تماشا مرے آگے

مقتدا منصور  بدھ 9 جنوری 2013
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

2012ء کے آخری ہفتے میں اگرچہ مایا کیلنڈرکے مطابق قیامت تو نہیں آئی ،مگر پاکستان میں قیامت جیسے آثار ضرور پیدا ہوگئے ہیں، جو 2013 میں سیاست اور ریاست دونوں ہی کو ہلانے کا سبب بن سکتے ہیں۔23دسمبرکی سہ پہرمینار پاکستان پر شیخ الاسلام حضرت علامہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی تقریرکے بعد سے یخ بستہ ہوائوں کی لپیٹ میں آئے ملک کی سیاسی فضا کا درجہ حرارت یکایک بلندیوں پر جاپہنچا۔ان کی عام انتخابات سے ذرا پہلے اچانک آمد اورکرپٹ انتخابی نظام کے خاتمے کے لیے اسلام آباد کے گھیرائو کے اعلان نے پورے ملک میں ایک ہلچل مچا دی ہے۔

بعض سیاسی رہنمائوں نے ردعمل میں ان کی تقریراور بعد میں مختلف فورمز سے جاری ہونے والے فرمودات کے مندرجات (Content) کا مختلف پہلوئوں سے درست جائزہ لینے کے بجائے ان پر ذاتی حملوں کی یلغار کردی ہے۔ دیکھا جائے یہی کچھ حال ذرایع ابلاغ کاہے،جواصل حقائق سامنے لانے کے بجائے فکری آلودگی میں اضافے کا سبب بنا ہوا ہے۔اب تک ڈاکٹر عائشہ صدیقہ سمیت صرف چند تجزیہ نگاروں نے ان کے مطالبات کا سیاسی صورتحال کے تناظر میں مدبرانہ استدلال کے ساتھ جائزہ لیا ہے۔ جس سے کچھ نئے زاویے منکشف ہوکر سامنے آئے ہیں۔باقی تمام جائزے اور مباحث یک طرفہ ہونے کی وجہ سے سطحی نوعیت کے ہیں۔

علامہ کے فرمودات کا جائزہ لینے سے قبل اس حقیقت کا اعتراف کرنا ہوگا کہ اس وقت ملک نظم حکمرانی کے بدترین بحران سے دوچار ہے۔ جوگزشتہ کئی دہائیوں سے تسلسل کے ساتھ زوال آمادگی کاشکار تھا،مگر ان پانچ برسوں کے دوران تباہی کے آخری دہانے تک جا پہنچا ہے۔موجودہ منتخب دور حکومت میں سوائے چند ایک آئینی اصلاحات کی منظوری کے کوئی ایسا اقدام نہیں ہوا، جو معیشت کی بحالی، سماجی ترقی کی سمت کا تعین اور قانون کی بالادستی کی ضمانت فراہم کرنے کا سبب بن سکے۔

اس کے برعکس امن وامان کی صورتحال میں بڑھتی ہوئی ابتری،کرپشن اور مہنگائی میں ہوشربا اضافہ،بجلی اور گیس کا شدید ہوتا بحران اور سب سے بڑھ کر ادارہ جاتی تصادم کی فضاء نے ریاست کے وجود کو مختلف نوعیت کے خطرات سے دوچار کردیا ہے۔اس طرح ملکی مجموعی سیاسی، سماجی اور معاشی صورتحال ماضی کے مقابلہ میں بہت زیادہ ابتری کا شکار ہوئی ہے۔ ایک ایسے ماحول میںعوام الناس میں تبدیلی کے لیے انگڑائی لیتی خواہش کوئی غیر فطری بات نہیں ہے۔البتہ تبدیلی کی نوعیت اور طریقہ کار پر بحث سے انکار بھی ممکن نہیں ہے۔

کیونکہ اس قسم کے مباحث ہی ملک میں جمہوریت کے استحکام اور ریاست کی پائیداری کے لیے ضروری ہیں۔ اس کے علاوہ ایک غور طلب سوال یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ جو ہنوز نیم قبائلی اور نیم جاگیردارانہ کلچر کی سخت ترین گرفت میں ہے،آیا اس میں مروجہ انتخابی عمل کے ذریعے کسی مثبت تبدیلی کی توقع کی جاسکتی ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو پھر انتخابی عمل میں کس نوعیت کی تبدیلیاں کی جائیں کہ جمہوری عمل بھی پٹری سے نہ اترے اور معاملات بھی بہتری کی جانب گامزن ہوجائیں۔شاید یہی وہ نکتہ ہے جس پر سب سے زیادہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔

دراصل مجموعی طورپر 32برس پرمحیط چار طویل فوجی آمریتوں اور منتخب ادوار میں اسٹبلشمنٹ کے پس پردہ کردار نے سیاسی جماعتوں ہی کو نہیں بلکہ متوشش شہریوں کوبھی شکوک وشبہات میں مبتلاکردیا ہے۔اس لیے وہ چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پینے پر مجبورہوگئے ہیں۔لہٰذا جب شیخ الاسلام ڈاکٹرطاہرالقادری انتخابی اصلاحات کے ایک نئے ایجنڈے کے ساتھ اچانک رونماء ہوئے، توجہاں ایک طرف لاکھوں لوگوں نے انھیں ایک نجات دہندہ سمجھتے ہوئے ان کی آواز پر لبیک کہا، وہیں دوسری طرف عوام کی ایک بہت بڑی تعداد میں ان کی سرگرمیوں کے سبب شکوک وشبہات بھی پیدا ہوئے،جو قطعی فطری ہیں۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ23دسمبر کو لاہور میں جلسے عام سے خطاب کے بعد سے اب تک انھوں نے کئی پینترے بدلے ہیں،جس سے ان کے مشن اورسرگرمیوں کے بارے میں ابہام میں مزید اضافہ ہواہے۔ابتداء میں انھوں نے فرمایا تھا کہ انتخابی اصلاحات کے لیے اگر عبوری حکومت کی مدت 90دن سے بڑھ بھی جائے تو کوئی فرق نہیں ہے۔بعد میں انھوں نے اپناموقف تبدیل کرلیا اور فرمایا کہ وہ انتخابات مؤخر کیے جانے کے حق میں نہیں ہیں۔اس لیے ان کی تجویز کردہ انتخابی اصلاحات متعینہ ایام کے اندر بھی ممکن ہیں۔

پہلے انھوں نے فرمایا کہ ان کا تخاطب موجودہ حکومت نہیں بلکہ وہ عبوری حکومت ہے، جس سے مجوزہ اصلاحات کی توقع رکھتے ہیں۔پہلے فرمایا کہ وہ الیکشن کمیشن کو قانون ساز ادارہ بنانا چاہتے ہیں،مگر بعد میں ان کا کہنا تھا کہ 14جنوری سے قبل عبوری حکومت قائم کی گئی تو اسے اٹھاکر پھینک دیا جائے گا ، ساتھ ہی کہہ رہے ہیں کہ ہم نے بھی چوڑیاں نہیں پہن رکھیں۔

اب ان کی سوئی آئین کی شق62اور63 پر اٹک گئی ہے اور چاہتے ہیں کہ امیدواروں کی جانچ پڑتال ان شقوں کے ذریعے کرنے کے بعد انھیں انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی جائے۔اسی طرح پہلے روز انھوں نے عدلیہ اور فوج کو بحیثیت ایک شراکت دار(Stakeholder)عبوری حکومت میں شامل کرنے کی بات کی۔مگراب وہ انھیں مشاورت میں شریک کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔یوںان کے بیانات اور مطالبات مجموعہ تضادات ہیں۔

اب جہاں تک انتخابی عمل میں موجودخامیوں کا تعلق ہے تو ان کی نشاندہی بالکل درست ہے۔ موجودہ انتخابی نظام کے تحت بے شک ایک عام شہری انتخابات میں حصہ لینے اور کامیاب ہونے کا تصور بھی نہیںکرسکتا اور صرف مخصوص طبقات سے تعلق رکھنے والے بااثر لوگ ہی اسمبلیوں میں پہنچتے ہیں۔اس مقصد کے لیے انتخابی عمل میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ لیکن یہ تبدیلی پارلیمنٹ یا پھر ریفرنڈم کے ذریعے ہی ممکن ہے،جس کی آئین اجازت دیتاہے۔مگر الیکشن کمیشن یاعبوری حکومت آئینی طورپر اس سلسلے میں کوئی قدم اٹھانے یا کسی قسم کی تبدیلی لانے کے مجاز نہیںہیں۔الیکشن کمیشن کی ذمے داری الیکشن کاانعقادکراناہے۔گویا یہ صرف ایک انتظامی ادارہ ہے۔جب کہ عبوری حکومت کامینڈیٹ صرف انتخابات کے انعقادکے لیے سہولیات مہیا کرنا اوراس کے بعد اقتدار اگلی منتخب حکومت کو منتقل کرنے تک محدود ہے۔

لہٰذاانتخابی طریقہ کار میں کسی قسم کی تبدیلی صرف پارلیمنٹ ہی کرسکتی ہے۔اس کے علاوہ آئین کسی نزاعی مسئلہ پر ریفرنڈم کرانے کی بھی اجازت دیتا ہے،جو صدر کا صوابدیدی اختیار ہے۔ اب یہ فیصلہ علامہ صاحب کو کرنا ہے کہ وہ عام انتخابات کے مروجہ عمل میں تبدیلی کے لیے موجودہ پارلیمان یا صدر سے رجوع کرنا پسند فرمائیں گے یا پھرطاقت کے زور پر انتخابات کو التواء کا شکار کرنا چاہیں گے۔ یہ ان پر منحصرہے۔لیکن یہ طے ہے کہ اگر کسی سبب انتخابات ملتوی ہوتے ہیں توملک میں ایک ایسا بحران پیدا ہوگا، جس پر قابوپانا کسی کے بس میں نہیں ہوگا۔اس لیے اس نکتے کو بھی ملحوظِ خاطر رکھا جائے تو زیادہ بہترہے۔

اگر علامہ صاحب اور ان کے حلیف واقعتاً ایک ایسے نظام کے حامی ہیں جس میںمڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے پروفیشنلز منتخب ہوکر اسمبلیوں میں پہنچیں، توپھر ادھر ادھر ہاتھ،پائوںمارنے کے بجائے وہ اپنی پوری توجہ متناسب نمایندگی کے طریقہ انتخاب کو متعارف کرانے پر مرکوز کیوںنہیں کرتے۔کیونکہ یہ وہ واحد راستہ ہے،جوکسی تاخیر کے بغیر انتخابی عمل کی بروقت تکمیل اور ایک متوازن اور وسیع البنیاد پارلیمان کی تشکیل کا سبب بن سکتا ہے۔

اس طرح ایک طرف سیاسی عمل پر سے Electablesکی اجارہ داری ختم ہوسکتی ہے ،تو دوسری طرف آزاد امیدواروں کی بلیک میلنگ سے چھٹکارہ ممکن ہوسکے گا۔مگر اس مقصد کے لیے انھیں موجودہ پارلیمنٹ پر دبائو ڈال کر کم ازکم بیس برس کے لیے ملک میں متناسب نمایندگی کا ترمیمی بل منظور کراناہوگا۔ اس مسئلے پرہم ایک سے زائد مرتبہ اظہاریے تحریر کرچکے ہیں۔اس طریقہ انتخاب کے لیے نہ انتخابی فہرستوں میں ترمیم کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ازسرنو حلقہ بندیاں کرنا ہوتی ہیں۔ بلکہ موجودہ انتخابی فہرستوں اور حلقوںکے ساتھ ہی انتخابات کا انعقاد ممکن ہوتاہے۔اس عمل میں ووٹ افراد کے بجائے پارٹی کو پڑتے ہیں۔ ہر جماعت کو پڑنے والے ووٹوں کے تناسب سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں نشستیں تفویض کردی جاتی ہیں۔

لیکن ہر جماعت کو پابند کیاجاتا ہے کہ وہ اپنے امیدواروں کی فہرست انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن میں جمع کرائے۔ یہ بالکل اسی طرح کا طریقہ کار ہے جو مخصوص نشستوں کے لیے اسوقت رائج ہے۔ اس طرح برادری، قبائلی وابستگی کی بنیاد اور تھانہ و پٹواری کی مدد سے جبراً منتخب ہونے کے عمل کی حوصلہ شکنی ہو سکتی ہے اور وہ لوگ پارلیمنٹ میں آسکتے ہیں جو سنجیدگی کے ساتھ قانون سازی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ یوں علامہ صاحب کا خواب بھی پورا ہوجائے گا اور انتخابی عمل بھی تاخیر سے دوچار نہیں ہوگا۔ وگرنہ یہ تماشہ یونہی ہوتا رہے گا اور ہم سب اس تماشے کا حصہ بنتے رہیں گے اور ہر الیکشن کے بعد اپنے مقدر کو کوستے رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔