موسیقار اعظم نوشاد کی خودنوشت

رئیس فاطمہ  پير 6 مارچ 2017
fatimaqazi7@gmail.com

[email protected]

’’ان دنوں مجھ پر کام کا ایسا جنون سوار ہوا تھا کہ اپنا ہوش نہ رہتا، ہر وقت ہر لمحہ کسی گیت کی دھن، کسی گیت کے بول میرے ہوش و حواس پہ چھائے رہتے۔ ایسے عالم میں مجھ سے بڑی بڑی حماقتیں بھی سرزد ہوئی ہیں۔ مثال کے طور پر میں نے دادر میں فلیٹ کرائے پر لیا تھا مگر ایک روز کسی گیت کی دھن سوچتا ہوا سیدھا پریل کی جھونپڑی کی چال میں پہنچ گیا۔ بڑے اطمینان کے ساتھ کوٹ وغیرہ اتارا اور بستر پہ دراز ہو گیا۔ آنکھیں موندے دھن کو سجانے سنوارنے میں مصروف تھا کہ کمرے میں ایک عورت داخل ہوئی وہ مجھے دیکھ کر چونکی، اس نے مراٹھی لہجے میں مجھ سے پوچھا ’’تم کون ہو؟‘‘ میں اس سوال پر ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا، اپنا کوٹ اٹھایا اور دوڑ لگا دی، بھاگتے بھاگتے بس اسٹینڈ آیا، بس پکڑی اور دادر کے مکان میں آیا۔ گھر آ کر یہ سوچ کر جسم پہ لرزہ طاری ہو گیا کہ کسی غیر کے مکان میں کسی غیر عورت کی موجودگی میں داخل ہونے کی بہت بڑی سزا بھی مل سکتی تھی۔‘‘

یہ بیان ہے برصغیر کے نامور موسیقار اعظم نوشاد کا، جو ان کی سرگزشت میں موجود ہے۔ یہ خودنوشت ماہنامہ ’’شمع‘‘ دہلی میں قسط وار شایع ہوئی تھی اور اب یہ کتابی شکل میں دستیاب ہے۔ ایک وقت تھا کہ سید معراج جامی اور راشد اشرف یہ خواب دیکھا کرتے تھے کہ بغیر کسی مالی منفعت کے معیاری نایاب اور دلچسپ کتب کو پیپر بیک پر چھاپا جائے۔

مالی منفعت پیش نظر ہوتی تو یہ کام ہرگز نہ ہو پاتا، کیونکہ یہ کام سرمائے کو اندھے کنوئیں میں ڈالنے کے مترادف تھا۔ وہ بھی ایسے دور میں جہاں آئس کریم اور پیزا کھانے پر ہزاروں خرچ کرنا فیشن میں شامل ہو، اور کتاب کی خریداری پر تین سو بھی خرچ کرنا حماقت سمجھا جائے۔ لیکن نیت صاف ہو تو منزل بھی آسان ہو جاتی ہے۔ لہٰذا اٹلانٹس پبلی کیشنز اور قارئین کے تعاون سے یہ سلسلہ کامیابی سے چل نکلا اور اس طرح بہت سی خودنوشتیں، شکایات اور دیگر موضوعات پہ مسلسل کتب شایع ہو رہی ہیں۔

’’نوشاد کی خودنوشت‘‘ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ یہ اتنی دلچسپ ہے کہ پڑھتے جائیے وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ ایک تو موضوع ایسا کہ فلم اور موسیقی کی روئیداد شانہ بہ شانہ چلتی ہیں۔ پھر فلمی دنیا کے عہد زریں کے واقعات اتنے دلچسپ انداز میں نوشاد نے لکھے ہیں کہ کتاب ہاتھ سے چھوڑنے کو جی نہیں چاہتا۔ ایک بات ماننی پڑے گی کہ نوشاد نے بہت سادگی سے وہ تمام اہم واقعات بیان کر دیے ہیں جو فلمی دنیا کی جگمگاتی روشنیوں ہیرو، ہیروئین، ولن اور دیگر موضوعات کو سمیٹے ہوئے ہے۔

اس خودنوشت میں ایک جگہ اداکارہ ببّو کا ذکر بھی ملتا ہے جن سے امداد علی بھٹو نے شادی کی تھی، جب پاکستان بن گیا تو ببّو بھی پاکستان آ گئیں، وہ امداد علی بھٹو کے پاس لاڑکانہ میں رہتی تھیں۔ شوہر کی وفات کے بعد ببّو نے پاکستانی فلموں میں کام کرنا شروع کر دیا، زندگی کے آخری چند سال بہت کسمپرسی میں گزارے۔ وہی بات کہ لاکھوں کمائے اور لاکھوں لٹائے۔ کسی برے وقت کے لیے بچا کر کچھ نہ رکھا۔

انڈیا اور پاکستان میں بیشتر پرانی اداکارائیں اور اداکاروں نے نام، شہرت، پیسہ خوب کمایا لیکن آخری وقت نہایت عسرت اور گمنامی میں گزرا۔ جیسے میناشوری، پرنس آف منروا مووی ٹون، صادق علی وغیرہ۔ لیکن آج کے فنکار زیادہ ذہین اور عقل مند ہیں، وہ لاکھوں کماتے بھی ہیں لیکن لٹاتے نہیں، بلکہ اپنے عروج کے دور میں سرمایہ کہیں محفوظ کر دیتے ہیں، کوئی ہوٹل بنا لیتا ہے، کوئی پروڈکشن ہاؤس بنا لیتا ہے، کوئی خود فلم ساز بن جاتا ہے کہ فلمی دنیا چڑھتے سورج کی پجاری اور بڑی بے رحم ہے۔

اس خودنوشت میں فلم ’’مغل اعظم‘‘ اور ’’مدرانڈیا‘‘ کی تکمیل کی داستان بہت دلچسپ ہے۔ لوگ کتنی محنت کرتے تھے۔ ڈائریکٹر ایک ایک سین کے لیے جان لڑا دیتے تھے۔ آج بھی جو سحر پرانے گانوں کا ہے وہ جدید دور کی فلموں میں ناپید ہے۔ مختصر سے ساز وہ کمال دکھاتے تھے کہ نوشاد کی ہر دھن پر لوگ عش عش کر اٹھتے تھے۔ گنگا جمنا، دیدار، بابل، انداز، آن، امر، مدر انڈیا، مغل اعظم، ترانہ، جگنو، زینت، بھلا کون کون سی فلموں کے سنگیت کا ذکر کیا جائے۔

نوشاد نے کے آصف اور محبوب صاحب کا جس طرح ذکر کیا ہے اسے پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اپنے کام سے لگن اور ایمان سے ہر کام کو انجام دینے والا کبھی ناکام نہیں ہوتا۔ نوشاد کی ہر فلم کے گانوں کے ریکارڈ جس طرح بکتے تھے وہ حیرت کا مقام ہے۔ ایک ایک دھن کو کمپوز کرنے سے پہلے پوری فلم کی کہانی اور سچویشن کو سامنے رکھ کر گیت کمپوز کیے جاتے تھے۔ اسی لیے وہ آج بھی زندہ ہیں اور انھی گانوں کے اور فلموں کے ری میک بن رہے ہیں۔ نوشاد کے یہ گیت تو آج بھی شادی بیاہ کے موقع پر سننے کو ملتے ہیں، فلم بابل کا یہ گیت جسے منڈھا کہا جاتا ہے آج بھی سننے والوں کو رلا دیتا ہے۔

چھوڑ بابل کا گھر موہے پی کے نگر آج جانا پڑا

اسی طرح ’’مدر انڈیا‘‘ کے اس گیت کی ریکارڈنگ میں گلوکارہ شمشاد بیگم اور ساتھی لڑکیوں کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں:

پی کے گھر آج پیاری دلہنیا چلی
روئیں ماتا پتا ان کی دنیا چلی

اسی خودنوشت میں وہ قصہ بھی ہے جب ذوالفقار علی بھٹو جو اس وقت اٹھارہ انیس سال کے ہوں گے، اداکارہ نرگس کے دیدار کے لیے ممبئی میں میرین ڈرائیو پر رات دو دو بجے تک بیٹھے رہتے تھے۔ اکثر لوگ نوشاد سے پوچھتے کہ پچھلے زمانے کے گیتوں کی عمریں بڑی کیوں ہوتی تھیں؟ وہ جواب دیتے تھے کہ ’’ان گیتوں کی عمروں میں وہ راتیں بھی شامل ہوتی تھیں جو جاگ کر گزاری جاتی تھیں، جن میں بڑی عرق ریزی بھی کی جاتی تھی‘‘۔

موجودہ دور میں موسیقار کو نہ سچویشن کا پتہ  ہوتا ہے نہ کہانی کا، بس وہ پروڈیوسر اور فلم ساز کی خواہش کے مطابق چند غمگین، چند خوشی اور زیادہ تر بے ہودہ اور لچر قسم کے گیتوں کی دھنیں بنا کر دے دیتے ہیں۔ شاعر کو انھی دھنوں پر بول لکھنے ہوتے ہیں، جب کہ نوشاد کے زمانے میں کہانی اور سین کی ڈیمانڈ کے مطابق گیت لکھے جاتے تھے، بعد میں دھنیں بنائی جاتی تھیں۔ فلم شاہ جہاں میں سہگل کے گیت بھی تھے اور اداکاری بھی۔ شمشاد بیگم کی آواز میں جو گیت ریکارڈ ہوا:

جب اس نے گیسو بکھرائے
بادل آیا رم جھم کے

اس گیت پہ جس رقاصہ نے ڈانس کیا ہے وہ ہے برصغیر کی نام ور رقاصہ میڈم آزوری (جن پر میں نے دو کالم بھی لکھے تھے)۔ اس فلم میں آہوچشم راگنی ممتاز محل بنی تھی، ’’شاہ جہاں‘‘ کی ہیروئن نسرین تھی جو سلمیٰ آغا کی ماں ہیں، ان کی یہ پہلی اور آخری فلم تھی۔ شاہ جہاں کے تمام گیت سپرہٹ تھے، خاص کر سہگل کا گایا ہوا یہ گیت:

جب دل ہی ٹوٹ گیا
ہم جی کے کیا کریںگے

اس گیت کے بارے میں سہگل نے وصیت کی تھی کہ ان کے انتقال کے بعد اسے ان کی ارتھی کے ساتھ بجایا جائے۔ سہگل کے انتقال کے بعد انھیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے نوشاد جالندھر گئے اور یہ گیت بجوایا۔ سہگل بہت نرم دل اور انسان دوست آدمی تھے۔ ایک دفعہ بمبئی کے ایک سرمایہ دار نے سہگل کو بیس ہزار معاوضے پر اپنے گھر گانے کے لیے مدعو کیا۔ سہگل نے وعدہ بھی کرلیا لیکن اسی دن اسٹوڈیو کے ایک غریب ورکر نے سہگل کو اپنی بیٹی کی شادی کا دعوت نامہ دیا۔ سہگل اس ورکر کی بیٹی کی شادی میں شریک ہوئے اور رات بھر مہمانوں کو گانا سناتے رہے۔ ایسے تھے کندن لال سہگل۔

سہگل جیسی آواز دوبارہ نہ پیدا ہو سکی، کسی حد تک سی ایچ آتما کی آواز میں مماثلت تھی لیکن جو درد، سوز اور اثر سہگل کی آواز میں تھا وہ کسی دوسرے کی نہیں۔ فلم ’’آگ‘‘ میں مکیش نے سہگل کی آواز کو کاپی کرنے کی کوشش تو کی مگر ایک ہی گیت پہ اکتفا کرکے اپنی اصل آواز پر لوٹ آئے اور بہت کامیاب بھی رہے۔ وہ ایک گیت تھا:

زندہ ہوں اس طرح کہ غم زندگی نہیں
جلتا ہوا دیا ہوں مگر روشنی نہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔