سرد جنگ کے بعد اسلحہ کی فروخت نئے ریکارڈ قائم کرنے لگی

رانا نسیم  اتوار 5 مارچ 2017
مغربی ممالک میں گزشتہ پانچ سال کے دوران اسلحہ کی درآمد میں 36 فیصد کمی ہوئی۔  فوٹو : فائل

مغربی ممالک میں گزشتہ پانچ سال کے دوران اسلحہ کی درآمد میں 36 فیصد کمی ہوئی۔ فوٹو : فائل

بدقسمتی! سے کرہ ارض پر انسان کا سب سے بڑا دشمن وہ خود ہے اور اس دشمنی میں ایک دوسرے کو زیر کرنے کے جنون نے آج اسے لاٹھی، خنجر، تلوار، نیزے، تیرکمان سے نیوکلئیر ہتھیاروں تک پہنچا دیا، حالاں کہ اس جنون کا نتیجہ انسانیت کی تباہی کے سوا کچھ نہیں۔

خود کو محفوظ رکھنے کی دوڑ نے ہتھیاروں کو مہلک بنا دیا لیکن ان ہتھیاروں کے جنون نے ان کے موجدوں کو بھی پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے جس کی ایک بڑی مثال مشہورِ زمانہ اے کے 47 رائفل کے بانی میخائیل کلاشنکوف ہیں، جو مرنے سے پہلے اپنے ڈیزائن کردہ ہتھیار سے پھیلنے والی تباہی اور اموات پر بہت رنجیدہ تھے۔

میخائل نے مرنے سے چند ماہ قبل روسی آرتھوڈوکس چرچ کے سربراہ پیٹریارک کیرل کو ایک خط کے ذریعے اپنی فکرمندی سے آگاہ بھی کیا۔ ’’میں تکلیف میں ہوں، میں اپنے آپ سے ایک الجھا ہوا سوال پوچھتا رہتا ہوں، اگر میری بنائی رائفل سے لوگوں کی زندگیاں چھینی جاتی ہوں، تو کیا ان کی اموات کی ذمہ داری مجھ پر عائد ہوتی ہے؟ چاہے وہ دشمن ہی ہوں؟‘‘ ماہرین کے مطابق اے کے 47کلاشنکوف انسانی تاریخ کی سب سے موثر مارنے والی (killing) مشین ہے، جس کی وجہ سے آج بھی دنیا بھر میں ہر سال تقریباً تین سے ساڑھے تین لاکھ لوگ مارے جاتے ہیں۔

آج دنیا بھر میں اسلحہ کی صنعت تیزی سے ترقی کر رہی ہے، جس کی وجہ اس کی وہ منڈی ہے، جس کو بنانے میں امریکہ اور روس جیسی دنیا کی بڑی طاقتوں کا ہاتھ ہے۔ ’’بغل میں چھری اور منہ میں رام رام‘‘ کے مصداق ایک طرف تخفیف اسلحہ کی باتیں کی جا رہی ہیں تو دوسری طرف اس صنعت کے ذریعے معاشی مضبوطی و استحکام کی تدبیریں کی جا رہی ہیں۔

چند روز قبل دنیا کے مستند اور بااثر تھینک ٹینکس میں شمار ہونے والے سٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری) نے دنیا میں اسلحہ کی خریدوفروخت کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس میں بیان کئے جانے والے حقائق فکر کا وہ لمحہ ہیں کہ اگر بروقت اس کے تدارک پر اتفاق نہ کیا گیا تو دنیا کو تباہی سے شائد کوئی نہ بچا سکے۔

اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری) نے اپنی تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ گزشتہ پانچ سال (2012ء سے2016ء) میں اسلحہ کی بین الاقوامی فروخت نے ایک نیا ریکارڈ قائم کر دیا ہے، کیوں کہ سرد جنگ کے بعد اسلحہ کی فروخت میں اتنے عرصہ میں کبھی بھی اس حد تک اضافہ نہیں ہوا۔ اسلحہ کی فروخت میں2007-11 کی نسبت 2012-2016 کے دوران 8.4 فیصد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 2012ء سے 2016ء کے دوران ایشیاء، مشرق وسطی اور بحرالکاہل کے ساحلوں پر واقع ممالک (Oceania) میں اسلحہ کی برآمد میں اضافہ ہوا جبکہ اسی دورانیہ میں یورپ، امریکہ اور افریقا میں یہ طلب کم ہوئی۔ براعظم جنوبی اور شمالی امریکہ میں واقع ممالک میں 2007-11ء کی نسبت 2012-2016ء میں اسلحہ کی خریداری میں 18 فیصد کمی واقع ہوئی۔

مغربی ممالک میں گزشتہ پانچ سال کے دوران اسلحہ کی درآمد میں 36 فیصد کمی ہوئی۔ تاہم دلچسپ امر یہ ہے کہ دنیا بھر میں فراہم کیے جانے والے اسلحے کا نصف سے زائد امریکا اور روس مہیا کر رہے ہیں۔ گزشتہ 5 برسوں کے دوران دنیا کے مختلف ملکوں کو فراہم کیے گئے مجموعی اسلحے کا 56 فیصد امریکا اور روس کی جانب سے دیا جاتا ہے۔

ہتھیار برآمد کرنے والے ملکوں میں تیسرا نام چین کا ہے۔ اِس رپورٹ کا کہنا ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں ایک سو ملکوں کے نام اسلحے کی بین الاقوامی فروخت میں شامل ہیں اور ان سو ممالک کو درآمد کْل ہتھیاروں میں امریکی اسلحے کا حجم 33 فیصد ہے جبکہ روس نے اپنے اتحادی یا دوسرے ملکوں کو 23 فیصد کے قریب اسلحہ فراہم کیا۔ دنیا کو اسلحہ فراہم کرنے والے ممالک میں چین کا نمبر تیسرا ہے، جو کل اسلحے کی برآمدات کے حجم کا 6.2 فیصد بنتا ہے۔ ان ممالک کے بعد اسلحہ کی برآمد میں فرانس اور جرمنی کا نام آتا ہے، جن کا اسلحہ کی مجموعی ایکسپورٹ میں بالترتیب 6 اور 5.6 فیصد حصہ ہے۔ یوں دنیا کو فراہم کئے جانے والے مجموعی اسلحہ کا 74 فیصد ان پانچ ممالک سے برآمد کیا جاتا ہے۔

تخفیف اسلحہ کے ذریعے دنیا کو امن کا گہوارہ بنانے کا علم بلند کرنے والا امریکا خود اس کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے۔ دنیا کے مجموعی اسلحہ کی فروخت میں امریکا کا حصہ ایک تہائی ہے۔ امریکہ نے 2007-11 کی نسبت 2012ء سے 2016ء کے دوران اسلحہ کی برآمد میں 21 فیصد اضافہ کیا، جس کا تقریباً نصف صرف مشرقی وسطی کی ریاستوں کو بیچا گیا۔ دوسری طرف دنیا بھر میں اسلحہ کی فروخت کے مجموعی حجم میں 23 فیصد حصہ رکھنے والے روس کا 70 فیصد اسلحہ بھارت، ویت نام، چین اور الجیریا کو فروخت کیا گیا۔

چین نے 2007-11ء کے دوران 3.8جبکہ 2012-16ء کے دورانیہ میں دنیا کے کل اسلحہ میں سے 6.2 فیصد برآمد کیا۔ایشیاء اور بحرالکاہل کے ساحلوں پر واقع ممالک (Oceania) میں گزشتہ پانچ سال کے دوران اسلحہ کی برآمد 7.7 فیصد بڑھی، جو اسلحہ کی مجموعی درآمد کا 43 فیصد بنتا ہے اور ہمارا پڑوسی ملک بھارت ان ممالک میں سرفہرست ہے، جس نے 2012ء سے 2016ء کے دوران دنیا کے مجموعی اسلحہ سے 13 فیصد حصہ حاصل کیا، جو اس کے اسلحہ خریدنے کے حجم میں 43 فیصد اضافہ ہے۔ بھارت اپنے جنگی جنون کی وجہ سے اسلحہ خریدنے کی دوڑ میں اپنے روایتی حریف پاکستان اور چین سے کہیں آگے ہے۔

جنوب مشرقی ایشیاء کے ممالک نے اپنے لئے اسلحہ کی خریداری میں 6.2 فیصد اضافہ کیا تاہم ان میں ایک حیرت انگیز ملک ویت نام ہے، جو 2011ء تک اسلحہ خریدنے والے ممالک میں 29ویں نمبر تھا، لیکن اگلے پانچ سال کے دوران وہ 202 فیصد اضافہ کے ساتھ دسویں نمبر پر آ گیا ہے۔ آزربائیجان نے 2012ء 2016ء کے عرصہ میں ارمینیہ کے مقابلہ 20 گنا زیادہ اسلحہ درآمد کیا۔

سپری حکام کا کہنا ہے کہ یہ ممالک اسلحہ کے ٹھوس حفاظتی انتظامات کے بغیر ہی ان ذخائر میں اضافہ کر رہے ہیں، جو درست عمل نہیں۔ دوسری طرف چین اسلحہ برآمدگی کا متبادل ملک بن کر ابھر رہا ہے جبکہ بھارت اسلحہ کے حصول کے لئے تاحال روس، امریکہ، مغربی ریاستوں، اسرائیل اور جنوبی کوریا کا محتاج ہے۔

گزشتہ پانچ سال یعنی 2012ء سے 2016ء کے دوران مشرقی وسطی کی ریاستوں نے 86 فیصد اضافہ کے ساتھ دنیا کے مجموعی اسلحہ کا 29 فیصد خرید کیا۔ 212 فیصد اضافہ کے ساتھ سعودی عرب سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والے ممالک کی فہرست میں دوسرے نمبر پر رہا تاہم قطر کی جانب سے اپنے اسلحہ کے ذخائر میں گزشتہ پانچ سال کے دوران 245 فیصد اضافہ کیا گیا۔ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ بین الاقوامی سطح پر تیل کی قیمتیں گرنے کے نتیجے میں ہونے والے بھاری معاشی نقصان کے باوجود ان ریاستوں نے اپنے علاقائی اختلافات سے نمٹنے کے لئے اسلحہ کی خریداری میں اضافہ کیا۔

آئے روز دنیا کے خاتمے یعنی قیامت کی پیشین گوئیاں کرنے والے ماہرین و سائسندان دیگر وجوہات کے ساتھ نت نئے مہلک ہتھیاروں کو اس کی وجہ قرار دیتے ہیں، لیکن اسلحہ سازی کی صنعت کے دم پر معاشی مضبوطی کے ذریعے دنیا پر ’’چودھراہٹ‘‘ کے خبط میں مبتلا امریکہ اور روس جیسے ممالک کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ عالمی سلامتی اور امن کے لئے تخفیف اسلحہ ناگزیر ہے، لیکن اس پر عملدرآمد کو بڑے ’’چودھریوں‘‘ نے صرف ایک خواب بنا کر رکھ دیا ہے۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا کے بڑے ممالک اجلاسوں، دفاتر کے قیام، معاہدوں اور تقرریوں سے آگے بڑھ کر عمل کی راہ پر چل پڑے، بصورت دیگر اس رجحان کے نقصانات کا اندازہ لگانا شائد عقلی انسانی کے بس میں نہ ہو۔

امریکہ اور روس اپنے اقتصادی مفادات کیلئے اسلحہ کی ایکسپورٹ نہیں روکیں گے جنرل (ر) طلعت مسعود
معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل (ر) طلعت مسعود نے دنیا میں اسلحہ کی بڑھتی ہوئی طلب اور رسد پر ’’ایکسپریس‘‘ سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ دیکھیں! اگرچہ یہ رجحان درست نہیں لیکن دنیا میں جب مجموعی طور پر حالات خراب ہوتے ہیں تو اسلحہ کی ریس میں بھی خود بخود اضافہ ہو جاتا ہے۔ آج ایک طرف امریکہ کے روس سے تعلقات کشیدہ ہیں تو دوسری طرف چین سے بھی کھچاؤ ہے، بھارت کی کبھی چین سے بنی ہے نہ پاکستان سے، اگرچہ یہ تمام ممالک ایک دوسرے سے تعلقات اور تجارت پر زور دے رہے ہیں، لیکن در پردہ تعلقات میں کھچاؤ میں موجود ہے۔ روس نے یوکرائن میں پیش قدمی کی تو امریکہ اس سے مزید ناراض ہو گیا، پاکستان اور بھارت میں عرصہ دراز سے کشمیر کا مسئلہ موجود ہے۔

دوسری طرف عرب ممالک کے حالات بھی اچھے نہیں، عراق اور شام میں جاری بحران نے بھی اسلحہ کی طلب کو بڑھاوا دیا۔ تخفیف اسلحہ کی باتیں اپنی جگہ لیکن امریکہ اور روس جیسے ممالک اپنی اسلحہ کی صنعت کو برقرار رکھتے ہیں، کیوں کہ اگر یہ ایکسپورٹ نہ کریں تو ان کی یہ انڈسٹری کمزور ہو جائے گی، جو کسی طور بھی انہیں قبول نہیں۔ ایشیائی ممالک میں اسلحہ کی خریداری میں بھارت کا سرفہرست ہونے پر جنرل (ر) طلعت مسعود کا کہنا تھا کہ بھارت جنگی جنون میں مبتلا ہے، وہ خطے میں اپنی حاکمیت قائم کرنا چاہتا ہے، جو ممکن نہیں، کیوں کہ پاکستان بھی ایک نیوکلیئر پاور ہے اور اس کی پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے صرف بھارت ہی نہیں پوری دنیا آگاہ ہے۔

دفاعی تجزیہ نگار کا مزید کہنا تھا کہ بلاشبہ تخفیف اسلحہ اس دنیا کے پرامن قیام اور استحکام کے لئے بہت ضروری ہے، لیکن ایسا صرف اسی صورت میں ممکن ہے، جب دنیا میں امن ہو، تمام ممالک ایک دوسرے پر اعتماد کریں۔ امریکہ اور روس تخفیف اسلحہ میں پہل کریں، پہلے نیوکلیئر اور پھر آہستہ آہستہ روایتی ہتھیاروں میں کمی لائی جائے، لیکن اگر کشمیر اور یوکرائن جیسے معاملات رہیں گے تو ہر ملک اپنے دفاع کو مضبوط کرنے کے لئے اسلحہ کی دوڑ جیتنے میں جتا رہے گا اور معاملات سلجھنے کے بجائے مزید الجھتے رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔