بیرون ملک کالا دھن15 سے 20 فیصد ٹیکس دیکر سفید کرانیکی اسکیم ناقابل عمل قرار

ارشاد انصاری  ہفتہ 4 مارچ 2017
انڈونیشیا میں ایمنسٹی اسکیم سے اربوں ڈالر کا کالادھن سفید کرنے سے 8 ارب ڈالر کا ٹیکس وصول ہوا ہے۔ فوٹو: فائل

انڈونیشیا میں ایمنسٹی اسکیم سے اربوں ڈالر کا کالادھن سفید کرنے سے 8 ارب ڈالر کا ٹیکس وصول ہوا ہے۔ فوٹو: فائل

 اسلام آباد: ایف بی آر نے انکم ٹیکس آرڈیننس میں ترمیم کیے بغیر پاکستانیوں کی کھربوں روپے مالیت کا بیرون ملک کالا دھن، جائیداد و اثاثہ جات 15 سے بیس فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر قانونی حیثیت دینے کیلیے ایمنسٹی اسکیم کو ناقابل عمل قرار دیدیا۔

ذرائع کے مطابق ایف بی آر کا موقف ہے کہ غیرملکی اثاثہ جات و جائیداد کو قانونی حیثیت دلوانے کی ایمنسٹی سکیم کو کامیاب بنانے کیلیے انکم ٹیکس آرڈیننس 2001 کی شق 111 کی ذیلی شق 4 کو ختم کرنا ہوگا یا اس میں ترمیم کرنا ہوگی کیونکہ مذکورہ شق کے تحت بیرون ملک سے ترسیلازت زر کی صورت میں آنیوالی رقم پر کوئی پوچھ گچھ نہیں ہے۔

اگر کوئی پاکستانی اپنی انکم ٹیکس ریٹرن میں بیرون ملک سے ترسیلات زر کی مد میں آمدنی ظاہر کرتا ہے تو پاکستان کے قانون کے مطابق اس سے اس رقم کے بارے میں کسی قسم کی پوچھ گچھ نہیں کی جاسکتی ہے۔ اس لیے جب لوگوں کے پاس اپنا کالادھن ترسیلازت زر کی مد میں ظاہر کرکے قانونی حیثیت دلوانے کا چینل موجود ہے تو اس کی موجودگی میں زیادہ ٹیکس ادا کرنے کی سکیم کی سہولت سے فائدہ کوئی نہیں اٹھائے گا۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ بیرون ملک پاکستانیوں کا کالاد دھن سفید کرنے کیلیے انڈونیشیا اور بھارت کی طرز پر ٹیکس قوانین میں ترامیم کی بھی تجویز دی گئی ہے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ انڈونیشیا اور بھارت میں ایمنسٹی اسکیمیں کامیاب رہی ہیں جبکہ پاکستان میں جتنی ایمنسٹی اسکیمیں متعارف کروائی گئیں سب ناکام ثابت ہوئیں جس کی بنیادی وجہ قوانین میں پائی جانیوالی خامیاں اور کمزوریاں ہیں۔ انڈونیشیا میں ایمنسٹی اسکیم سے اربوں ڈالر کا کالادھن سفید کرنے سے 8 ارب ڈالر کا ٹیکس وصول ہوا ہے جبکہ بھارت میں بھی 100 ارب ڈالر کا کالادھن سفید کروایا گیا۔

ادھر ایف بی آر کے سینئر افسر نے بتایا ٹیکس اصلاحات کمیشن نے اپنی رپورٹ میں ظاہر نہ کئے جانیوالے بیرون ممالک اثاثہ جات و جائیداد پر پندرہ فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی ہے جس کا جمعرات کو ٹیکس اصلاحات کمیشن کی سفارشات پر عملدرآمد کمیٹی کے اجلاس میں بھی جائزہ لیا گیا ہے تاہم ابھی اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا ہے کیونکہ کمیشن نے15 سے 20 فیصد ٹیکس کی ادائیگی پر قانونی حیثیت دینے کا موقع دینے کی تجویز دی ہے جبکہ بعض ممبران کی جانب سے یہ شرح 3 سے 4 فیصد رکھنے کی تجویز دی گئی ہے۔

دوسری جانب ٹیکس اصلاحات کمیشن کی رپورٹ میں بے نامی ٹرانزیکیشنز پر بھی 25 فیصد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی گئی ۔ ایف بی آر افسر نے بتایا پاناما لیکس کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد تفصیلی جائزہ لیا جارہا ہے اور دیکھا جارہا ہے کہ ایف بی آر قانون کے دائرہ میں رہ کر کیا اقدام کرسکتا ہے کیونکہ معلومات کے تبادلہ کا معاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان پاناما لیکس کی رپورٹ کی تصدیق شدہ کاپیاں حاصل نہیں کرسکتا، اس لئے کاروائی ممکن نہیں رہتی ہے۔

علاوہ ازیں 2010 میں انکم ٹیکس آرڈیننس کی شق 111 میں ہونیوالی ترمیم کے تحت ٹیکس اتھارٹیز6 سال سے زیادہ پرانا ریکارڈ پر قانونی طور پر کچھ نہیں کرسکتیں لہٰذا اس صورتحال میں یہ تجویز زیادہ اہمیت اختیار کرجاتی ہے کہ بیرون ملک اثاثہ جات و دولت رکھنے والے پاکستانیوں کو ایک خاص شرح سے ٹیکس ادائیگی پر اپنے انکم ٹیکس گوشواروں کیساتھ ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں یہ اثاثے ظاہر کرنیکا موقع دیاجائے، اس سے ایف بی آر کو اضافی ریونیو بھی حاصل ہوگا اور ملکی معیشت کو دستاویزی بنانے میں بھی مدد ملے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔