آذر بائیجانی جمہوریت

ظہیر اختر بیدری  پير 6 مارچ 2017
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

آذربائیجان کے صدر الہام علیوف نے اپنی بیوی مہربان علیویہ کو نائب صدر اول تعینات کر دیا ہے، اگر کسی وجہ سے الہام علیوف صدر نہ رہے تو ان کی بیوی مہربان علیویہ صدر کا عہدہ سنبھال لیں گی۔ خبر کے مطابق اس اقدام کا مقصد اقتدار پر خاندان کے قبضے کو مضبوط بنانا ہے۔

آذر بائیجان کی پارلیمنٹ کے اپوزیشن لیڈر عیسیٰ گمیار نے صدر الہام علیوف کے اس فیصلے پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اکیسویں صدی میں خاندانی حکمرانی کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، اگر صدر نے اپنا فیصلہ واپس نہیں لیا تو کیا ان کے غیر جمہوری فیصلے کے خلاف حزب اختلاف تحریک چلائے گی؟

صدیوں بلکہ ہزاروں برسوں پر پھیلی ہوئی شخصی اور خاندانی حکمرانیوں کے بعد دنیا نے جس جمہوریت کو متعارف کرایا اس میں خاندانی حکمرانی کی کوئی جگہ نہیں بنتی، صرف عوام کے منتخب نمایندے ہی برسر اقتدار آسکتے ہیں، لیکن اس بدقسمتی کو کیا کہیے کہ پسماندہ ملکوں میں خاندانی حکمرانیوں کا کلچر نہ صرف دوبارہ متعارف کرایا جا رہا ہے، بلکہ اسے مستحکم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ یہ کلچر مسلم ملکوں میں زیادہ پھیل رہا ہے اور حد یہ ہے کہ کئی مسلم ملکوں خصوصاً مشرق وسطیٰ میں اب تک بادشاہی نظام جاری و ساری ہے اور خاندانی حکمرانیوں کے سمندر میں ولی عہدی کے مگرمچھ منہ کھولے جمہوری مچھلیوں کو نگلتے جا رہے ہیں۔

بلاشبہ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں وہ خواص موجود نہیں ہیں جو جمہوریت کی روح کہلا سکتے ہیں لیکن اس جمہوریت میں فیصلوں کا اختیار کسی فرد واحد کے ہاتھوں میں نہیں بلکہ پارلیمنٹ کو ہے، جو عوام کے منتخب نمایندوں پر مشتمل ہوتی ہے۔ ترقی یافتہ ملکوں میں انتخابی نظام میں وہ خامیاں خاص طور پر انتخابی دھاندلیوں کا وہ کلچر موجود نہیں جو پسماندہ ملکوں میں روایت بنتا جا رہا ہے بلکہ ترقی یافتہ ملکوں میں یہ روایت مضبوط ہے کہ سربراہ مملکت اپنی ٹرم پوری کرنے کے بعد سیاست ہی سے الگ ہو کر غیر سیاسی زندگی گزارنے لگ جاتا ہے۔

جہاں جہاں جمہوریت کے نام پر ولی عہدی نظام موجود ہے وہاں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں موجود وہ لوگ جو پارٹی کا کام کرتے ہوئے اور قربانیاں دیتے ہوئے اپنے بال سفید کر چکے ہیں وہ نہ صرف پچھلی صفوں میں چلے جاتے ہیں بلکہ کم عمر ولی عہدوں کے سامنے انھیں ہاتھ جوڑے کھڑے رہنا پڑتا ہے جو جمہوری نظام کی نفی ہی نہیں بلکہ جمہوری نظام کے نام لیواؤں کے لیے باعث شرم بھی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ لولی لنگڑی جمہوریت آمریت سے بہتر ہوتی ہے اور جمہوریت پسندوں کی یہ تھیوری بھی غلط نہیں کہ بتدریج ہی جمہوری ادارے مضبوط ہو سکتے ہیں لیکن جمہوریت کا تسلسل اس وقت ہی بامقصد ہو سکتا ہے جب عوام کو آگے آنے کا موقع موجود ہو۔

جمہوریت کو اکثریت کی حکومت کہا جاتا ہے اور یہ فلسفہ اس لیے اوندھے منہ پڑا ہوا ہے کہ نیابتی جمہوریت میں عوام اپنے ووٹ کے ذریعے جن لوگوں کو منتخب کرتے ہیں ان کا عوام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ان منتخب لوگوں کا عمومی تعلق اشرافیہ سے ہوتا ہے۔

یہ ایک بہت بڑا المیہ ہے کہ ہمارے ملک میں ماضی کے بادشاہوں کی قوت بنا رہنے والا جاگیردار طبقہ پاکستانی سیاست پاکستانی معاشرے پاکستان کی سماجی زندگی پر اب تک چھایا ہوا ہے اور اقتدار کے ایوانوں میں ایک مستحکم طاقت کی حیثیت سے موجود ہے دوسری عالمی جنگ کے بعد جب نوآبادیاتی نظام ختم ہوا اور محکوم ملک آزاد ہوئے تو ان ملکوں میں جمہوری دور کا آغاز ہوا اور منتخب نمایندوں نے سب سے پہلا کام یہ کیا کہ بادشاہتوں کی باقیات جاگیردارانہ نظام کو زرعی اصلاحات کے ذریعے ختم کر دیا۔

ہمارے پڑوسی ملک بھارت میں بھی آزادی کے بعد سخت زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیردارانہ نظام کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکا گیا۔ لیکن یہ کیسا المیہ ہے کہ پاکستان میں بار بار کی زرعی اصلاحات کے باوجود جاگیردار طبقہ موجود ہی نہیں بلکہ مستحکم بھی ہے اور پاکستانی سیاست میں جو خرابیاں موجود ہیں اس کا بڑا سبب بھی جاگیردارانہ نظام کی باقیات ہیں۔ تعجب بلکہ حیرت کی بات ہے کہ پاکستانی جمہوریت میں خرابیاں گنوانے والوں کو یہ خرابی نظر نہیں آتی کہ پاکستانی سیاست میں جاگیردارانہ نظام بھی اب تک خرابیوں کی جڑ بنا ہوا ہے۔

پاکستان میں ہونے والی زرعی اصلاحات اس لیے ناکام ہوئیں کہ پاکستانی سیاست میں وڈیرہ شاہی ایک مضبوط عنصر کی طرح موجود ہے۔69 سال سے ہمارے ملک میں جو انتخابی نظام رائج ہے اس میں سب سے اہم اور فیصلہ کن عنصر دولت ہے۔ ہمارا انتخابی نظام دولت کی بنیادوں پر استوار ہے الیکشن وہی شخص لڑ سکتا ہے جو انتخابی مہم پر کروڑوں روپوں کی سرمایہ کاری کرنے کی اہلیت رکھتا ہو اور اس ملک کی آبادی کا 80 فیصد سے زیادہ حصہ جو دو وقت کی روٹی کا محتاج ہے وہ بھلا الیکشن لڑنے کی عیاشی کیسے کر سکتا ہے؟

اسی مجبوری کی وجہ سے عوام کی 80 فیصد سے زیادہ اکثریت ہمارے انتخابی نظام سے باہر کھڑی ہے اور اس کا جمہوریت میں بس اتنا کردار ہے کہ الیکشن کے دن مالدار امیدواروں کی مہیا کی ہوئی ٹرانسپورٹ میں الیکشن بوتھ پر لمبی لائنوں میں گھنٹوں کھڑے ہوکر اپنے طبقاتی دشمنوں کے حق میں ووٹ ڈال کر گھر واپس آئے۔

ترقی یافتہ ملکوں میں کسی شہری کے لیے ایم این اے یا ایم پی اے کے انتخابات میں شرکت کرنے پر کوئی پابندی نہیں ہے لیکن وہاں کے انتخابی نظام میں شرکت کے لیے بلدیاتی اداروں میں خدمات کے مرحلے سے گزرنا ضروری ہے کیونکہ جمہوری تربیت انھی اداروں میں ہوتی ہے لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہماری اشرافیہ اختیارات کی تقسیم کے لیے تیار نہیں اور بلدیاتی نظام اختیارات کی تقسیم سے عبارت ہے۔

ہمارے ملک میں ساڑھے چار کروڑ مزدور رہتے ہیں دیہی زرعی معیشت سے 60 فیصد آبادی جڑی ہوئی ہے لیکن اتنی بڑی اکثریت کو سیاسی کمی بنا کر رکھ دیا گیا ہے، اس اکثریت کو سیاسی میدان میں آنے کا اسی وقت موقع ملے گا جب خاندانی حکمرانیوں کا سلسلہ ختم ہو گا اور جمہوری ملک آذر بائیجان کے کلچر سے آزادی حاصل کریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔