افراط زر اور مہنگائی میں مسلسل اضافہ

ایڈیٹوریل  ہفتہ 4 مارچ 2017

پاکستان کے محکمہ شماریات کے مطابق ملک میں مسلسل افراط زر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ محکمہ شماریات کے مطابق موجودہ مالیاتی سال میں افراط زر میں سالانہ اضافے کا اندازہ 6 فیصد تک مقرر کیا گیا جب کہ گزشتہ برس سالانہ افراط زر کے اضافہ کی شرح 2.86 فیصد ریکارڈ کی گئی تھی۔

موجودہ مالی سال کے پہلے آٹھ مہینوں (جولائی سے فروری تک) اضافے کی شرح 3.9 فیصد رہی جب کہ اس سے پچھلے سال میں یہ شرح 2.48 فیصد تھی جس کا مطلب ہے کہ امسال مہنگائی میں اضافے کی شرح سال گزشتہ سے متجاوز ہے۔ اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں اضافہ 34.83 فیصد تھا۔ گزشتہ آٹھ ماہ کے دوران دالیں‘ چکن اور ادویات کی قیمتوں میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔

دال چنا کی مہنگائی 43 فیصد جب کہ دال مونگ جولائی 2016ء تا فروری2017ء کے دوران 35 فیصد مہنگی ہوئی۔ جنوری 2017ء کے مقابلے میں فروری2017ء میں مہنگائی کی شرح میں .28 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

جان بچانے والی ادویات کے نرخوں میں 21 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ سرکاری ذرایع کے مطابق عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ کی وجہ سے ہمارے ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ قیمتوں میں اضافہ کی ایک وجہ جیسے کہ پہلے بتایا گیا عالمی منڈی میں تیل اور پام آئل کی قیمتوں ہیں اس کے علاوہ حکومت کی طرف سے کمرشل بینکوں سے زیادہ قرضے حاصل کرنے کا بھی ملکی مارکیٹ میں اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافے کی شکل میں پڑتا ہے یہی وجہ ہے کہ عام صارفین تقریباً تمام اشیاء کے نرخوں میں اضافہ دیکھ رہے ہیں۔

افراط زر اور مہنگائی ایک ہی سکے کے دو رخ ہوتے ہیں‘ اگر افراط زر میں اضافہ ہوتا ہے تو لازم ہے کہ مہنگائی بڑھے گی اور اگر مہنگائی بڑھتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ افراط زر میں اضافہ ہوا ہے‘ ملک پر اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بڑھتا ہوا بوجھ‘ غیر ترقیاتی اخراجات میں اضافہ‘ درآمدات اور برآمدات میں عدم توازن مہنگائی اور افراط زر کی بڑی وجوہات ہیں‘ حکومت کو معاشی حکمت عملی تشکیل دیتے ہوئے ان پہلو پر خصوصی توجہ دینی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔