کم بہت ہی کم

سعد اللہ جان برق  اتوار 5 مارچ 2017
barq@email.com

[email protected]

پشتو میں ایک کہاوت ہے کہ ’’مرگ حق دے خو کفن کے شک دے‘‘ یعنی موت تو برحق ہے لیکن کفن نصیب ہونے میں شک ہے اور یہ ایک بہت بڑا سچ ہے کہ کسی کو کیسی موت ملتی ہے کفن یا چار کاندھے نصیب ہوتے ہیں یا نہیں کوئی رونے والا ملتا ہے یا نہیں، بقول خوشحال خان خٹک وہ لوگ بڑے نصیب والے ہوتے ہیں جنھیں لوگ مرثیوں اور گیتوں میں یاد کریں۔

ایک اور کہاوت یہ بھی ہے کہ دیوار کا اپلا نہ بن کہ گرا تو گرا ۔ آج ہم ایک ایسے خوش قسمت انسان کی بات کرینگے جس کی موت تو برحق تھی لیکن جو کام وہ اپنی زندگی میں نہیں کر پائے اسے ان کی اولاد نے پورا کر دیا، بیس سال بعد سہی لیکن دیر آئد درست آئد۔

شاکر عروجی فیصل آباد کے جانے مانے اور منفرد لہجے منفرد فکر اور منفرد انداز کلام کے شاعر تھے بلکہ اب اگر ’’تھے‘‘ کی جگہ ’’ہے‘‘ کہا جائے تو زیادہ صحیح ہو گا کیوں کہ جو کام وہ اپنی زندگی میں نہیں کر پائے وہ ان کی بیٹی اور نواسے نے کر دکھایا اور بہت ہی اچھا کر دکھایا، ’’کم بہت ہی کم‘‘ کے نام سے شایع ہونے والا یہ کلام اگرچہ شاعری ہے لیکن شاکر عروجی نے اس میں اپنی انفرادیت کا خوب خوب اظہار کیا ہے، بالکل ہی نئے قوافی تلاش کیے ہیں اور ردیف تو جیسے کوئی کہے کہ گویا یہ بھی میرے دل میں تھا، غالب نے تقریر کی جس ’’لذت‘‘ کی طرف اشارہ کیا ہے اسے اصطلاحاً سہل ممتنع کہتے ہیں کہ سننے والا سوچے کہ یہ تو میں بھی کہنا چاہتا تھا، بڑے ہی آسان، بڑے ہی رواں اور بڑے کمال کے ساتھ انھوں نے غزلیں کہی ہیں اور ایسی ردیفوں میں کہی ہیں کہ روزمرہ کی بات چیت کا گمان ہوتا ہے لیکن پھر روزمرہ کی بات چیت میں ایسی بات نکال لیتے ہیں جو بہت ہی خاص ہوتی ہے

سیاہ پڑنے لگی شاہ فاوراں کی جبیں
سحر نہیں یہ وداع سحر ہے دیکھ کے چل

ہم نے ابتداء میں کہا تھا کہ موت برحق ہے لیکن کفن میں شک ہے اور ایک شاعر جو ساری عمر ادب و شعر کی آبیاری کرتا رہا ہو، چلو زندگی میں نہ سہی کم از کم قبر پر تو اس کے کچھ پھول کھل جائیں، یہاں ہم پر حسب معمول کچھ رشک کے جذبات طاری ہو رہے ہیں جناب شاکر عروجی کو ایک ایسی بیٹی اور ایک نواسہ مل گیا لیکن کیا ہم بھی اتنے خوش نصب ثابت ہوں گے کہ آنکھیں بند کر لینے کے بعد کوئی نام لیوا میسر آجائے، وقت وقت حالات حالات اور بس بس کی بات ہوتی ہے ہم سمجھ رہے ہیں کہ اگر شاکر عروجی کو اپنی زندگی میں اپنا یہ کلام شایع کرنے کا موقع مل جاتا تووہ اردو کے صف اول کے شاعروں میں جگہ پا لیتے، لیکن زندگی نے ان کو اتنی مہلت نہیں دی ورنہ ان کا کلام اس معیار کا ہے کہ اسے ایک ممتاز مقام دلا سکے، جتنی آسانی جتنی سہولت اور جتنی مہارت سے وہ اپنی بات کہتے ہیں ایسی استعداد بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔

رکھیے گا مجھ سے حسن گماں کم بہت ہی کم
مجھ سے اٹھے گا ناز شہاں کم بہت ہی کم

سادہ سی التجائے کرم، گر قبول ہو
ہے اس میں رنگ حسن بیاں کم بہت ہی کم

اس دشت مرگ ساز میں آئے نہ جایئے
ہیں نقش پائے راہرواں کم بہت ہی کم

پنبہ بگوش بیٹھ گئے مے کدہ میں شیخ
آئے گی اب صدائے اذاں کم بہت ہی کم

شاکر رضائے دوست کی منزل ہے احتیاط
چپ سادھ لے، چنیں و چناں کم بہت ہی کم

ان کی دختر نیک اختر جنھوں نے اپنے قابل فخر والد کے اس کلام کو کتابی صورت میں شایع کیا ہے اور اپنے بیٹے حضرت شام کو اس کام پر اکسایا ہے، لکھتی ہیں ’’مقام شکر ہے کہ میں کسی صنعت کار، کسی سیاست دان یا وڈیرے کی بیٹی نہیں بلکہ اس کی بیٹی ہوں ادب جس کی جاگیر تھی اور قلم جس کا ہتھیار تھا، مدرس، غزل گو شاعر، نثر نگار، ادیب، خطاط، صحافی، مترجم داعی جمہوریت وطن پرست اور پروفیسر ادبیات اردو و عجم چوہدری محمد حسین بند بشر کی بیٹی ہوں جسے دنیائے علم و ادب شاکر عروجی کے نام سے جانتی ہے۔

قلم ہاتھ میں لیتے ہوئے میرے ہاتھ کانپ رہے ہیں کیوں کہ نہ میں کوئی بلند پایہ ادیبہ ہوں نہ شاعرہ ۔۔۔ نہ اردو میرے گھر کی باندی ہے نہ الفاظ میرے تابع، نہ لسان پر گرفت ایک طفل مکتب کا ایک استاد پر لکھنا ایسا ہے جیسے شمع کی تھرتھراتی لو کو سورج کے سامنے رکھ دیا جائے‘‘ محترمہ فرحت ناز کے فرزند حضرت شام جو خود بھی اردو اور پنجابی شاعری کے بڑے اچھے شاعر، صحافی اور اہل قلم ہیں، لکھتے ہیں ’’ یوں تو بہت سے دیوان چھپتے ہیں کچھ حالات اور بے حسی کی گرد تلے چھپ جاتے ہیں کچھ دیمک کھا جاتے ہیں لیکن بہت تاخیر سے آنے والا زیر نظر کلام ’’کم بہت ہی کم‘‘ اپنے نام کی طرح واقعی ’’کم بہت ہی کم‘‘ اور نادر ہے۔

شاکر عروجی عام شاعر نہیں تھے بلکہ انھیں اچھوتی زمینوں اور بحروں کا شاعر تصور کیا جاتا تھا، کچھ غزلوں کے نیچے تو وہ خود بھی لکھ دیا کرتے تھے کہ اردو ادب میں آج تک اس بحر یا آہنگ میں کبھی کوئی غزل نہیں کہی گئی ہے‘‘ اور یہ بالکل ہی ٹھیک کہا ہے شاکر عروجی مشکل بحروں اور زمینوں کے غواص ہیں لیکن خاص بات یہ ہے کہ مشکل اجنبی اور منفرد زمینوں اور بحروں کہنے والوں کا کلام اپنی وضاحت بلاغت اور سلاست کھو دیتا ہے جب کہ شاکر عروجی کے ہاں ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔

تڑپ اے دل تڑپنے سے قرار آیا؟ نہیں آیا
ترا وہ درد مند و غم گسار آیا؟ نہیں آیا

ستم گر، فتنہ خو، بے اعتبار آیا؟ نہیں آیا
نہیں شرمندہ قول و قرار آیا؟ نہیں آیا

……

ساقیا چاندنی، چاندنی، چاندنی
لا ذرا روشنی، روشنی، روشنی

میری رو داد غم پھیل کر بن گئی
سنسنی، سنسنی، سنسنی، سنسنی

دیکھ شاکر کو کہنے لگے آگیا
کشتنی، کشتنی، کشتنی، کشتنی

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔