نوجوان مسیحا

عبدالقادر حسن  اتوار 5 مارچ 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

ریاست کے امور کو رواں رکھنے اور ریاستی عملداری بحال رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی مشینری مکمل کام کر رہی ہو اور اس کے تمام کل پرزے اپنی ذمہ داریاں قاعدے قانون کے تحت ادا کر رہے ہوں۔ ہماری بدقسمتی یہ رہی ہے کہ ہم ہر شعبہ میں پسند ناپسند کی بناء پر معاملات کو بناتے یا دوسرے لفظوں میں الجھاتے رہے۔ ریاست کا کام عوام کی فلاح وبہبود اور ان کی سہولت کے لیے منصوبہ بندی کرنا ہوتا ہے۔

میں پہلے بھی کئی دفعہ عرض کر چکا ہوں اور آپ سب کو بھی یہ معلوم ہے کہ فلاحی ریاست کا تصور سب سے پہلے ہمارے خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ نے دیا اور مدینہ میں پہلی اسلامی فلاحی ریاست کی بنیاد رکھی گئی۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ فلاح کا تصور ہمارے مذہب کا بنیادی جزو ہے جو کہ عوام الناس کی بھلائی کے لیے دیا گیا ہے۔

اسلام کے نام پر وجود میں آنے والا ہمارا ملک بدقسمتی سے اس قسم کی منصوبہ بندی سے شروع دن سے ہی محروم رہا اور بابائے قوم محمد علی جناح یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں لیکن اس وقت ایک نوزائیدہ ملک کی بنیاد رکھی جا رہی تھی اور وہ بھی انہی کھوٹے سکوں کے ہاتھوں چونکہ اس وقت یہی ملک کے کارپرداز بنے ہوئے تھے۔ جس عمارت کی بنیاد مضبوط ہو اس پر آپ جتنا وزن ڈالیں وہ برداشت کر لے گی لیکن بدقسمتی سے اس وقت ہماری حکومتی مشینری نے ملکی مفادات کے بجائے اپنے مفادات اور تعلقات کو ترجیح دی جس کو بعد میں آنے والوں نے بھی استعمال کیا اور آج تک یہ ہو رہا ہے کہ جہاں پر حکومتی معاملات کو سلجھانے یا الجھانے کی بات آتی ہے وہیں پر انتظامیہ کے جوہر کھل کر سامنے آ جاتے ہیں کیونکہ بنیاد ہی کمزور ہے۔

سرکاری اداروں کو چلانے والے حکومتی افسران پچھلے کئی سالوں سے خاص طور پر نوجوان ڈاکٹروں کے مسائل اور ان کی اصلاح کے معاملے میں بھی ناکام نظر آتے ہیں۔ آئے روز ان نوجوان مسیحاؤں کی جانب سے سرکاری اسپتالوں میں ہڑتال کے باعث مریضوں کو ان گنت مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور یہ صورت حال مسلسل جاری ہے۔ اس میں قصور کس کا ہے اور کون اس معاملے کو دیکھ رہا ہے اس کی صورت حال واضح نہیں ہو پا رہی کیونکہ ہر روز عوام اس کو بھگت رہے ہیں اور ان کی دادرسی کے بجائے اس میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔

عوام کو پہلے ہی صحت کی محدود سہولیات دستیاب ہیں کیونکہ پچھلے کئی سالوں سے خاص طور پر ملک کے سب سے بڑے صوبے کے دارالحکومت لاہور میں کوئی نیا سرکاری اسپتال نہیں بنایا گیا اور نہ ہی موجودہ سہولیات میں اضافے کے لیے کوئی قابل ذکر اقدامات کیے گئے ہیں بلکہ صحت کے لیے مخصوص فنڈز میں اضافہ بھی نہیں کیا گیا چہ جائیکہ مختلف اضلاع میں نئے اسپتال بنائے جاتے جس سے بڑے شہروں میں مریضوں کا رش کم ہوتا۔ موجودہ حالات میں تمام تر بوجھ کئی دہائیاں قبل بنائے گئے یہی اسپتال ہی برداشت کر رہے ہیں۔ اس پر مستزاد یہ کہ نوجوان مسیحا اپنے مفادات کی خاطر آئے روز ہڑتالوں پر رہتے ہیں حتیٰ کہ ایمرجنسی سروسز کو بھی معطل کر دیا جاتا ہے۔

نوجوان ڈاکٹروں کے مسائل کے حل کے لیے چند سال قبل صوبائی حکومت نے ان کی خواہشات کے مطابق اس میں ردوبدل بھی کیا لیکن اس کے باوجود صورت حال جوں کی توں رہی اور سرکاری شعبہ میں صحت کی اس ناگفتہ بہ صورت حال کا فائدہ نجی شعبہ اٹھا رہا ہے اور عوام کو سستے علاج معالجہ کے بجائے انتہائی مہنگی سہولتیں دستیاب ہیں جو کہ ایک عام آدمی کی پہنچ سے کہیں دور ہیں۔ عوام کو سستا علاج تو درکنار ان کو بنیادی طبی سہولیات کی فراہمی بھی اس صورت حال میں معطل نظر آ رہی ہے۔

شاید اس معاملے میں کوئی حکومتی کمزوری آڑے آ رہی ہے کہ ڈاکٹروں کی جانب سے اس نازک معاملے کا حل مذاکرات کے بجائے ہڑتالوں کے ذریعے سڑکوں پر نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کیا یہ نوجوان ڈاکٹر ہی حق پر ہیں یا حکومتی بے توجہی کا شکار ہیں۔

اس ضمن میں متعلقہ حکومتی وزیروں مشیروں کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے کیونکہ حالات کو دیکھتے ہوئے تو لگتا ہے کہ انتظامی افسران تو اس میں کوئی موثر کردار ادا کرنے سے قاصر رہے ہیں۔ اب اس کو سیاسی سمجھ بوجھ کے ساتھ حل کرنا ہو گا تاکہ عوام جو کہ پہلے ہی بے انتہا مشکلات کا شکار ہیں ان کو کہیں سے ٹھنڈی ہوا کا جھونکا آئے۔ ارباب اختیار کو اگر سڑکوں اور میٹرو سے فرصت ملے تو یہ اہم ترین اور نازک معاملہ بھی توجہ کا مستحق ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔