دہشت گردی کی حالیہ لہر اور پاک افغان تعلقات

محمد عارف خان  جمعـء 3 مارچ 2017
30 سال افغانیوں کی مہمان نوازی کے باوجود اُن کے دلوں میں پاکستان سے نفرت کی بیج کون بو رہا ہے؟ ایسے عناصر کی فوری طور پر تلاش اور اُن کو منہ توڑ جواب دینے کی  ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

30 سال افغانیوں کی مہمان نوازی کے باوجود اُن کے دلوں میں پاکستان سے نفرت کی بیج کون بو رہا ہے؟ ایسے عناصر کی فوری طور پر تلاش اور اُن کو منہ توڑ جواب دینے کی ضرورت ہے۔ فوٹو: فائل

دسمبر 1979ء کی سرد شامیں اور یخ بستہ راتوں میں روسی جارحیت کے نتیجے میں اپنے گھروں کا سکون اور آرام چھوڑ کر پاکستان کی طرف ہجرت کرنے والے افغان، جن کی ہجرت کے اِس سفر کے دوران ناجانے کتنی عورتوں کے سہاگ اُجڑے اور نہ جانے کتنے بچے اپنی ماں کی گود کی گرمی اور باپ کی شفقت سے محروم ہوئے۔ اِن افغان مہاجرین کی تقریباً پوری ایک نسل ناصرف پاکستان میں پیدا ہوئی بلکہ پڑھ  لکھ کر باعزت زندگی گزارنے کے قابل بھی بنی۔ انہی گلیوں نے اِن کے معصوم بچپن اور لڑکپن کے کھیلوں اور اِس دوران دوستوں سے لڑائی اور پھر دوستی ہونے کی یادوں کی آبیاری بھی کی اور اِسی ارضِ پاک کے اساتذہ کے ہاتھوں زندگی کا شعور سیکھا۔ لیکن آج حالات کی یہ کروٹ کہ پشاور میں آرمی پبلک اسکول کے معصوم پھول جیسے بچوں پر ظلم اور سینکڑوں ماؤں کی گودیں اجاڑنے کا غم ہو یا میرے شہر کوئٹہ کے کوچہ و بازار کو خون میں نہلانے کی ناپاک کوشش، سیہون شریف میں رنگ و نسل سے پاک ہر مسلک، رنگ اور مذہب کی قید سے آزاد درگاہ کے صحن میں اپنی سوچوں میں مست معصوم زائرین کو زندگی کی قید سے آزاد کرنے اور اُن کے لواحقین کو ایک نہ ختم ہونے والے کرب و بلا کے اندھیروں میں دھکیلنے کی مذمموم سازش، بدقسمتی سے اِن سب کے تانے بانے افغان سرزمین اور افغان باسیوں سے جا ملتے ہیں۔ کسی نے کیا خوب ہی کھا تھا

دیکھا جو تیر کھا کے کمین گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی

یقینی طور پر قارئین کو اِس بات کا علم ہوگا کہ افغانستان میں پانچ مختلف قومیں آباد ہیں جن میں پختون، پنجشیری، تاجک، ازبک اور ہزارہ شامل ہیں۔ پختون کُلّی اور ہزارہ جزوی طور پر پاکستان سے ہمدردی رکھتے ہیں جبکہ تاجک اور ازبک ملا جلا رجحان رکھنے والے ہیں مگر پنجشیری مکمل طور پر پاکستان مخالف جذبات رکھتے ہیں۔ قارئین کی دلچسپی کے لئے بتاتا چلوں کہ فارسی زبان بولنے والے احمد شاہ مسعود کی 2001ء میں ہلاکت کو بھی پاکستانی کارروائی گردانتے ہیں۔

انشاءاللہ آئندہ کسی تحریر میں افغانستان اور خصوصاً اُس کی موجودہ اور سابقہ سیاست کو احاطہ تحریر میں لاؤں گا مگر آج مقصد صرف افغانستان سے جڑی، پاکستان کے اندر حالیہ دہشت گردی اور اُن سے جڑے اسباب اور افغان عوام کے دل و دماغ میں پاکستان سے متعلق ابہام اور شکوک و شبہات کو قارئین کے لئے پیش کرنا مقصود ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث بلواسطہ یا بلاواسطہ افغان اوراُن کی زمین یقینی طور پر بھارتی خفیہ ادارے (را) کی براهِ راست مالی اور تکنیکی امداد پر تکیہ کیے ہوئے ہے۔ افغان قیادت اور اُس کی بیوروکریسی کا بھارت کی طرف جھکاؤ اور بھارتی اداروں کو غیر معمولی تعداد میں تعمیراتی ٹھیکے، بالخصوص پاکستان کی شمال مغربی سرحد کے ساتھ ساتھ (گردیز تابہ قندھار) اور بھارتی افرادی قوّت کو اُن کے لئے ویزا اجراء میں خصوصی نرمی اِس بات کی غمازی کرتی ہے کہ اِس تعمیراتی کام کی آڑ میں بھارتی ناصرف پاکستانی سرحدی علاقوں کی ریکی کرتے ہیں بلکہ ایسے افراد کو بھی فنڈ کیا جاتا ہے جو پاکستان میں باآسانی داخل ہوکر اپنے مذموم مقاصد حاصل کرتے ہیں اور یہاں موجود مقامی معصوم لوگوں کو مذہبی بنیاد پر جہاد اور خود کش حملوں کے لیے تیار کرتے یا کرواتے ہیں۔ دوسری طرف افغان عوام کو یہ باور کروایا جاتا ہے کہ بھارت افغانستان کے انفرا اسٹرکچر کی تعمیر نو کررہا ہے جبکہ پاکستان نے افغانستان کو تباہ کیا ہے۔

الحمداللہ آپریشن ضربِ عصب نے عسکری لحاظ سے دشمن کی کمر ضرور توڑی ہے لیکن ضربِ عصب کی دیرپا اور مستقل کامیابی کے لنے چند اور خطوط پر ہمیں جنگی بنیادوں پر کام کرنا ہوگا۔

قابلِ غور بات یہ ہے کہ بحیثیت ایک پڑوسی (افغانستان) اور 30 سالوں تک اُن کی میزبانی کرنے وا لے پاکستان کے درمیان اعتماد اور انحصار کے رشتے کو متزلزل اور اُس کے انحطاط میں کون سے ایسے عوامل ہیں؟ایسے عناصر کی فوری طور پر تلاش اور اُن کو منہ توڑ جواب دینے کی  ضرورت ہے۔

پاکستان کی سب سے پہلے ترجیح اپنے خفیہ اداروں کی اپ گریڈنگ اور فنڈنگ کے بعد وزارت خارجہ یا وزیراعظم ہاؤس میں ایک خصوصی افغان امور کے ڈیسک کا قیام ہونا چاہیے جسے کوئی سابق ISI عہدیدار لیڈ کرے۔ دوسری ایک اہم ضرورت افغان عوام کو ویزا کے حصول میں آسانی ہونی چاہیے یعنی لوگ بغیر کسی قطار اور طویل انتظار کے ویزا حاصل کرسکیں۔ جن افراد کو کابل جانے کا اتفاق ہوا ہے وہ جانتے ہیں کہ پاکستانی سفارت خانے کے سامنے سرِ شام ہی لمبی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں اور ایک دن میں صرف 100 افراد کو ویزا جاری کیا جاتا ہے۔ یہ ناکافی ہے اور اِس پر نظرِثانی کی ضررورت ہے۔

دوسری طرف بھارت بغرض علاج اور افغان نوجوانوں کو تعلیمی ویزے بڑی تعداد جاری کرتا اور ظاہر ہے کہ جب یہ لوگ بھارت سے تعلیم حاصل کرکے واپس آتے ہیں تو اُن سے پاکستان نوازی کا سوچنا خام خیالی ہوگا۔ لہٰذا ہمیں بھی افغان نوجوانوں کی تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کا کوئی راستہ نکالنا چائیے۔ افغان درسگاہوں میں بھارتی اساتذه بھی بڑی تعداد میں پہنچ چکے ہیں اور اپنے ’’خیالات‘‘ سے ایک ایسی نئی کھیپ تیار کررہے ہیں جو مکمل طور پر پاکستان سے نفرت کرتے ہیں۔

آخر میں ایک بہت اہم معاملے کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کروانا چاہوں گا۔ اِس وقت افغانستان میں کم و بیش 6 ٹیلی ویژن اور کم و بیش اتنی ہی تعداد میں ریڈیو چینل آن ایئر ہیں جن میں ایک بہت بڑی تعداد بھارتی کارمندوں کی ہے۔ اِن کارمندوں میں قابلِ ذکر مینجمنٹ اور پالیسی ساز حضرات کی ہے۔ بھارتی ڈرامے فارسی زبان میں ترجمہ کرکے بھارتی ثقافت کو افغانستان کے کوچہ کوچہ و گلی گلی پہنچا دیا گیا ہے۔

اِس بات کا اندازہ قارئین میرے ساتھ پیش آنے والے ایک واقعے سے بخوبی لگا سکتے ہیں کہ میں ایک دن کابل شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ میں سفر کررہا تھا جس میں چند ہی لوگ بیٹھے تھے اور اُن دنوں بھارتی ڈرامے کا ایک کردار ’’تلسی‘‘ اپنے عروج پر تھا اور شاید اُس ڈرامے میں وہ شدید زخمی یا ہلاک ہوجاتی ہے۔ ایک اُدھیڑ عمر باریش شخص اُس وین میں سوار ہوا  اور تھوڑے توقف کے بعد اپنے ہاتھ دعا کے لیے اٹھا کراونچی آواز میں بولا کہ ’’کل تلسی مرگیا، سب دعا کرو کہ اللہ اُس کی مغفرت کرے۔‘‘

یہ بات بتانے کا مقصد یہ ہے کہ بھارتی ثقافت کس حد تک افغان باشندوں کے ذہنوں میں سرائیت کرچکی ہے۔ یہ بات بظاہر مشکل ہے لیکن ہمیں بھی کوئی ایسا چینل ضرور بانان یا فنڈ کرنا چائیے جہاں ہمارے پاکستانی ڈرامے فارسی زبان میں ڈب کرکے آن ایئر کیے جائیں۔ یہ ایک بہت زود اثر نسخہ ہے جو بہت کم وقت میں پاکستان اور افغان عوام کے درمیان ذہنی خلیج کو کم کرسکتا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
محمد عارف خان

محمد عارف خان

بلاگر اینجلیا رسکن یونیورسٹی لندن سے بزنس مینجمنٹ میں گریجویٹ ہیں اور مختلف پاکستانی اور بین الاقوامی فارماسیوٹیکل کمپنیوں سے وابستہ رہے ہیں۔ آپ کی خصوصی دلچسپی کے موضوعات میں پاک افغان تعلقات کے علاوہ پاکستان میں تعلیم و صحت سے متعلق امور شامل ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔