تصورات اور حقیقت

ڈاکٹر وقار یوسف عظیمی  منگل 7 مارچ 2017

گزشتہ ہفتہ داخلی، خارجی،اقتصادی اور سماجی شعبوں میں پاکستان کے لیے کئی اہم اطمینان بخش تاریخی واقعات کا ہفتہ رہا۔بھارت کی جانب سے پاکستان کو سفارتی طور پر تنہا کردینے کی بھرپورکوششوں کے باوجود بدھ یکم مارچ کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں اقتصادی تعاون تنظیم ECOکا سربراہ اجلاس منعقد ہوا۔اس اجلاس میں ترکی، ایران، ترکمانستان، آذربائیجان کے صدور، قزاقستان،کرغیزستان، ازبکستان کے وزرائے اعظم اور نائب وزیر اعظم کے علاوہ ای سی او کے مبصر ملک شمالی قبرض کے صدر نے شرکت کی۔ افغانستان کی نمایندگی سفارتی سطح پر رہی۔ عوامی جمہوریہ چین بھی بطور ممبر کانفرنس میں شریک ہوا۔ ای سی او کے سربراہان مملکت اور سربراہان حکومت کی اسلام آبادآمد ان ممالک کے پاکستان کے حالات پر اعتمادکا اظہار اور مستقبل قریب میں پاکستان کی تیز رفتار اقتصادی ترقی کی توثیق ہے۔

اسی  ہفتے عالمی ادارہ صحت کی جانب سے اعلان کیا گیا ہے کہ ادارے کے وزرائے صحت کی آیندہ عالمی کانفرنس پاکستان میں ہوگی۔کہاں تو وہ دن تھے کہ عالمی اداروں کے نمایندے حکومت پاکستان سے مذاکرات کے لیے اسلام آباد آنے کو تیار نہ ہوتے تھے اور اکثر مذاکرات دبئی میں ہوتے۔ اب حالات اس حد تک سازگار ہورہے ہیں کہ عالمی ادارے اپنے اعلیٰ ترین اجلاس پاکستان میں منعقد کرنے کے اعلان کررہے ہیں۔

داخلی سطح پر ایک نہایت تاریخی پیش رفت ہوئی ہے۔ جمعرات 2مارچ کو وزیراعظم میاں نواز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وفاق کے زیر انتظام شمالی علاقوں FATA کو صوبہ خیبر پختون خوا میں ضم کرنے کا فیصلہ کیا  گیا ہے۔ یہ فیصلہ پاکستان کے شمال مغربی علاقے کے قبائلی عوام کی بہت بڑی خدمت ہے۔ فاٹا کے عوام انگریزکے جاری کردہ 1901کے فرنٹئیر کرائمز ریگولیشن (FCR)کی وجہ سے بنیادی حقوق سے محروم تھے۔

ایف سی آر کے تحت پولیٹکل ایجنٹ کسی ایک شخص کے جرم کی سزا اس کے پورے قبیلے کو دے سکتا ہے۔ کسی جرم پر ملزم کے خاندان، قبائلی شاخ یا پورے قبیلے کو اجتماعی جرمانے، منقولہ ، غیر منقولہ جائیداد ، فصل کی ضبطی ، گھر مسماری ، ناکہ بندی یا علاقہ بدری کے احکامات جاری کرسکتا ہے۔ پی اے قبائلی علاقوں کے کسی بھی فرد کو بغیر مقدمہ چلائے تین سال تک کے لیے جیل بھی بھیج سکتا ہے۔ ایف سی آرکے تحت پولیٹیکل ایجنٹ کو انتظامی، عدالتی اور مالیاتی اختیارات دیے گئے ۔

ان اختیارات کے استعمال پر پولیٹیکل ایجنٹ پاکستان کے کسی ادارے کو جواب دہ نہیں۔ قیام پاکستان سے اب تک یعنی ستر سال سے بنیادی حقوق سے محروم قبائلی عوام کو حقوق کی فراہمی اور انھیں قومی دھارے میں لانے کا اعزاز وزیر اعظم نواز شریف کی مسلم لیگ (ن) نے اپنے نام کیا ہے۔ قبل ازیں 2011 میں پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں صدر آصف علی زرداری نے قبائلی علاقوں میں نافذ العمل FCR میں بعض ترامیم کی تھیں۔ ان ترامیم سے فاٹا میں سیاسی اور انسانی حقوق کے حوالے سے کچھ بہتری آئی تاہم ایف سی آر کا بنیادی ڈھانچہ اور قانونی تصورات برقرار رہے۔

اب FCR کو ختم کرکے علاقے کو خیبر پختون خوا  میں ضم کرنے کے فیصلے سے قبائلی علاقے کی سات ایجنسیز  باجوڑ، مہمند، خیبر، اورکزئی، کرم، شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان کے رہنے والوں کو آئین  پاکستان کے تحت تمام حقوق مل جائیں گے۔ قبائلی عوام پر گزشتہ ستر برسوں سے جاری احساس محرومی کا خاتمہ ہوگا۔ اس علاقے میں تعلیم وترقی کا عمل صوبائی اوروفاقی حکومت کی جانب سے زیادہ تیز رفتاری سے شروع ہوگا۔ قبائلی عوام کو شدت پسندوں اور بیرونی مداخلت سے ہونے والی دہشت گردی سے بھی زیادہ تحفظ ملے گا۔

اب فاٹا کے عوام کو 1947ء کے بعد پہلی بار پاکستان کے آئین کے تحت بنیادی انسانی، قانونی اور سیاسی حقوق حاصل ہوجائیں گے۔ نواز حکومت کے اس اقدام کوفاٹا کے عوام ہمیشہ تحسین و ستائش کی نظروں سے دیکھیں گے۔ تاہم اس تاریخی فیصلے کے مثبت اثرات وثمرات سامنے آنے میں چند برس لگ جائیں گے۔ اس دوران اس فیصلے کے مخالف بعض عناصرکئی وجوہات کے تحت اس فیصلے کے ثمرات عوام تک پہنچنے میں مزاحم ہوسکتے ہیں۔

وفاقی وصوبائی حکومت، سیکیورٹی اداروں ، فاٹا کے سیاسی وسماجی کارکنان اور دیگر افراد کو اس تاریخی فیصلے کے زیادہ سے زیادہ ثمرات کو فاٹا کے عوام تک پہنچانے میں اپنا اپنا کردار ادا کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ فاٹا میں امن و امان کا قیام، اقتصادی ترقی، اسکول کالج، یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم کا فروغ اور دیگر سماجی شعبوں میں بہتری فاٹا کے عوام کا حق ہے۔ فاٹا میں غربت اور تعلیم کی کمی دور کرنے کے لیے سارے پاکستان کو تعاون کرنا چاہیے۔ فاٹاکی ترقی پورے پاکستان کی ترقی ہوگی۔

اس ہفتے کی تیسری اطمینان بخش خبر شمالی وزیرستان سے آئی ہے، جہاں اسپن وام کے علاقے میں جمعہ 3 مارچ کو وزیراعظم میاں نواز شریف نے کرم تنگی ڈیم کا سنگ بنیاد رکھا ہے۔ پاکستان میں آبی ذرایع سے ملکی ضروریات سے کہیں زیادہ بجلی کی پیداوار کے وسائل موجود ہیں۔ شمسی اور ہوائی ذرایع سے سستی بجلی کے حصول کے قدرتی ذرایع ان کے علاوہ ہیں۔ قدرت کی ان سب فیاضیوں کے باوجود پاکستانی قوم تیل کے ذریعے پیدا ہونے والی انتہائی مہنگی بجلی خریدنے پر مجبور ہے۔

اس مہنگی بجلی نے نا صرف پاکستان کی صنعتی پیداوارکی لاگت میں بہت زیادہ اضافہ کیا ہے بلکہ تجارتی وگھریلو صارفین کو بھی شدید دباؤ میں رکھا ہوا ہے۔  پاکستانیوں کو سلام کہ توانائی کے شدید ترین بحران اور امن وامان کی انتہائی خراب صورتحال میں بھی اس قوم نے زرعی، صنعتی و تجارتی سرگرمیوں کو جیسے بھی ہو جاری رکھا۔ اگر پاکستان میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوجائے۔ ملک میں قدرتی ذرایع سے صنعت کو سستی بجلی مل رہی ہو تو پاکستان کی ایکسپورٹ میں تیز رفتاری سے اضافہ ہوسکتا ہے۔ سستی بجلی کے حصول کے لیے دریاؤں پر ڈیم بنانے میں تاخیر کے ذمے دار صدر ایوب خان کے بعد آنے والے سب حکمران ہیں۔ دہائیوں سے قائم اس جمود کو اب توڑا جارہا ہے۔ یہ عمل سیاستدانوں کی باہمی محاذآرائی سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔

اس ہفتے کی ایک اطمینان بخش خبر لاہور میں اتوار 5مارچ کو پاکستان سپر لیگ کے فائنل کا انعقاد ہے۔ اس کامیابی پر پوری قوم اور وزیر اعظم نواز شریف، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف، آرمی چیف جنرل قمر باجوہ، پنجاب پولیس اور رینجرز کو دلی مبارک باد۔ اس ایونٹ نے امن سے محبت کرنے والے سب پاکستانیوں کے اعتماد میں اضافہ کیا ہے۔ 3مارچ 2009ء کو لاہور میں سری لنکا کی ٹیم پر دہشت گرد حملے کے بعد پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بند ہوگئی تھی۔ اسی دوران صرف زمبابوے کی ٹیم مئی 2015ء میں پاکستان آئی تھی۔

پاکستان کو سفارتی طور پرتنہا کردینے کے عزائم رکھنے والے ملک بھارت کی بھرپورکوشش رہی کہ غیر ملکی ٹیمیں پاکستان نہ آئیں۔ کہتے ہیں کہ تصورات حقیقت سے زیادہ قوی ہوتے ہیں (Preception are stronger than reality)۔ پاکستان کے دشمنوں نے بھرپور پروپیگنڈا کیا کہ پاکستان غیر ملکیوں کے لیے ایک خطرناک ملک ہے لیکن حقیقت دشمن کے پھیلائے ہوئے ان تصورات کے برخلاف تھی۔

پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اور امن وامان کی خراب صورتحال کے باوجود ملک کی معیشت سنبھلی رہی۔ کئی غیر ملکی  اداروں نے پاکستان میں اپنے کاروبار شروع کیے۔ کئی غیر ملکی جب پاکستان آئے تو انھوں نے واضح الفاظ میں بتایا کہ پاکستان کے حالات کے بارے میں انھوں نے کافی کچھ سن رکھا تھا لیکن پاکستان آکر انھیں کوئی خطرہ محسوس نہیں ہوا۔ ان غیر ملکیوں نے خود مشاہدہ کیا کہ پاکستان میں کام معمول کے مطابق چل رہے ہیں۔ زندگی پورے جوش اور جذبوں کے ساتھ رواں دواں ہے۔

چائنا پاکستان اقتصادی راہداری CPEC کی  شیڈیول کے مطابق تعمیر ، توانائی کے نئے منصوبوں کا آغاز، سڑکوں اور مواصلات کی ترقی، معیشت میں بہتری  اس امر کے واضح اشارے ہیں کہ پاکستانی قوم دہشت گردی کے خلاف جنگ  میں کامیابیاں حاصل کررہی ہے۔ایک روشن اور خوشحال مستقبل پُرعزم اور بہادر پاکستانی قوم کا منتظر ہے۔ اس منزل کی طرف جانے میں پاکستان کی مسلح افواج، پولیس، سیکیورٹی کے دیگر اداروں اور عوام کی قربانیوں اور ایثار نے سب سے زیادہ  اہم کردار اداکیا ہے۔ پاکستان کی خاطر جانوں کا نذرانہ دینے والے ہمارے سب شہدا کو سلام۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔