ماضی کی دوزخیں

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 4 مارچ 2017

ہر گناہ پہلے نیکی تھا، پھر جیسے جیسے انسان نیکی جانتا گیا ویسے ویسے نیکی گناہ بنتے چلے گئے، اگر وہ نہیں جان پاتا تو آ ج بھی ہم ہر گناہ کو نیکی ہی سمجھ رہے ہوتے، یعنی کسی چیز کو سمجھنے کے لیے پہلے اسے جاننا ضروری ہوتا ہے۔

اندھیرے کو آپ اسی وقت جان پائیں گے جب آپ روشنی سے واقف ہوں گے، کالے کو آپ اس وقت جانیں گے جب آپ کو سفید کا علم ہوگا۔ اسی طرح ناانصافی، کرپشن، لوٹ مار کو جاننے کے لیے پہلے آپ کو انصاف، ایمانداری اور دیانت داری کو جاننا ضروری ہے۔ جاننے کے لیے علم ضروری ہوتا ہے اور علم کے لیے سوچنا ضروری ہوتا ہے۔

اسی لیے سوچے بغیر آپ ہر گناہ کو نیکی سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ بالکل اسی طرح آج کی ہر جنت پہلے دوزخ ہوا کرتی تھی۔ وہ دوزخ اس لیے ہوا کرتی تھی کہ وہاں رہنے والوں کو جنت کا علم ہی نہیں تھا، پھر جیسے جیسے انھیں جنت کا علم ہوتا چلا گیا وہ اپنی دوزخ کو جنت میں تبدیل کرتے چلے گئے لیکن اس کے باوجود آج بھی دنیا میں ایسی دوزخیں ہیں جو تبدیل نہیں ہوسکیں اور آج تک دوزخیں ہی ہیں۔ وہ اس لیے دوزخیں ہیں کہ وہاں رہنے والوں کو ابھی تک جنت کا علم نہیں ہوسکا ہے۔ ان دوزخوں میں ہماری دوزخ بھی شامل ہے۔ آئیں ماضی کی چند دوزخوں میں جھانکتے ہیں۔

ویانا کو شہروں کی ملکہ کہا جاتا ہے، یہ شہر ماضی میں ایک دیگ کی مانند تھا جس میں سوائے یہودیوں کے سب لوگ سما سکتے تھے۔ یہ خوشیوں اور مسرتوں کا گہوارہ تھا، عیش و نشاط کا گڑھ تھا، یہاں مسرتیں اور خوشیاں رقص کرتی تھیں، مگر اپنی تمامتر شان و شوکت، رعب و وقار اور خیزہ کن چمک دمک کے، یہ شہر بے مثال اندر سے ایک ایسے کیک کی مانند کھوکھلا تھا جسے صرف اوپر ہی سے خوبصورتی سے بنایا سجایا گیا ہو، مگر دیکھنے والوں کی توجہ اس کے اندرون کی جانب نہ جاتی تھی۔ فضول خرچی اور عیاشی لوگوں کی گھٹی میں پڑی تھی، ریاکاری اور مصنوعی پن یہاں ہر جگہ چلتا تھا، لوگ حقائق سے چشم پوشی کرنا اپنا شعار بنائے ہوئے تھے۔

آسٹریا میں شہنشاہت قائم تھی اور آئین برائے نام ہی موجود تھا، پارلیمنٹ کی دو عمارتیں ضرور موجود تھیں، حقوق اور آزادی کے باقاعدہ قوانین موجود تھے، آزاد قانونی عدالتیں موجود تھیں، وزرا تھے، مگر حکومت کی باگ ڈور ان لوگوں کے ہاتھ میں تھی جو طبقہ امرا سے تعلق رکھتے تھے اور بڑے طاقتور اور بارسوخ تھے۔ طبقہ امرا سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں آپس میں شادیاں ہوا کرتی تھیں، یہ لوگ اسی مخصوص طبقے سے باہر کبھی شادیاں نہ کرتے تھے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کرتا تھا کہ یہ طبقہ ایک بہت بڑے باقاعدہ خاندان کی صورت اختیار کرگیا تھا۔

اس خاندان کا سربراہ آخری ہالیبس برگ بادشاہ فرانز جوزف تھا، جس وقت سگمنڈ ویانا پہنچا تو اس وقت فرانز جوزف کی حکومت کا بارہواں سال چل رہا تھا، وہ ہر اس تحریک کو دبا دیتا تھا جو عوام کی بھلائی کے لیے اٹھتی تھی، اونچی حیثیت حاصل کرنے یا کوئی بڑا عہدہ حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ کسی اوپر والے کی سفارش اور سرپرستی ہو۔ اکثر اوقات سفارش اور سفارش کا سلسلہ بادشاہ تک جا پہنچتا تھا، سفارش کے بغیر کسی کا کام ہونا ممکن نہ تھا۔ معاشرے میں بگاڑ کا یہ عالم تھا کہ عزت اور وقار حاصل کرنے کے لیے ہر کسی کا طبقہ امرا سے تعلق ثابت کرنا ضروری تھا۔

معاشرے میں صرف امیر کبیر بارسوخ لوگوں کی بے حد عزت ہوا کرتی تھی، وہ ذرا ذرا سی بات پر بے تحاشا روپیہ لٹاتے تھے، وہ بھاری بھاری رقوم گاڑی بانوں، ہوٹل کے بیروں، ملازموں کو بطور بخشش دیتے تھے۔ ویانا کے طنز نگار کارل کراس نے لکھا تھا ’’روز قیامت جب کسی ویانا کے شہری کی قبر پھٹے گی تو اس میں سے ایک ہاتھ باہر نکلے گا، جو ٹپ مانگ رہا ہوگا‘‘۔ ویانا والے اسٹیج اور تھیڑ کے دلدادہ تھے مگر ہانز ساشز کے الفاظ میں ویانا کے شہری خود سب کے سب اداکار تھے۔ ریاکاری، مطلب پرستی، خوشامدیں ان کی سرشت میں داخل تھیں۔ ان میں جو نرم دلی، انکساری، خلوص اور مروت پائی جاتی تھی وہ سب دھوکا اور ادکاری تھی۔

دوسری طرف معاشی دوڑ میں اسپین سب سے پیچھے رہ گیا، اگر کوئی عظیم قوم اپنی معاشی ترقی اور جغرافیائی اثر و رسوخ کو دانستہ تباہ کرنا چاہتی تو پھر یہ قوم یہ کام اس سے کہیں بہتر انداز میں انجام دے سکتی تھی، جو قبل از جدید دور کے اسپین نے کیا۔ اہل روم کے مانند اہل اسپین نے اپنا بنیادی مقصد صنعت، تجارت اور کاروبار نہیں بلکہ فتوحات اور لوٹ مار بنا لیا تھا۔ پورا معاشرہ لوٹی ہوئی دولت سے داغدار ہوچکا تھا۔ اہل ہیپسبرگ اپنے عوام کی فلاح و بہبود کی اہمیت سے غافل تھے۔ ملک کی ساری دولت دو درجن کے لگ بھگ خاندانوں، جنھیں Grandees کہا جاتا تھا، کے زیر اثر آچکی تھی۔ ممتاز فوجی شخصیتوں اور پسندیدہ شاہی افراد کو زمین کے بڑے بڑے قطعات عطا کیے تھے۔

روایتی اور قانون کی رو سے یہ زمین خودبخود ہی بڑے بیٹے کو منتقل ہوجاتی اور اسے فروخت نہ کیا جاسکتا۔ اس نظام کے تحت آرام طلبی اور کاہلی کی حوصلہ افزائی ہوئی اور بڑی بڑی جائیدادیں صدیوں تک قائم رہیں۔ معاشی تباہی کے بیج بونے والا ایک بدباطن اور لاپروا حکمران یہ کام کرنے کے لیے اس سے بہتر طریقہ ڈھونڈ ہی نہیں سکتا تھا اور اس کی آبادی کے زیادہ تر حصے نے ٹیکس سے بچنے کے لیے مذہبی شخصیات کی اوٹ میں پناہ لے لی۔ شرفا اور امرا کو اپنا ہمنوا بنالیا اور ٹیکسوں کا تمام تر بوجھ چھوٹے چھوٹے کسانوں اور تاجروں پر جا پڑا۔ واقعات کا یہ سلسلہ اس سلسلے کے تقریباً مشابہہ تھا جو رومی سلطنت کے زوال کے دوران پیش آیا تھا۔

مورخ جان ایلیٹ کے الفاظ کے مطابق ’’معاشی نظام کی نوعیت ایسی تھی کہ ہر شخص ایک طالب علم یا راہب، بھکاری یا ایک بیورو کریٹ بن گیا تھا، اس کے سوا کچھ ممکن نہیں تھا‘‘۔ ہیپسبرگ نے عقلی اور ذہنی زندگی کو عین اس طرح تباہ کردیا تھا جس طرح انھوں نے ملک کی مالیات کی حالت خراب کردی تھی۔ ان سے ہی تقریباً ملتا جلتا ماضی آج کے ترقی یافتہ، کامیاب اور خوشحال ممالک کا تھا۔

ماضی میں آج کی خوشحال اور کامیاب ریاستیں اس فلسفے پر عمل پیرا تھیں کہ عوام کو بھوکا اور سہما ہوا رکھو، کیونکہ بھوکے اور سہمے ہوئے لوگوں کو ریاست کی مر ضی پر چلانا آسان ہوتا ہے، اور ملک کی دولت آرام سے لوٹی لی جاتی ہے، لیکن اس فلسفے کا آخرکار وہی انجام ہوا جو ہونا چاہیے تھا۔

آخرکار ان ریاستوں کے عوام نے سوچنا شروع کردیا اور جیسے ہی انھوں نے اپنی سوچ کے دیے جلائے، انھیں ترقی، کامیابی، خوشحالی، آزادی، مساوات کے وہ تمام راستے صاف دکھائی دینا شروع ہوگئے، جو دوزخ سے جنت کی طرف جارہے تھے۔ لیکن ان کے برعکس آج بھی اگر ہم دوزخ کے مکین ہیں تو اس لیے کہ ہماری سوچوں کے تمام دیے اوندھے پڑے ہوئے ہیں، کیونکہ ہمارے ملک میں سوچنے پر پابندی ہے، لیکن جب تک ہم سوچیں گے نہیں، جنت جانے کے تمام راستے ہماری آنکھوں سے اوجھل رہیں گے اور ہم اپنی دوزخ میں پڑے اسی طرح گلتے سڑتے رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔