمت کرتے، خود جھاڑو دیتے اور چراغ جلاتے تھے۔

حضور اکرم ؐ ساری زندگی گالی گلوچ، طعنہ و تشنیع کے الفاظ زبان پر نہیں لائے۔ آپؐ کا چہرۂ مبارک ہمیشہ مسکراتا اور اگر کوئی مسلمان آپؐ کے پاس پہنچ جاتا تو آپ ہی سلام کے لیے سبقت فرماتے اور اپنے اصحابؓ کے ساتھ اس طرح گھل مل کر بیٹھتے کہ کوئی امتیاز نہ ہوتا تھا۔

یہاں تک کہ اجنبی کو پہچاننے میں شبہہ ہوتا تھا کہ حضور اکرم ؐ کون ہیں۔ صحابہ کراؓم کی عزت و تکریم کی وجہ سے اُن کے نام نہ لیتے بل کہ ان کی کنیت وغیرہ سے پکارتے تھے۔ اگر کسی کی کنیت نہ ہوتی تو اس کی ایک کنیت آپ خود رکھ دیتے اور اگر صحابہ کرامؓ میں سے یا کوئی دوسرا شخص آپؐ کو پکارتا تو لبیک فرمایا کرتے تھے۔ اگر بچوں کی منڈلی کی طرف سے گزرتے تو اُن کو سلام کرتے اور مسلمانوں کا عیب ہمیشہ چھپایا کرتے تھے۔ بال بچوں اور غلاموں کا حق برابری کے ساتھ، جس طرح شریعت میں ہے، کا لحاظ رکھتے اور دین کی تبلیغ کرنے میں کفار کی گالیاں، لعن طعن اور مار تک برداشت کرتے، کبھی کسی سائل کو محروم واپس نہ کرتے۔ اگر کچھ موجود ہوتا تو دیتے ورنہ فرماتے اگر خدا نے چاہا تو ہم دیں گے۔ اپنے کام کے لیے آپؐ کسی پر غصہ نہ کرتے اور دین حق کے اعلان میں خوف، سستی اور تغافل نہ فرماتے۔ پریشانی اور بیماری کی حالت میں اپنے دوستوں کی مدد کرتے۔ اگر کسی وقت ان کو نہ دیکھتے تو ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے۔

اگر آپ ؐ کا غلام بیمار پڑجاتا تو اُس کی جگہ خود اس کا کام انجام دیتے تھے۔ بازار سے سودا لاتے تھے۔ آزاد اور غلام کی دعوت قبول فرماتے اور تحفہ لے لیتے تھے، اگرچہ ایک گھونٹ دودھ ہی کیوں نہ ہوتا۔ کبھی کھانے میں عیب نہ نکالتے اور جو کپڑا جن کا پہننا مباح ہے، جب کبھی مل جاتا تھا پہن لیتے تھے۔ کبھی کمبل، کبھی یمن کی چادر، کبھی کھدر اور کبھی سفید کپڑا پہنا کرتے تھے اور جو سواری مل جاتی تھی اس پر سوار ہوتے تھے۔ اُس چٹائی پر جس پر کوئی بستر نہ ہوتا آرام فرماتے تھے۔ کوئی شخص آزاد یا غلام یا لونڈی باندیوں میں سے اپنی ضرورت کے لیے آپؐ کو بلاتا تو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ حضور اکرم ؐ نے اُن کا کام نہ کیا ہو۔

اگر کوئی شخص کسی ضرورت سے آپؐ کے پاس آتا اور آپؐ نماز میں مشغول ہوتے تو جلد نماز پوری کرکے اُس کی طرف متوجہ ہوجاتے اور اُس کی ضرورت پوری کرکے پھر نماز پڑھنے لگتے۔ جو کوئی آپ ؐ کے پاس آتا تھا اُس کی تعظیم فرماتے تھے اور اس کے بیٹھے کو اپنی چادرِ مبارک بچھا دیتے اور اپنا تکیہ اس کو دے دیتے تھے۔

حضرت امام حسنؓ اور امام حسینؓ کے لیے آپؐ سواری بن جاتے اور وہ دونوں لاڈلے آپ ؐ کی پشتِ مبارک پر سوار ہوجاتے۔ اگر آپ ؐ کے دیگر معجزے نہ بھی ہوتے تو یہ اخلاقِ حمیدہ اور صفاتِ پسندیدہ ہی آپؐ کے برحق و برگزیدہ ہونے کے ثبوت میں کافی ہیں۔ چناں چہ کتنے ہی دشمن اور انکار کرنے والے ایسے گذرے ہیں کہ محض آپ ؐ کو دیکھ کر ہی پکار اُٹھے تھے کہ، یہ جھوٹ بولنے والوں کا چہرہ نہیں ہے اور اسلام قبول کر لیتے تھے۔ بغیر کسی معجزہ اور دلیل کے یہی وہ اخلاق ہیں جو علم والوں نے طریقت کے راستے میں اختیار کیے ہیں۔

ہر حالت میں یہ لوگ شریعت کی پیروی کرنا ضروری سمجھتے ہیں اور اپنے اخلاق کو سنتِ نبویؐ کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ جب تک کوئی شخص شریعت پر کاربند نہ ہوگا، طریقت سے اُس کو کوئی فائدہ نہ پہنچے گا اور وہ اخلاق کی جڑ معرفت تک نہیں پہنچ سکتا۔ اس راستے پر چلنے والے کے لیے ضروری ہے کہ اپنی بصیرت سے اس درجے پر پہنچنے کی کوشش کریں اور اخلاق نبوی ؐ سے آراستہ ہوجائیں اور جو کچھ خدا کی بخشش کی وجہ سے حاصل ہوجائے اُسے محفوظ رکھیں۔ انسان کا نفس آئینے کی مانند ہے۔ جب اس کی تربیت ہوتی ہے تو اپنے کمال کے درجے پر پہنچ جاتا ہے اور زنگ سے پاک صاف ہو جاتا ہے۔ اپنے کو پہچانے کہ واقعی وہ کیا ہے اور کس لیے پیدا کیا گیا ہے۔

الحمدﷲ ہم مسلمان اور مومن ہیں۔ لیکن موجودہ دور میں ہمارے اخلاق ناقابل برداشت حد تک ترش اور تند ہوگئے ہیں۔ چغلی، غیبت، جھوٹ، گالم گلوچ اور عیب جوئی ہمارا شغل بن چکا ہے۔ ہمیں اخلاقِ عظیم کے حامل رسول کریمؐ کے امتی ہونے کے ناتے سے ہر ممکن حد تک اپنے اخلاق میں سنتِ نبوی ؐ کی جھلک لانا ضروری ہے تاکہ معاشرے اخلاق کی خوش بو سے ایک بار پھر معطر ہوجائے۔

ﷲ تعالیٰ ہمیں اچھے اخلاق کی دولت سے مالا مال فرمائے۔ آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔