پیپلزپارٹی اور آصف زرداری

محمد سعید آرائیں  منگل 7 مارچ 2017

محترمہ بینظیر بھٹو کے بعد آصف علی زرداری پیپلز پارٹی کے چیئرمین قرار پائے تھے جنھوں نے بتایا تھا کہ محترمہ نے اپنی زندگی میں بلاول زرداری کو اپنا جانشین اور پیپلز پارٹی کا چیئرمین بنانے کی وصیت کی تھی جو کبھی کسی نے دیکھی نہ دکھائی گئی۔اس مبینہ وصیت سے محترمہ کی انتہائی قریبی ساتھی ناہید خان نے لا علمی ظاہرکی تھی اور آصف زرداری کی پیپلزپارٹی سے دوری اختیار کرلی تھی۔

بلاول زرداری اور اپنی دونوں بیٹیوں بختاور اورآصفہ زرداری کے نام کے ساتھ بھٹو لگاکر بھٹو زرداری کا نیا نام متعارف کرایا گیا تھا جس پر صرف ممتازعلی بھٹو نے اعتراض کیا تھا جو خود کو بھٹو قبیلے کا سردار قرار دے رہے تھے جب کہ بھٹو قبیلے کا دوسرا گروپ انھیں سردار نہیں مانتا اور سردار عامہ کو تسلیم کرتا ہے جو پیپلز پارٹی میں تو ہیں مگر مقبول نہیں ہیں۔ محترمہ غنویٰ تو مرتضیٰ بھٹو کی اہلیہ ہونے کے باعث غنویٰ بھٹو کہلانے کی حقدار تھیں جنھوں نے بھٹو خاندان سے تعلق ختم نہیں کیا اور اپنے شوہر کی بنائی ہوئی پیپلزپارٹی شہید بھٹوکی سربراہ ہیں اور ناہید خان نے اپنے شوہر صفدر عباسی کے ساتھ مل کر پیپلز ورکرز پارٹی بنالی تھی اور پیپلزپارٹی اس طرح تقسیم تو ہوگئی تھی مگر ملک بھر میں پیپلزپارٹی کو ہی مانا جاتا ہے جس کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور چیئرمین بلاول زرداری ہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کے بعد ان کے داماد آصف علی زرداری کی صدارت میں پیپلزپارٹی نے اپنے وفاقی اقتدار کی 5 سالہ مدت مکمل کی اور 2013 کے بعد بھی سندھ میں پی پی پی کی مسلسل حکومت ہے جس کا سہرا آصف زرداری کے سر ہے۔ پیپلزپارٹی پر آصف زرداری ہی کی مکمل گرفت ہے مگر چیئرمین بلاول زرداری ہیں جن کو ان کے والد نے بیرون ملک رہنے کے باعث چیئرمین کے کچھ اختیارات ضرور دیے تھے مگر وہ اب تک مکمل با اختیار چیئرمین نہیں ہیں جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ پی پی پی میں شامل ہونے والے آصف علی زرداری یا ان کی بہن فریال تالپور سے ملاقاتوں کے بعد ہی پیپلزپارٹی میں شمولیت کا اعلان کرتے ہیں اور پہلی بار آصف زرداری کی رٹ ان کی دونوں بیٹیوں کی طرف سے چیلنج ہوئی ہے۔

جنھوں نے عرفان اﷲ مروت کی پیپلزپارٹی میں شمولیت پر اعتراض کیا ہے اور اپنے والد کے فیصلے پر اپنے ایک ٹوئیٹ میں ناپسندیدگی کا اظہار کرکے قابل تقلید مثال قائم کی ہے جو کام ان کا بھائی نہ کرسکا وہ بہنوں نے کر دکھایا جو اس بات کا بھی ثبوت ہے کہ آصفہ اور بختاور کی ماضی پر بھی نظر ہے اور ماضی میں جن لوگوں نے پیپلزپارٹی کی سخت مخالفت کی تھی آج وہ اپنے سیاسی مفاد کے لیے پی پی میں شامل ہورہے ہیں تو اس بات پر آصف زرداری اور بلاول زرداری کو تو نہیں محترمہ کی صاحبزادیوں کو ضرور اعتراض ہوا ہے۔ پاکستان کی سیاست میں ایسے بہت کم سیاست دان ہیں جو اپنے اصولوں یا نظریات کے باعث ملک کی 70 سالہ تاریخ میں عشروں سے اپنی ہی جماعت سے وابستہ ہیں ایسے لوگوں کی تعریف کی جائے یا مذمت یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا مثبت جواب بمشکل ملے گا۔ ایسے لوگ خود کو اصول پرست قرار دیںگے تو یہ بھی دیکھا جائے گا کہ ان کی مالی حیثیت کیا تھی اور اب کیا ہے؟

موجودہ سیاست میں تو صرف مرحوم نوابزادہ نصر اﷲ خان ہی ایک سیاستدان نظر آتے ہیں جنھیں اپنی سیاست برقرار رکھنے کے لیے اپنی آبائی زمین فروخت کرنا پڑتی تھی اور مرحوم خان گڑھ میں اپنے آموں کے باغ میں واقع بوسیدہ سے گھر میں رہتے تھے جسے نواب صاحب کی حویلی بھی کہا جاتاتھا۔ نوابزادہ کی سیاست ہر قسم کے الزامات سے پاک تھی جس پر ان کا شدید مخالف بھی انگلی نہیں اٹھاتا تھا اور مرحوم نواب لاہور میں بھی گراؤنڈ فلور پر واقع جس گھر میں کرائے پر رہتے تھے آج کا ایک چھوٹا سیاستدان بھی ایسے گھر میں رہنا تو دور کی بات دیکھنا بھی پسند نہیں کرے گا۔ نوابزادہ کی پی ڈی پی پر تانگہ پارٹی کا طنزکیا جاتاتھا مگر مرحوم بلا شبہ ایک قومی رہنما تھے جن کی سربراہی میں حکومت مخالف متعدد سیاسی اتحاد قائم ہوئے اور تمام قومی رہنما ان کا احترام کرتے تھے۔

بے نظیر بھٹو کے دور میں وہ قومی اسمبلی کے رکن اور کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے مگر ان پر کسی قسم کاکوئی الزام نہیں لگا جب کہ آج تو مذہبی رہنما بھی الزامات سے محفوظ نہیں ہیں اور حیرت تو یہ ہے کہ جن پر الزامات ہیں وہ اپنے مخالفین پر کرپشن کے الزامات عائد کرتے ہیں مگر ثبوت نہیں دیتے اور ایسا کوئی بے وقوف نہیں ملے گا جس نے سیاست اور اقتدار میں رہ کر اپنی کسی کرپشن کا ثبوت چھوڑا ہو۔ ہماری اعلیٰ عدلیہ بھی تسلیم کرتی ہے کہ کروڑوں، اربوں کی کرپشن کرنیوالا تو پکڑا نہیں جاتا ہزاروں، لاکھوں کی کرپشن کے الزام میں لاوارث پکڑلیے جاتے ہیں۔

آصف علی زرداری واحد سیاست دان ہیں جو متنازع بھی رہے اور ان پر 1988 میں محترمہ کی حکومت بننے کے بعد سے الزامات کا جو سلسلہ شروع ہوا تھا وہ ان کے صدر مملکت بننے پر بھی نہیں رکا تھا اور اب بھی جاری ہے ۔ وہ مختلف الزامات کے تحت قید رہنے کا سب سے طویل ریکارڈ بھی رکھتے ہیں۔ محترمہ کی دونوں حکومتوں کی برطرفی میں بھی ان پر الزامات لگائے گئے تھے مگر عدالتوں میں کوئی ثابت نہ کیا جاسکا۔ آصف زرداری کی سندھ حکومت ساڑھے آٹھ سالوں سے کرپشن کے الزامات کی زد میں ہے۔ انھوں نے سندھ کا وزیر اعلیٰ اور متعدد وزیر بھی تبدیل کیے مگر کرپشن کے الزامات سندھ حکومت پر اب بھی لگ رہے ہیں ۔

ہائی کورٹ میں لاڑکانہ کی مبینہ کرپشن جو 90 ارب روپے کی ہے تحقیقات جاری ہے، پی پی حکومت پر متحدہ بھی کرپشن کے الزامات لگارہی ہے کہ کرپشن کے اربوں کھربوں روپے کراچی تو کیا سندھ میں بھی کہیں خرچ ہوتے نظر نہیں آئے۔ آصف زرداری نے ملک کو دو وزرائے اعظم دیے تھے اور وہ دونوں ہی عدالتوں میں مقدمات بھگت رہے ہیں۔ آصف زرداری کے معتمد خاص ڈاکٹر عاصم طویل عرصے سے گرفتار اربوں روپے کی مبینہ کرپشن میں حاضریوں پر ہیں مگر اب تک کوئی الزام ثابت نہیں ہوا ۔

پی پی حکومت کا ایک مذہبی وزیر جیل بھگت رہا ہے جو ان ہی کی حکومت میں گرفتار ہواتھا۔ پی پی حکومت نے پاکستان ریلوے تباہ کرادی مگر اے این پی کا نا اہل وزیر نہیں ہٹایا، اپنی طرف سے قاتل قرار دی گئی ق لیگ کو اقتدار میں شامل کیا گیا۔ متحدہ کو کھل کر کھیلنے کا موقع دیا گیا اور اب سندھ کے بڑے بڑے ناموں کو پیپلزپارٹی میں شامل کیا جا رہا ہے۔ ن لیگ پی ٹی آئی اور ف لیگ سندھ میں سمٹ گئی ہے جو اس بات کی تیاری ہے کہ سندھ میں پیپلزپارٹی پھر اقتدار میں آئے گی۔ پی پی کے اصول پرست خاموش ہیں کسی میں مخالفت کی جرأت نہیں مگر بیٹیوں کے اعتراض پر آصف زرداری ضرور سوچنے پر مجبور ہوںگے کہ وہ کیا کررہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔