درد اور کرب میں فرق!!

شیریں حیدر  اتوار 5 مارچ 2017
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

’’ اے رب کائنات… دو جہانوں کے پیدا کرنے والے، ان گنت نعمتوں سے سرفراز کرنے والے، ہمیں اپنی ان نعمتوں سے کبھی محروم نہ کرناجو تو نے ہمیں عطا کی ہیں!! یا ارحم الراحمین یا غفور الرحیم ہم پر رحم فرما، ہمارے والدین اور ہمارے بچوں پر، ہمارے بہن بھائیوں اور ہمارے اہل خاندان پر، ہمارے دوست احباب پر رحم فرما- میں نے دعا کے بعد توقف کیا، ’’یا اللہ، یا حافظ وناصراس ملک کا، ہمارا، ہمارے بچوں کا اور اس ملک کے ہر بچے کا تو ہی حافظ و ناصر ہے-

اس ملک کی حفاظت کرنے والوں کی حفاظت فرما میرے مولا ان میں سے شہید ہو جانے والوں کے والدین کو صبر ایوب علیہ السلام عطا فرما جن کے جواں سال بیٹے مردہ تو نہیں کہلاتے مگر زمانے اور ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئے ہیں!!‘‘ اس دعا کے وقت ہر نماز میں میری نظروں کے سامنے اپنے پیاروں کے چہرے گھوم جاتے ہیں، اپنے خاندان کے بچے، اپنے دوستوں کے بیٹے اور ملک کی لاکھوں ماؤں کے لعل جو سرحدوں پر جاگتے ہیں تو ہم سوتے ہیں-

دو مارچ کا دن کچھ ایسا مصروف تھا کہ شام تک خبریں ہی نہ سننے کا موقع ملا شام کو ٹیلی وژن آن ہوا تو علم ہوا کہ آپریشن ردالفساد میںبنوں کے علاقے میں ایک کارروائی کے دوران، فائرنگ کے تبادلے میں ایک نائیک اور ایک لیفٹیننٹ شہید ہو گئے ہیں-

اس پیارے سے نوجوان افسر کی تصویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی، اس کا مسکراتا چہرہ دیکھ کر دل کی دھڑکن تھم گئی کہ ماں کا یہ پیارا سا لعل… ہاہ!! کیا حالت ہو گی اس ماں کی… ایک ماں ہونے کے ناطے مجھے شدید درد محسوس ہوا پھریہ درد… کرب میں بدل گیا، جب معلوم ہوا کہ جس یونٹ میں یہ دو شہادتیں ہوئی ہیں اسی یونٹ میں میرا بھانجا کیپٹن شیرازبھی ہے، زندگی میں پہلی بار اندازہ ہوا کہ درد اور کرب میں فرق کیا ہے- ایک ہی مفہوم کے دونوں الفاظ مگردرد آپ کو اوپری بھی محسوس ہوتا ہے اور گہرائی میں بھی مگر کرب آپ کے وجود کو کاٹ ڈالنے والا درد ہے-

فورا ہاتھ اپنے فون کی طرف بڑھے اور میں نے بے ساختہ شیراز کا نمبر ملایا کوئی جواب نہیں- اس کے والدین کو کال کر کے پوچھا کہ ان کی اس سے بات ہوئی کہ نہیں وہ ٹھیک تو ہے؟؟ ’’اس سے کوئی رابطہ نہیں ہو رہا!!‘‘ بوجھل سی آواز میں جواب سن کر میرے دل کی کئی دھڑکنیں اتھل پتھل ہو گئیں-

’’غالیہ بیٹا آپ سے کوئی رابطہ ہے شیراز کا؟‘‘ اس کی نو بیاہتا بیوی سے پوچھا- اس کی طرف سے بھی انکار ’’بیٹاکچھ اور مت کرو، مصلے پر کھڑی ہو جاؤ اور صرف اس کے لیے نہیں بلکہ اس کی پوری یونٹ کے لیے ملک کی فوج کے ایک ایک جوان کے لیے دعا گو ہو جاؤ!!‘‘ لمحوں میں یہ بات خاندان میں پھیل گئی اور ہر طرف تشویش کی لہر دوڑ گئی- اس سے تو درکنار، کسی سے بھی رابطہ نہ ہو رہا تھا کہ جن سے خیر کی خبر ملتی-

نصف شب کے وقت، صاحب کا رابطہ آئی ایس پی آر سے ہوا اور ایک دو بچوں سے بھی شیراز کا پیغامات کا تبادلہ ہوا اور اس نے رابطہ کرنے سے منع کر دیا- تاہم ا س کی طرف سے خیر کی خبر مل جانا اس وقت دنیا کی سب سے بڑی نعمت لگ رہا تھا- اس وقت سمجھ میں آیا کہ بعض دعاؤں کا مفہوم ہمیں وقت سمجھاتا ہے-کتنا آسان کام ہے دوسروں کے بارے میں ’’بریکنگ نیوز‘‘ سن کر اپنے کاموں میں مشغول رہنا کسی کی موت یا شہادت پر تاسف کا اظہار کر کے اگلے ہی لمحے بھول بھال جانا اور کتنا مشکل ہے ان بچوں کے والدین ہونا جو ہمہ وقت موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کرلیتے ہیں اور اپنے ماں باپ کی خوشیوں کو بنجر کر جاتے ہیں-

ان کے ماں باپ انھیں گلے سے لگا کر ان کے وجود کی خوشبو کو اپنے اندر نہیں اتار سکتے- ان کی قبروں کی مٹی کو چھو کر آنسو بہاتے ہیں کہ ان کی تہہ میں مٹی ہو جانے والے وجود ان کے زندہ وجود کو قبر بنا دیتے ہیں – ان سے جدائی ان کے وجود کا وہ ناسور ہوتی ہے جو ہر روز تازہ ہوتا ہے اور ہر روز دکھتا ہے-

جس کرب میں وہ مبتلا ہوتے ہیں، ہم اس کرب کو محسوس تو کیا اس کی وضاحت بھی نہیں کر سکتے، الفاظ چھوٹے اور جذبات کم پڑ جاتے ہیں- کون ہے مائی کا لال جو اپنے چند ہفتوں، مہینوں یا سالوں کے بیٹوں یا بیٹیوں کو یوں گولیوں کی بوچھاڑ کے سامنے سینہ سپر ہونے دے؟

اس کے لیے پہاڑ جیسا کلیجہ اور چٹانوں جیسا جگر چاہیے ہوتا ہے دوسری ماؤں کو کہنا کہ صبر کرو، شہید کی ماں ہو، بہن یا شہید کی بیوہ ہو، آسان ہے شاید، مگر ان کا درد کون جانے جنھوں نے اس پندرہ سالہ طویل جنگ میں اپنے جگر گوشے گنوائے ہیں- جو غازی بن کر لوٹے ان میں سے بھی سیکڑوں نہیںبلکہ ہزاروں ہیں جو کسی مستقل جسمانی کجی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں، ٹانگیں، بازو، آنکھیں اور ہڈیاں، کیا نقصانات نہیں اٹھائے ہیں انھوں نے-

کتنی آسانی سے ہمارے دانشورٹیلی وژن چینلز پر اور ہم اپنے گھروں میں بیٹھ کر کہتے ہیں کہ انھیں اسی کام کی تنخواہ ملتی ہے پلاٹ ملتے ہیں، گھر ملتے ہیں، زمینیں ملتی ہیں، پنشن ملتی ہے کوئی مجھے ڈھونڈ کر لا کر دے، ایک جوان سال، پلے پلائے،جری، خوبصورت، ذہین اور بہادر بیٹے کا نعم البدل- ایسے بیٹوں کے مقابلے میں تو دنیا ہر دولت ہیچ ہے !!! ایسے والدین کی عظمت کو سلام ہے لاکھوں بار کہ جن کے بیٹوں کو اس دھرتی ماں کی حفاظت کا بیڑا ملا ہے اور وہ اپنی جانوں پر کھیل کر بھی اس پر آنچ نہیں آنے دیتے-

ہر طرف سے بیرونی اور بد قسمتی سے اندرونی دشمنوں سے بھی برسر پیکار اس ملک کے سب تحفظ پر فرائض پر مامور اداروں کے ایک ایک فرد کے جواں حوصلے ہی تو ہیں جن سے ہم سب سکون سے رہتے ہیں، آزادی سے سانس لیتے ہیں – ہر سانس یقین اور بے یقینی کے بین بین سینے سے خارج اور داخل ہوتی ہے-

یہ فقط ان کے نہیں میرے اور آپ کے بھی سپوت ہیں، بھائی ہیں، باپ ہیں اورقریبی رشتہ دار ہیں- کون ہے جو یوں سر بہ کفن ہو کر ایسی راہ پر کسی اور کی خاطر چلتا ہے جس دھرتی ماں کی حفاظت کا بیڑا انھوں نے اٹھایا ہے وہ ہماری بھی اتنی ہی ماں ہے جتنی ان کی… ہم کیا کرتے ہیں اس ماں کی خاطر؟؟ خود سے سوال کریں اور دیکھیں کیا جواب آتا ہے-

ہم تو دولت اور جائیدادوں کا ٹیکس دینے کو تیار نہیں ہوتے ، جان کیا دیں گے اس ملک کی جن گلیوں کو ہم نے اپنے ہاتھوں سے آلودگی اور گندگی سے سجا رکھا ہے ہم انھیں صاف نہیں رکھ سکتے، ان کی حفاظت کا بیڑا کیا اٹھائیں گے!! ہم اپنا تھوک تک کسی کو مفت میں نہیں دیتے، لہو کا نذرانہ کیا دیں گے- ہم ا ن کے مرتبے کے پاسنگ بھی نہیں ہیں، انھیں اللہ تعالی نے اس کام کے لیے چنا ہے- جس بلندی اور معراج کے مرتبے تک وہ ہیں وہاں تک ہماری سوچ کی پرواز بھی نہیںہیں- اپنے ان پیارے پیارے محافظوں کو محبت کا احسا س دلائیں، ان کی قربانیوں کی قدر کریں اور ان پر بلا وجہ تنقید کرنا چھوڑ دیں –

یہ ہماری دعاؤں اور تعاون کے بنا نامکمل ہیں ہماری ملک کی سلامتی اور تحفظ ان کے بغیر نامکمل اور ہم اس ملک کے بغیر نامکمل اور بے شناخت ہیں- ان والدین کے دلوں کے کرب کو کون جان سکتا ہے ماسوائے اللہ کے کہ وہ ہر دکھی دل کی پکار سنتا ہے- ان دکھی دلوں کے دکھوں میں اضافہ نہ کریں- کبھی موقع ملے تو کسی شہید کے گھر والوں کو ملیں، ان سے پوچھیں کہ وہ کتنے زندہ ہیں- ان میں اور ان کے شہید ہونے والوںمیں فرق صرف یہ ہے کہ شہید ہونے والے زندہ کہلاتے ہیں مگر ہم انھیں دیکھ، چھو اور محسوس نہیں کرسکتے اور ان کے لواحقین جنھیں ہم دیکھ، چھو اور محسوس کر سکتے ہیں… وہ زندہ نہیں ہوتے!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔