ہم اور ہمارا پڑوسی

عبدالقادر حسن  منگل 7 مارچ 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

پاک بھارت تعلقات کی کہانی ڈھکی چھپی نہیں بلکہ موجودہ میڈیا کے دور میں تو ہر کوئی اس کا عینی شاہد بھی ہے۔ اسے آپ ہندوانہ ذہنیت کہیں یا کچھ اور انھوں نے ہمیشہ مسلمانوں اور خاص طور پر پاکستان کے خلاف اس کے معرض وجود میں آنے کے وقت سے اس کو قبول تو نہیں کیا تھا بلکہ آج تک اس بات کو ثابت بھی کیا ہے کہ پاکستان کا وجود ان کے لیے ناقابل برداشت اور اس کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے ناپاک منصوبے ہر وقت بناتے رہتے ہیں ،چاہے وہ پاکستان میں اندرونی سازشوں کے ذریعے اس کو غیر مستحکم کرنا ہو یا اس کے ایک بازو کو الگ کرنے کا معاملہ ہو۔کشمیر میں آج تک جو آگ لگی ہوئی ہے اس کا ذمے دار بھی یہی ہے اور اس کا برملا اظہار بھی ان کی طرف ہوتا رہتا ہے، بھارت جو کہ پاکستان سے آبادی اور رقبہ میں کئی گنا بڑا ملک ہے لیکن اس نے ہمیشہ پاکستان کے وجود کو نہ جانے کس ڈر سے ناقابل برداشت سمجھا اور اس پر عمل کیا ہے۔

ہندو بنیا اپنے کاروباری معاملات میں کبھی پیچھے نہیں رہا، یہودیوں کی طرح اس نے ہمیشہ اپنے کاروباری مفاد کو ترجیح دی اور اس کے لیے اس نے ہر حربہ استعمال کیا، پاکستان کے راستے اپنا مال افغانستان بھجوانے کا معاملہ ہو یا پاکستان کی منڈیوں میں اپنی اجناس کی فروخت۔ بھارت نے ہمیشہ پاکستان کو طفیلی ملک بنانے کی کوشش کی اور اپنا اثرورسوخ اس خطے میں بڑھانے کے لیے ماضی میں روس کے ساتھ مل کر پاکستان میں عدم استحکام کی کوششیں کیں اور اب بھارت نواز امریکا یہ کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت ہمیشہ سے بھارتی وطیرہ رہا ہے اور اس کو پاکستان کی کامیابیاں کبھی ہضم نہیں ہوتیں۔ کبھی سرجیکل اسٹرائیک کا دعویٰ کرتا ہے اور کبھی بارڈر پر فائرنگ سے اشتعال دلانے کی کوششیں۔

سیکولر ایک خوش فریب لفظ ہے جس کا نعرہ بھارت مسلسل لگاتا ہے اور سیکولر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن اس کی وہ کھلم کھلا اپنے اقدامات کے ذریعے نفی بھی کرتا ہے۔ بھارت میں مذہبی آزادی اور رواداری تو درکنار ان کی اپنی ہندو قوم بھی مختلف فرقوں میں بٹی ہوئی ہے جو قوم اپنے ہندوؤں کی نہیں ہو سکتی آپ بطور مسلمان اس سے کیا توقع رکھ سکتے ہیں۔ ان کا مذہب تو ان کے اپنے سے نیچ ذات کے ہندوؤں کے چھونے سے ہی بھڑشت ہو جاتا ہے درکنار مسلمانوں کے ساتھ مل جل کر رہنا۔ اسلام دشمنی میں ہندوؤں نے اپنے ملک میں رہنے والے مسلمانوں کو بھی نہیں بخشا اور آئے روز فسادات کے ذریعے ان کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

ہماری خارجہ پالیسی اگر کوئی ہے تو اس میں بھارت کے ساتھ تعلقات بطور ایک پڑوسی ہونے کے خوشگوار تو ہو سکتے ہیں لیکن جو خطہ تقسیم ہی نظریات کی بنیاد پر ہوا ہو ظاہر ہے کہ اس صورت میں یہ ممکن نہیں۔ پاکستانی حکومتوں کی جانب دوستانہ تعلقات کا اظہار تو ہوتا رہا اور اب شد و مد کے ساتھ ہو رہا ہے اور تجارت کے لیے تو ہم ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ پسندیدہ ملک قرار دینے کا معاملہ ہو یا دوستی کے نام پر ووٹ لینے کا ہمارے حکمرانوں نے نہ جانے کیا وجہ ہے کہ بھارت کی خوشنودی کو اتنا اہم کیوں سمجھ رکھا ہے حالانکہ ہمارا ملک نہ تو دفاعی طور پر کمزور ہے اور نہ ہی ہماری قوم میں جذبے کی کمی ہے۔ بھارت نواز پاکستانیوں کی جانب سے کبھی سرحدی لکیروں کو مٹانے یا نہ ماننے کی باتیں بھی گونجتی رہیں لیکن الحمد للہ وقت کے ساتھ اپنی موت آپ مر گئیں، وجہ کہ یہ جغرافیائی تقسیم نہیں بلکہ ایک نظریاتی تقسیم تھی۔

پاکستان کے اندرونی حالات اور امن و امان کی فضا خراب کرنے میں مبینہ طور پر بھارت کا ہاتھ رہا ہے لیکن ہمارے حکمرانوں نے کبھی اس کا برملا اظہار کرنے کی کوشش نہیں کی اور نہ ہی کبھی اس کی مذمت کی۔بھارت کی جانب سے مسلسل دراندازی کے الزامات لگائے جاتے ہیں اور وہ عالمی طور پر اس کا اتنا پراپیگنڈہ کرتا ہے کہ عالمی طاقتوں کے پریشر پر ہم اپنے ہی لوگوں پر پابندیاں لگانے پر مجبور ہو جاتے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بین الاقوامی فورم پر پاکستان کا مقدمہ موثر طور پر پیش ہی نہیں کیا جاتا اور بھارت اپنی مظلومیت کا واویلہ مچا کر اس میں شدت پیدا کرتا رہتا ہے۔

شاطر اور چالاک پڑوسی جو کہ روز اول سے آپ کے وجود کو تسلیم کرنے سے ہی انکاری ہے لیکن پاکستان نے ہمیشہ برابری کی سطح پر رہ کر تعلقات استوار کیے اور اس کی بڑی وجہ ہمارا وہ دفاعی نظام ہے جس سے وہ ہر وقت خائف رہتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ اس بات کو مدنظر رکھے کہ پاکستانی عوام بھارت کے معاملے میں جاگ رہے ہیں اور ہمیں بھارتی فیملیوں کو اپنے ہاں بلا کر خصوصی مہمان نوازی کی ضرورت نہیں ہے۔ درست ہے کہ پڑوسی بدلے نہیں جا سکتے گزارہ کرنا پڑتا ہے لیکن گزارہ جو بھی ہو تو ہو مگر عزت ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔