نماز کے سماجی و معاشرتی اثرات و فوائد

عبدالحمید مدنی  جمعـء 3 مارچ 2017
’’بلا شبہ نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔‘‘ فوٹو: فائل

’’بلا شبہ نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔‘‘ فوٹو: فائل

دینِ اسلام کی روح عبادات ہیں، جن میں سے نماز کو سب پر فوقیت حاصل ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہم سب کے آقا و مولیٰ ﷺ نے نماز کو اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا، قابلِ غور بات یہ ہے کہ آپ ﷺ نے نماز کو ہی اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کیوں قرار دیا۔۔۔ ؟ حالاں کہ اس کے علاوہ روزہ، حج ، زکوٰۃ اور جہاد  بھی اسلام کی امتیازی عبادات میں سے ہیں، تو ممکن ہے کہ کسی ذہن میں اس کا جواب یہ ہوکہ قرآن مجید میں چوں کہ اس کا ذکر بقیہ عبادات کے مقابلے میں زیادہ ہے، اس لیے اسے فوقیت حاصل ہے، لیکن بہ نظر غائر دیکھا جائے تو اس کی بہت سی اہم وجوہات اس کے علاوہ بھی ہیں، جن میں سے کچھ کا قدرے تفصیل سے یہاں ذکر کرنا مقصود ہے۔

نماز کے معاشرے پر کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ تو غور سے نماز کی ادائی کا جائزہ لینے کے بعد اس نتیجے پر پہنچنا مشکل نہیں رہتا کہ ’’ رکوع کرو، رکوع کرنے والوں کے ساتھ‘‘ کا قرآنی حکم اپنے اندر حکمت و دانش کے بے پناہ نکات سموئے ہوئے قارئینِِ قرآن کو غور و فکر کی دعوت دیتا ہے، کہ باجماعت نماز کی ادائی سے ہی اس کے حقیقی فوائد و ثمرات کا حصول ممکن ہوسکتا ہے۔ کیوں کہ اسلام انفرادی کے بہ جائے اجتماعی عبادات پر زیادہ زور دیتا ہے۔

اس لیے کہ اجتماعی عبادات جہاں اپنے اندر قبولیت کے زیادہ مواقع رکھتی ہیں، وہاں مسلمانوں کی انفرادی و اجتماعی اخلاقیات پر بھی گہرے اثرات مرتب کرتی ہیں، جس کا لازمی نتیجہ باہمی ہم دردی و غم گساری اور تعاون کی صورت میں برآمد ہوتا ہے، اور ماہرینِ سماجیات کے مطابق یہی وہ بنیادی عوامل ہیں جو ایک معاشرے کو پرامن، باوقار، جنت نظیر اور عدل و انصاف کا حامل بناتے ہیں، اور ایسا معاشرہ ہی ایک ترقی پسند، روشن خیال اور پرامن و غیرت مند قوم کی تعمیر کرتا ہے۔

ہمارے آقا و مولیٰ ﷺ نے اسی لیے اس کی ترغیب دی کہ جس کے کانوں تک اذان کی آواز پہنچے، وہ حتی الامکان مسجد میں جا کر نماز ادا کرے۔ کیوں کہ نماز کی ادائی دن میں پانچ مرتبہ جماعت کے ساتھ ہو تو مسلمان دوسرے مسلمان بھائیوں کے حالات و واقعات سے بہ ہر صورت آگاہ ہوں گے۔

یہاں ایک سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ حج اور جہاد بھی تو اجتماعی عبادات ہیں، ان کو بھی فوقیت حاصل ہونی چاہیے، تو یہاں یہ فرق ضرور ملحوظ رہے کہ بلاشبہ حج اور جہاد بھی اجتماعی عبادات ہیں اور ان کی اہمیت بھی مسلمہ ہے، لیکن حج کا موقع چوں کہ سال میں ایک ہی بار ملتا ہے، اور وہ بھی اصحابِ استطاعت کو، جب کہ نماز میں ہر روز پانچ بار مسلمان اکٹھے ہوتے ہیں، خواہ کوئی امیر ہے یا غریب، بادشاہ ہے یا فقیر، گورا ہے یا کالا سب ایک ہی صف میں کھڑے ہوکر اپنے رب کے حضور عہد و پیمان یوں باندھتے ہیں کہ وہی ان کا خالق و مالک اور رازق و معبود ہے، وہی اس لایق ہے کہ اس کی بارگاہ میں جبینِ نیاز جھکائی جائے، اسی سے امیدیں وابستہ کی جائیں اور ہر معاملے میں اسی کی طرف رجوع کیا جائے۔

اسی طرح جہاد بھی اجتماعی عبادت ہونے کے باوجود ضرورت پڑنے پر ہی ممکن ہوتا ہے، پھر اس کے دوران بھی اگر نماز کا وقت ہوجائے تو اس کڑے وقت میں بھی مجاہدین کو دو گروہوں میں تقسیم ہوکر باجماعت نماز کی ادائی کا حکم اسی لیے دیا گیا تاکہ اجتماعی عبادات میں نماز کی اہمیت واضح ہو جائے۔ گویا اجتماعی عبادت بے شمار فیوض و برکات کی حامل ہے، اور اس میں بھی نماز کو بقیہ اجتماعی عبادات پر فوقیت حاصل ہے۔

ایک اور زاویے سے بھی دیکھا جائے تو نماز کی اجتماعی ادائی کا ایک اہم فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ جب ایک مسلمان اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کے ساتھ اجتماعی عبادت کرتا ہے تو عملی زندگی میں وہ ان کے ساتھ معاملات میں اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ کہیں مجھ سے کسی دوسرے مسلمان بھائی کے ساتھ ظلم و ناانصافی نہ ہوجائے، کیوں کہ اگر ایسا ہوا تو وہ ایک طرف اس مسلمان بھائی کا مجرم ہوگا، جس کے ساتھ وہ نماز باجماعت ادا کرتا ہے، اور دوسری طرف وہ اﷲ کا بھی مجرم ہوگا، جس سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں۔ چناں چہ یہ احساس اسے کسی پر ظلم و زیادتی کرنے سے بھی روکے گا، اور گناہوں سے بھی کنارہ کشی پر مجبور کردے گا۔

یہی وجہ ہے کہ قرآن نے اس حقیقت کی وضاحت یوں کی کہ ’’ بلا شبہ نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔‘‘ سماجی سائنس بھی یہی بتاتی ہے کہ جو معاشرہ بے حیائی اور برائی سے دور رہتا ہے اسی معاشرے میں اخلاقی اقدار پروان چڑھتی ہیں۔ ایک اور جہت سے دیکھا جائے تو وہ فرمانِ رسول ﷺ جس میں نماز کی صفیں درست کرنے کی ترغیب دی گئی ہے، اس میں اس بات کا بھی تذکرہ موجود ہے کہ صفیں درست نہ کرنے کے سبب دلوں میں دوریاں پیدا ہوتی ہیں، جب کہ صفیں درست کرنے سے نماز کی اجتماعی روحانیت کا سرور دوبالا ہوجاتا ہے، جس کا لازمی نتیجہ آپس میں ایک دوسرے کے لیے باہمی محبت اور خلوص کے جذبات جنم لیتے ہیں، نفرتیں دم توڑ دیتی ہیں اور اتفاق و اتحاد کی فضا قائم ہو تی ہے، جسے مسلم معاشرے کی جان قرار دیا جائے تو یقیناً بے جا نہیں ہوگا۔ اسی حقیقت کی طرف قرآن نے یوں متوجہ کیا ’’اور اﷲ کی رسی کو خوب مضبوطی سے پکڑلو اور تفرقہ نہ کرو۔‘‘

ﷲ کریم ہمیں صحیح معنوں میں اجتماعی و انفرادی عبادات کی ادائی کی توفیق عطا فرمائے، آمین

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔