سینیٹر + افسانہ نگار= میاں رضا ربانی

امجد اسلام امجد  اتوار 5 مارچ 2017
Amjadislam@gmail.com

[email protected]

میاں رضا ربانی کا شمار ان گنتی کے چند سیاستدانوں میں ہوتا ہے جن کی قابلیت، کمٹ منٹ اور سیاسی سوجھ بوجھ کے ان کے مخالفین بھی قائل اور معترف ہیں۔ کسی اور معاشرے میں شاید یہ بات اتنی اہم نہ ہو مگر وطن عزیز کی حد تک تو ایسے افراد کو ’’غیر معمولی‘‘ کہنا بنتا ہے۔ مجھے ذاتی طور پر ان سے چند تقریبات اور ایک دو فلائٹس کے دوران ملاقات کا موقع ملا ہے جن کا مجموعی تاثر بہت خوشگوار تھا اور ہے۔

یہ بھی اندازہ ہوا کہ وہ ادب سے دلچسپی رکھتے ہیں مگر ایمانداری کی بات ہے کہ چند دن قبل عمدہ افسانہ نگاراور عزیز دوست مظہر الاسلام کے فون سے پہلے تک مجھے یہ گمان بھی نہیں تھا کہ رضا ربانی نہ صرف افسانہ نگار ہیں بلکہ ان کی اس حوالے سے ایک کتاب بھی شایع ہوگئی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ یہ کہانیاں انگریزی زبان میں لکھی گئی ہیں۔ مظہر نے بتایا کہ میاں صاحب مجھے یہ کتاب بھجوا رہے ہیں اور مجھے پہلے اس کو پڑھنا اور پھر اپنی رائے کا اظہار بھی کرنا ہے۔

ہر زبان کی کچھ اپنی مخصوص خوبیاں ہوتی ہیں جو اسے دوسری زبانوں سے ممیز کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر انگریزی زبان کی ایک نمایاں خوبی اس میں One Word کا افراط ہے یعنی کسی ایک لفظ کے دامن میں اسقدر معانی سموئے جاسکتے ہیں جس کے لیے کسی اور زبان میں کئی کئی الفاظ مل کر بھی مطلوبہ تاثر اور مفہوم پیدا نہیں کر پاتے۔ دور کیوں جائیے میاں رضا ربانی کے اس مجموعے کے نام کو ہی دیکھ لیجیے۔

INVISIBLE PEOPLE اب INVISIBLE کو آپ ’’دکھائی نہ دینے والے‘‘، پوشیدہ‘‘، ’’نظروں سے اوجھل‘‘، ’’خیالی‘‘ وغیرہ وغیرہ کچھ بھی کہہ لیجیے۔ بات نہیں بنتی بالکل اسی طرح جیسے پنجابی کی، اس بولی کو کسی دوسری زبان میں ترجمہ کیا جائے تو ’’سلُفے دی لاٹ‘‘ پر آکر لفظ ہار مان لیتے ہیں۔

’’گوری نہا کے چھپر چوں نکلی تے سلُفے دی لاٹ ورگی‘‘

یوں تو یہ سب کہانیاں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں کہ ان میں ’’غربت‘‘ سے پیدا ہونے والی ’’بے بسی‘‘ اور ’’طاقت‘‘ سے جنم لینے والی ’’بے انصافی‘‘ کے مختلف روپ بڑے حقیقی اور متاثر کن انداز میں نہ صرف دکھائے گئے ہیں بلکہ بے وسیلہ اور حالات کے مارے ہوئے انسانوں کے ساتھ کھڑے ہوکر اس ظلم کو بے نقاب کرنے کی کامیاب کوشش بھی کی گئی ہے جو انسانوں سے ان کے چہرے چھین کر انھیں بے چہرہ کردیتی ہے اور وہ اپنی پہچان کھو کر اپنے گروہ کے حوالے سے ایک گنتی کا عدد بن کر رہ جاتے ہیں یعنی ڈیڑھ سو لوگ یا چار درجن انسان۔

ان کہانیوں کے بیشتر کردار ظلم، جہالت، طبقاتی تقسیم، انسانی حقوق کی پامالی اور افتادگان خاک کے منتشر خوابوں اور آرزوؤں کے مظہر ہیں۔ وہ قانون، انصاف اور مجسٹریٹ کو ڈھونڈتی ہوئی بظاہر باؤلی عورت ہو یا اسپتال کے خیراتی وارڈ کے 14 نمبر بیڈ پر پڑا ہوا وہ بے سہارا انسان جسے مکمل علاج سے قبل صرف اس لیے وہاں سے ڈسچارج کردیا جاتا ہے کہ وہ بیڈ اب کسی اور کو دیا جانا ہے یا پھر وہ پیٹ کی بھوک مٹانے کے لیے جانوروں کی طرح بکتی ہوئی عورت جو بار بار اپنی اس تصویر کو دیکھتی ہے جس میں وہ بارہ برس کی ایک معصوم اور خواب دیکھنے والی لڑکی تھی یا وہ عرفان نامی بچہ جس کی ماں صغریٰ ایک روایتی معاشرتی ظلم کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے اور جس کے باپ کو اس کی گمشدگی کے بعد اس کے ہونے کا احساس ہوتا ہے اور جو بے سہارا بچوں سے جانوروں کا سا سلوک کرنے والے انسان نما بھیڑیوں کا مسلسل تشدد سہہ کر بھی بھکاری ہونے کے باوجود اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتا۔ یا اسی کے طبقے کا بچہ حبیب جو اپنے ہم عمر امیر زادے انور عرف انو کی پہلے سے چمکتی ہوئی کار کو روزانہ صاف کرنے کی کوشش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور جس کی ساری کہانی انو کے باپ کے ایک جملے ”Don’t be Silly” کے غبار میں گم ہوجاتی ہے۔

ان کہانیوں میں جھونپڑیوں، سڑکوں، تھانوں اور جیلوں کے اندر معاشرتی جبر کے شکار اور بھی کئی کردار ہیں جن کی سوچ اور حالات کی تصویر کشی اس قدر جزئیات اور عمدگی سے کی گئی ہے جیسے ان کے مصنف نے یہ زندگی دیکھی ہی نہیں بلکہ کسی حد تک خود بھی گزاری ہو جب کہ ہم جانتے ہیں کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ مختلف زبانوں کے عظیم ادیبوں کے یہاں بھی آخر مقامات پر ہمیں ’’مشاہدہ‘‘، ’’تجربے‘‘ کو پیچھے چھوڑتا ہوا نظر آتا ہے۔

یہ کہانیاں بھلے ہی فنی اعتبار سے اتنی بڑی نہ ہوں مگر جہاں تک غریب اور پسے ہوئے طبقات کی نفسیات اور حوالے سے کی گئی کردار نگاری کا تعلق ہے یہ کہانیاں نہ صرف آپ کو اپنے ساتھ ساتھ چلنے پر مجبور کرتی ہیں بلکہ تیسری دنیا کے پسے ہوئے طبقوں کا ایک ایسا تعارف بھی باقی دنیا سے کراتی ہیں جو اس حوالے سے انتہائی اہم ہے کہ اگر دنیا نے گلوبل ویلج بننے کے بعد بھی غریبوں کے لیے ویسا ہی رہنا ہے تو پھر اس ساری نام نہاد ہاؤ وہو اور حقوق انسانی کے پرچار کا مطلب کیا ہے؟

ان کہانیوں کی ایک اضافی خوبی یہ ہے کہ یہ سوچی بے شک اردو یا کسی اور زبان کے حوالے سے گئی ہوں مگر یہ لکھی براہ براست انگریزی میں گئی ہیں جس کی وجہ سے ان کی اپیل اور قارئین کا حلقہ مقامی سے بین الاقوامی ہوگیا ہے۔ اگرچہ بیشتر عنوانات کے معقول اور آسان اردو ترجمے ممکن ہیں مگر میں انھیں انگریزی ہی میں درج کررہا ہوں کہ یہ اپنی جگہ پر میاں رضا ربانی کی عوامی سوچ اور گرے پڑے لوگوں سے محبت کے مؤثر آئینہ دار ہیں۔ کل گیارہ کہانیاں ہیں جب کہ بارہویں کہانی جس کا ذکر رضا ربانی صاحب نے آخر میں Epilogue کے عنوان سے کیا ہے۔ ابھی اپنے لمحۂ اظہار کی منتظر ہے۔ کہانیوں کے عنوان کچھ یوں ہیں۔

Imprisoned Law

The Flowers of Dust

Innocence Lost

They are in Darkness

Broken Dreams of a Boy

Brewing

A Dead Man Walks

Pigeons

Camelot Was not to be

Entangled Threads

When a Part of you dies

آخر میں، میں ان کہانیوں کی ایک ایسی خوبی کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں جس نے دوران مطالعہ مجھے بہت لطف دیا اور وہ اس میں مقامی الفاظ اور جملوں کا استعمال ہے۔ اگرچہ مصنف نے انھیں رومن میں لکھنے کے ساتھ ان کے انگریزی معانی بھی واوین میں درج کردیے ہیں مگر ’’توں قانوں ایں؟ تُوں مجسٹریٹ ایں‘‘ کا مزہ اپنی جگہ ہے۔

پاکستان پیپلزپارٹی کی سیاسی تاریخ کے بارے میں مجھ سمیت بہت سے احباب کے تحفظات اپنی جگہ مگر برادرم اعتزاز احسن کی Indus Saga اور شاعری کے بعد میاں رضا ربانی کی یہ کہانیاں اس اعتبار سے بہت اہم ہیں کہ ان کا محور وہی عوام ہیں جن کے حقوق کا نام لے کر یہ پارٹی وجود میں آئی تھی اور جب تک اس طرح کے لوگ اس کی صفوں میں موجود ہیں۔ امید رکھنی چاہیے کہ ہمیں حبیب جالب کے اس شعر میں موجود شکوے کا جواب بھی ضرور ملے گا اور اس جواب کے تخلیق کاروں میں میاں رضا ربانی کا نام پہلی صف میں ہوگا۔

وہ جس کی روشنی کچے گھروں کو جگمگائے گی
نہ وہ سورج نکلتا ہے نہ دن اپنے بدلتے ہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔