ایک اور حمام

عبدالقادر حسن  ہفتہ 4 مارچ 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

سربراہ مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی بالآخر بول پڑے ہیں کہ ان کی کوئی نہیں سنتا‘ جناب ممنون حسین نے اپنے صدارتی محل میں ایک تقریب سے خطاب میں کہا جس ملک کے وہ سربراہ ہیں اس میں کرپشن کا دور دورہ ہے اور اگر وہ غلطی سے اس کی اصلاح کے لیے کسی سے بات کرتے بھی ہیں تو اس کو سنی ان سنی کر دیا جاتا ہے‘ انھوں نے خاص طور پر بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کے سربراہوں کی تبدیلی کا کہا کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کمپنیوں کی سربراہی کرپٹ لوگ کر رہے ہیں۔ یہ خبر پڑھنے کے بعد اگلے دن کے اخبار میں اس کی تردید کا انتظار کر رہا تھا اور یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ یا تو تردید آئے گی یا استعفیٰ لیکن یہ میرا خواب صرف خیال ہی رہا یا تو سربراہ مملکت کی مراعات ہی اتنی پر کشش ہیں کہ ان سے دستبرداری مشکل مرحلہ ہے اور یا پھر ہم اخلاقی طور پر اس قدر دیوالیہ ہو چکے ہیں کہ اتنے بڑے منصب کی بھی اس ملک میں کوئی عزت نہیں رہی۔

بقول مرزا غالبؔ

’’غالبؔ خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں

روئیے زار زار کیا کیجیے ہائے ہائے کیوں‘‘

بجلی کے نظام کی ترسیل کو بہتر بنانے کے لیے ان کو واپڈا سے الگ کرکے تقسیم کار کمپنیوں کا بیج بویا گیا جس کے پیچھے ارباب اختیار کی نہ جانے کیا منطق تھی کہ ایک بڑے ادارے کو مختلف ٹکڑوں میں بانٹ کر اس کو نہ صرف کمزور کیا گیا بلکہ مرکزیت کو ختم کرنے سے اس میں مزید خرابیاں بھی پیدا ہو گئیں۔ وہ کیا دن تھے کہ جب لاہور میں اس سہولت کی فراہمی واپڈا کے ذمہ تھی اور ہم پرانے لوگ اس قدر عادی تھے کہ جب بھی کوئی مسئلہ ہوتا تھا تو فوری طور پر واپڈا کے اعلیٰ افسران سے رابطہ کی موجود سہولت کا استعمال کرتے تھے۔

لیکن برا ہو اس نئے زمانے کا جس نے مرکزیت کے خیال کو ختم کر دیا اور ہم لوگوں کو نئے چکروں میں ڈال دیا گیا جس کی سمجھ تو آتی نہیں بلکہ میں خود ذاتی طور پر ان کمپنیوں کی کرپشن کا شکار بنا ہوا ہوں‘ جس کرائے کے گھر میں رہتا ہوں اس کا بجلی کا خراب میٹر بارہا درخواستوں کے باوجود ایک سال کے بعد تبدیل کیا گیا اور پھر اس کی سزا مجھے یہ دی گئی کہ لاکھوں کا بل قسطوں میں ادا کر رہا ہوں۔ یہ تو ایک ذاتی مثال تھی جو کہ بوجوہ بیان کر دی کہ کرپشن وہ ناسور بن چکا ہے اور ہمارے نظام میں اس قدر سرایت کر چکا ہے کہ چھوٹے سے لے کر بڑے تک تمام اس حمام میں ننگے نظر آتے ہیں۔ اسی کا رونا ہمارے صدر مملکت ممنون حسین نے رویا ہے اور اپنی بے بسی کا اظہار بھی کیا ہے۔

پاکستانی نہ صرف اس بیان سے حیران بلکہ پریشان بھی ہیں کہ کون کیا کہہ رہا ہے اورکیوں کہہ رہا ہے۔ غالبؔ نے کیا خوب کہا ہے کہ

میں بھی منہ میں زبان رکھتا ہوں

کاش پوچھو کہ مدعا کیا ہے

اسی بات کا رونا چند روز پہلے عدالت عالیہ کی جانب سے بھی رویا گیا ہے کہ کرپشن کم ہونے کے بجائے بڑھ رہی ہے اور اس کے لیے حکومتی اقدامات کہیں نظر نہیں آ رہے۔ لیکن کیا کیجیے کہ ہماری موجودہ عوامی اور جمہوری حکومت خود بھی مبینہ کرپشن کی داستانوں میں ہے اور یہ ثابت ہو نہیں پا رہا کہ اس پر لگائے گئے الزامات میں صداقت کتنی ہے۔ کرپشن کو بے نقاب کرنے میں ہمارے میڈیا نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

اور یہ پہلی دفعہ ہوا ہے کہ میڈیا ثبوتوں کے ساتھ اس کرپشن کو عوام اور ارباب اختیار کے سامنے لاتا ہے لیکن کیا کیجیے کہ اس پر کوئی کارروائی کرنے کے بجائے میڈیا کو ہی جانبداری کا الزام دے دیا جاتا ہے کہ ہم اداروں کو اہمیت دینے کے بجائے اپنی ذات کو زیادہ دیکھتے ہیں۔ یہاں کوئی بھی احتساب نہیں چاہ رہا بلکہ پلی بار گینگ کے ذریعے معاملات کو حل کرنے پر توجہ زیادہ ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے عدالتی نظام اتنا مضبوط ہو کہ کسی کو اداروں کو نقصان پہنچانے کی جرات نہ ہو لیکن ہم نے اس کو بھی آئینی تحفظ دے کر چوروں کے لیے راستے کھلے چھوڑ دیے ہیں کہ اربوں کھاؤ اور کروڑوں واپس کر کے اپنے آپ کو بری الذمہ کر لو۔

عوام کو مختلف مسائل میں الجھا کر اپنی کرپشن کی زبان زدعام داستانوں پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش کی جاتی ہے شاید ہم اسلام کے مطابق ایمان کے درجوں میں کم ترین درجے سے بھی نیچے چلے گئے ہیں کہ ہم نے بدعنوانی کو دل سے بھی برا کہنا چھوڑ دیا ہے۔ قوموں پرزوال ایسے ہی نہیں آ جاتے آج سے چودہ سو سال پہلے ہمارے چوتھے خلیفہ حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ معاشرہ کفر پر تو قائم رہ سکتا ہے لیکن انصاف کے بغیر نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔