دستور فاٹا کی دہلیز تک

جاوید قاضی  ہفتہ 4 مارچ 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

بہت سی چیزیںگڈ مڈ ہوگئیں۔ بہت سے حقائق، معنی، تشریح و سوچ بچار کا عمل۔ ہم نے نہ تاریخ پڑھی، نہ پڑھنے کے طریقے، نہ دستور سمجھا نہ دستور سازی، خیر دیر آید درست آید کی مانند فاٹا جن کا تھا ان کو ملا۔ اس عمل میں پانچ سال لگ جائیں گے، مگر اس عمل کی بنیاد تو پڑی۔ صحیح سمت کی طرف سفر تو ہوا۔ اب ان پر بھی آئین لاگو ہوگا، وہ آئین سے بڑے ہوں گے نہ چھوٹے ہوں گے۔

اس آئین کے تناظر میں اب وہ اس مملکت خداداد کے شہری ٹھہرے۔ مگر آئین اس سے عمل میں نہیں آتا۔ آئین کے ہونے، آئین کے کہنے سے ضروری نہیں کہ آئین پر عمل بھی ہو۔ مہذب سماج اور آئین ایک سکے کے دو پہلو ہوتے ہیں۔ آئین کتنا بھی مہذب ہو، ضروری نہیں کہ معاشرہ بھی مہذب ہو۔ ہاں مگر مہذب آئین سماج کو اپنی لپیٹ میں ضرور لیتا ہے یا خود بکھر کر راکھ ہوجاتا ہے، اس لیے یہ تحرک سلیس و سادہ زبان میں آئین کی بالادستی کی جنگ ہے۔ قانون کیا ہے؟ آئین کیا ہے؟ آئین، قانون کے اوپر سجا ہوا وہ تاج ہے جس کے موتی رنگ و نسبت خود لوگوں نے پروئے ہوئے ہوتے ہیں۔ ان کے چنے ہوئے نمایندوں نے ایوانوں میں آکر ایک راہ یک نسبت خندہ پیشانی سے، بہت مختصر مگر بہت وسیع دستاویز کو تحریر کیا، تعمیر کیا، تفسیر کیا اور کورٹ کو کہا اس کی تشریح کرو اور حکومت کو کہا کہ اس پر عمل کرو۔

قانون کیا ہے؟ قانون یہ ہے کہ تمھارے کچھ حقوق ہیں اور تمھارے کچھ ضابطے ہیں۔ ضابطوں پر عمل کرو اور اپنے حقوق لو، کہ دل خون کو پریشر دے گا، جگر اسے صاف کرے گا اور پھیپھڑے اسے ہوا دیں گے۔ جسم کی ترتیب میں قانون پڑا ہے، دستور پڑا ہے۔ کائنات بھی اسی طرح ہے۔ خدا کے ہر رنگ میں ایک اسکیم ہے۔ معاشرہ، قانون و آئین کی زمینی حقائق میں پڑی شکل ہے۔

اگر معاشرے میں توڑ پھوڑ ہے تو جان لیجیے کہ دستور و آئین میں کوئی گڑبڑ ہے۔ میں نے کہیں پہلے بھی ذکر کیا ہوگا، دنیا میں تین طرح کے دستور ہیں، جن کو آئین کے فلاسفر یا Jurisprudence میں مانا جاتا ہے۔ خود Jurisprudence کیا ہے؟ جہاں آئین کی دلیلیں ختم ہوتی ہیں وہاں سے Jurisprudence کے دلائل شروع ہوتے ہیں۔ کائنات Black Hole کو اسٹیفن ہاکنگ نے دریافت کیا تھا، جو کائنات کے آئین یعنی Physics کے مروج اصولوں کے برخلاف تھے، مگر تھے اور قیامت کیا خود کائنات کا الٹ پلٹ ہوجانا۔

نظریہ ضرورت کیا ہے؟ ہمارے حساب سے Black Hole ہی تو تھا۔ کیونکہ دستور کے خلاف تھا۔ اس لیے کہتے ہیں کہ خود آئین ارتقا کرتے ہیں۔ اس طرح تین قسم کے آئین دنیا میں پائے جاتے ہیں، ایک وہ ہیں جن کو Normalism کہا جاتا ہے، یعنی Norm اور اس کا عمل آئین اس فلسفے کے تناظر میں Grand norm کہا جاتا ہے، یعنی جو بھی رسم رواج ہے یا دستور ہے، قانون ہے یا کوئی خانگی، طریقہ و روایت ہے، ان سب میں بڑی روایت خود آئین ہوتا ہے اور باقی روایتیں اس کے ٹکراؤ میں نہیں ہوتی ہیں۔ ایسے آئین ایک رات میں نہیں بنتے، صدیاں بیتیں تو تب جاکر سونا کندن بنتا ہے۔ یعنی دنیا کے مہذب سماج امریکا، برطانیہ، مغرب یہاں قانون کی بالادستی ہے، یہاں دستور و معاشرہ ایک دوسرے کے دو پہلو ہیں۔

دستور کی دوسری قسم اس فلسفے میں Nominalist یا Nominalism کہا جاتا ہے، یعنی ایسی طاقت دستور کے گرد گھوم رہی ہے جو کہ رائج دستور کو روک سکتی ہے اور ایک دن روک لیتی ہے، جہاں پر لازم ہوجاتا ہے کہ دستور کو چھوڑ کر نظریہ ضرورت سے مدد لی جائے۔

نصرت بھٹو کیس کیا تھا یا ظفر علی شاہ کیس وغیرہ وغیرہ، یا خود اسما جیلانی کیس۔ ہم بھی آئین کے اسی زمرے میں آتے ہیں اور ماضی قریب تر ہندوستان کا آئین بھی۔ بالآخر ہندوستان کے آئین نے اپنی جنگ لڑتے لڑتے خود جیتی۔ ان کے ’’کیشو نندا کیس‘‘ نے دستور کے بنیادی ڈھانچے کو وضع کردیا، جو 1818 کے سر جان مارشل امریکا کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے تعین کیا تھا۔ ہم نے بھی ایک کوشش کی ہے، اکیسویں ترمیم کے تناظر میں۔ مگر اب تلوار لٹک رہی ہے۔

دستور کے اس فلسفے میں آئین کی تیسری قسم کو Semantic کہا جاتا ہے۔ یہ وہ قسم ہے دستور کی، جس میں سارے مہذب آئین والے نکتے تقریباً موجود ہوتے ہیں، مگر دکھانے کے لیے، جس طرح ہاتھی کے دانت کھانے کے اور، اور دکھانے کو اور۔ ایسے ممالک میں آمریت یا بادشاہت ہوتی ہے۔ بادشاہ سلامت خود ہی قاضی القضاء، خود ہی وزیراعظم، خود ہی سپہ سالار یعنی ’’جو چاہیں سو آپ کریں ہیں ہم کو عبث بدنام کیا‘‘۔

ہمارے آئین میں جنرل ضیاء الحق نے بہت خلل ڈالا، وہ خلل ہمارے ارتقا میں رکاوٹ ہے۔ ہمیں آئین کی سائنس کو سمجھنا ہوگا۔

ریڑھ کی ہڈی ہیں آئین کی بنیادی حقوق، یعنی ’’جیو اور جینے دو‘‘۔ میں غلط ہوں، اس کا بھی طریقہ کار ہے، تم غلط ہو اس کا بھی طریقہ کار ہے۔ آؤ عدالت سے رجوع کرتے ہیں۔ میں اپنے وجود کا خود بادشاہ سلامت ہوں لیکن میرے وجود کا کسی اور وجود سے تعلق بنتا ہے تو حقوق و ضابطے کی لڑیاں بنتی ہیں۔ میرے عمل سے کسی اور کو ٹھیس نہیں پہنچتی، اس کے آئین میں وضع کیے ہوئے حقوق مجروح نہیں ہوتے، یہ میرا Freedom ہے اور اس سرحد کے پار، اس کا Freedom  ہے۔ تم جانو، تمھارا خدا جانے، میں جانوں میرا خدا جانے۔ ہندوستان کی سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ ہے کہ سیکولرزم برابر کے شہری ہونے کے عکس ہے۔

میں جب سیہون میں اس فرش پر کھڑا ہوکر شیما کو رقص کرتے ہوئے دیکھ رہا تھا تو 72 گھنٹے پہلے اسی فرش پر تاتاریوں کی طرح لہو بہایا گیا تھا، وہ فرش دجلہ کی طرح لہو سے تربتر تھا، لعل قلندر کے لال رنگ کو سر نگوں کرنے والا لہو۔ اور پھر اٹھتی ہے لال کرتے میں سمٹی ہوئی شمع کی طرح مچلتی ہوئی شیما، ناچتی ہے، رد کرتی ہے ایک ایسے کورٹ کے فیصلے کو جو کہ ہمارے دستور میں کورٹ بھی نہیں، اور رد کرتا ہے پورے سندھ، پورے پاکستان کا ہر لبرل، ہر صوفی، ہر انسان دوست، ہر دستور دوست۔ مجھے دھمال اچھا لگتا یا نہیں لگتا، وہ میرا معاملہ ہے۔

جس طرح روسو ’’سماجی معاہدے‘‘ کا مصنف کہتا ہے کہ ’’میں تم سے اختلاف رکھتا ہوں مگر تمھارے اس کہنے کے حق کے لیے اپنی انگلی تک کٹوا دوں گا‘‘۔ روسو آج کے مہذب معاشرے کے مہذب دستور کا بانی ہے۔ یہ وہی قسم ہے آئین کی، جس کو Normalism کہا جاتا ہے۔ ساتھ ساتھ وہ ادارے، تاریخ، اینکر کا تعاقب کریں جو گیارہ ستمبر 1947 میں جناح کی تقریر کے متن سے ٹکراؤ میں ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔