پی ایس ایل فائنل؛ سمجھنے کی کچھ اہم باتیں!

میاں عمران احمد  منگل 7 مارچ 2017
ہمیں ہر حال میں امن اور سیکورٹی کو اولین ترجیح دینی ہوگی کیونکہ ہم ہر مرتبہ پیسوں کا لالچ دے کر بین الاقوامی کھلاڑیوں کو پاکستان نہیں بلا سکتے۔

ہمیں ہر حال میں امن اور سیکورٹی کو اولین ترجیح دینی ہوگی کیونکہ ہم ہر مرتبہ پیسوں کا لالچ دے کر بین الاقوامی کھلاڑیوں کو پاکستان نہیں بلا سکتے۔

لندن لاک ڈاؤن تھا۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ اتنی بڑی تعداد میں سیکیورٹی فورسز اور فوج لندن میں تعینات کی گئی تھی۔ 41 ہزار 700 افراد نے سیکورٹی کے فرائض سرانجام دیئے۔ اسپیشلسٹ ملٹری یونٹس، بم کو ناکارہ بنانے والے یونٹس اور سُراغ رساں کتوں کی بھی خدمات حاصل کی گئیں۔ شاہی بری، بحری اور فضائی افواج کو سیکیورٹی کا اسپیشل ٹاسک دیا گیا۔ لندن سترہ دنوں کے لئے فوجی کمپاؤنڈ میں تبدیل ہوگیا۔ تھیمس دریا پر ایک ائیر کرافٹ ہر وقت موجود رہتا تھا۔ کسی بھی میزائل حملے سے بچنے کے لئے شہر کے وسط میں اینٹی میزائل سسٹم نصب کیا گیا۔ سیکورٹی کے پیشِ نظر تمام اسٹیڈیمز کے اوپر ڈرونز کو استعمال کیا گیا جو کسی بھی حملے کی صورت میں جوابی کارروائی کرسکتے تھے اور اس تمام سکیورٹی پر 553 ملین پاؤنڈز لاگت آئی۔

آپ یقینًا سوچ رہے ہوں گے کہ یہ سب تیاریاں کسی جنگ کے پیشِ نظر کی گئی ہوں گی لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ تمام انتظامات 2012ء کے لندن اولمپکس کو کامیاب بنانے کے لئے کئے گئے تھے۔ آپ اِس بات پر بھی پریشان ہورہے ہوں گے کہ لندن جیسے محفوظ شہر میں صرف کھلاڑیوں کے تحفظ کے لئے اِس قدر سخت سیکورٹی کی کیا ضرورت تھی؟

اِس سوال کا جواب جاننے کے لئے آپ پاکستان کی مثال ہی لے لیجیئے۔ 2009ء میں لاہور کے لبرٹی چوک پر سری لنکن ٹیم پر دہشت گردوں نے حملہ کیا، اور 6 لوگوں کو شہید کردیا۔ اِس حملے نے پاکستان میں کھلاڑیوں کے لئے کئے گئے انتظامات کا پول کھول دیا اور اُس کے ساتھ ہی ملکِ پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کا جنازہ نکل گیا۔ ہم نے پوری دنیا کو اپنی بے گناہی کا یقین دلانے کے لئے دن رات پاپڑ بیلے۔ ہم نے بنگلہ دیش، زمبابوے اور افغانستان جیسی ٹیموں کے آگے ہاتھ جوڑے اور دنیا نے ہماری ناک سے لکیریں کھنچوالیں، لیکن ہمیں اِس نااہلی کی معافی نہیں مل سکی۔ ہم کھلاڑیوں کو لاکھوں روپے دینے کے لئے تیار ہیں لیکن وہ پاکستان کا نام تک سُننا نہیں چاہتے اور آج آٹھ سال بعد بھی ہم اس بدانتظامی کی سزا بھگت رہے ہیں۔

برطانیہ نے پاکستان کے ساتھ ہونے والے سلوک سے سبق سیکھ لیا تھا، اُس نے ہر قیمت پر اولمپکس 2012ء کو کھیل اور کھلاڑیوں کیلئے محفوظ بنانے کا فیصلہ کیا اور ریاست کی تمام مشینری اور اربوں روپے کا بجٹ اسی سیکورٹی میں خرچ کردیا۔ برطانوی حکومت نے شدید سیکورٹی خدشات ہونے کے باوجود اولمپکس 2012ء کو برطانیہ میں منعقد کرنے کا فیصلہ کیا، اور اِسے کامیاب بنانے کیلئے سر دھڑ کی بازی بھی لگا دی۔

پاکستان نے پی ایس ایل فائنل لاہور میں کروانے کا فیصلہ کیا تو برطانیہ میں منعقد ہونے والی اولمپکس 2012ء کے انتظامات کو رائل ماڈل کے طور پر استعمال کیا گیا۔مخالفین کی جانب سے فوج اور رینجرز کے حصار میں فائنل کروانے کو احمقانہ فیصلہ قرار دیا گیا، لیکن حکومت ماضی سے سبق سیکھ چکی تھی۔ وہ اِس بات پر قائل تھی کہ اگر برطانیہ میچ کروانے کے لئے فوج کی مدد لے سکتی ہے تو پاکستان کیوں نہیں لے سکتا۔ چناچہ سیکورٹی پلان کو 5 حفاظتی حصاروں میں تقسیم کیا گیا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ صوبائی دارالحکومت میں کرکٹ میچ کیلئے ہائی الرٹ سیکورٹی پلان تشکیل دے دیا گیا۔

حکومت نے پاکستان آرمی، رینجرز اور پنجاب پولیس کو قذافی اسٹیڈیم کے اندر اور اطراف کا کنٹرول دے دیا۔ اِس کے علاوہ پنجاب کانسٹیبلری فورس، ڈولفن فورس، پولیس رسپانس فورس، ایلیٹ فورس اور دیگر سیکورٹی ایجنسیز کو اسٹیڈیم کے اندر، اطراف اور ملحقہ سڑکوں پر تعینات کیا گیا۔ بم ڈسپوزل اسکواڈ اور سراغ رساں کتوں سے مدد لی گئی۔ اسٹیڈیم سے ملحقہ تمام عمارتوں، ہوٹلوں اور گھروں کو رجسٹرڈ کیا گیا اور سیکورٹی چیکنگ کے بغیر ہر کسی کا داخلہ بند کردیا گیا۔ کھلاڑیوں کیلئے بلٹ پروف بسوں کا انتظام کیا گیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آرمی چیف نے پنجاب حکومت کو 100 فیصد فول پروف سیکورٹی کی یقین دہانی بھی کروا دی۔

تمام کوششیں رنگ لائیں اور پی ایس ایل کا فائنل 5 مارچ 2017ء کو کامیابی کے ساتھ لاہور میں منعقد ہوا، اور خوشگوار ماحول میں اختتام پذیر ہوگیا، لیکن یہ میچ مکمل ہوتے ہی ہمارے لئے 3 سبق بھی چھوڑ گیا ہے۔

  • پہلا سبق یہ کہ جب تک ہم اس ملک میں امن اور سیکورٹی کو اولین ترجیح نہیں دیں گے، ہم انٹرنیشنل کرکٹ کو پاکستان میں بحال نہیں کرسکتے۔ ہم ہر مرتبہ پیسوں کا لالچ دے کر بین الاقوامی کھلاڑیوں کو پاکستان نہیں بلا سکتے۔ ہمیں سیکورٹی کے ایسے معیار اور مثالیں قائم کرنی ہوں گی جنہیں دیکھ کر پوری دنیا پاکستان آکر کرکٹ کھیلنے کی خواہش کرے۔
  • دوسرا یہ کہ اگر ہماری فوج، حکومت اور عوام کسی کام کو انجام دینے کا فیصلہ کرلیں تو دنیا کی کوئی بھی طاقت ہمارے خوابوں کو مکمل کرنے سے نہیں روک سکتی۔
  • تیسرا اور آخری سبق یہ ہے کہ ہم اپنے کاروباری طبقے کو نظر انداز کرکے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال نہیں کر سکتے۔ آج پاکستان میں پی ایس ایل کا فائنل جاوید آفریدی، سلمان اقبال، علی نقوی، فواد رانا اور ندیم عمر جیسے محب وطن کاروباری لوگوں کی بدولت ہی ممکن ہوا ہے۔ اگر یہ رسک نہ لیتے تو پاکستان آج بھی تنہا اور کرکٹ کی دنیا میں یتیموں کی زندگی گزار رہا ہوتا۔ ہمیں پاکستان سیکورٹی فورسز کے ساتھ ساتھ ڈیرن سیمی کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیئے جس نے پاکستانیوں سے زیادہ پاکستان کو سپورٹ کیا ہے۔

ہمیں آج یہ بھی اقرار کرنا ہوگا کہ ہم بحیثیت قوم کسی بھی قابل شخص کو اُس کے کام کا صیح کریڈٹ دینے میں کنجوس ہوچکے ہیں، اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاک فوج کی سپورٹ کے بغیر پی ایس ایل کا فائنل پاکستان میں کروانا ناممکن تھا اور ہمیں پاک فوج کو اُن کی انتھک محنت اور لازوال قربانیوں پر سیلیوٹ بھی پیش کرنا چاہیئے، لیکن اِس کے ساتھ ساتھ ہمیں حکومتِ وقت اور نجم سیٹھی کا بھی شکریہ ادا کرنا چاہیئے، کیونکہ اُنہوں نے اپنی مستقل مزاجی اور دن رات کی انتھک محنت پی ایس ایل کو ایک کامیاب ایونٹ بنادیا ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
میاں عمران احمد

میاں عمران احمد

بلاگر نے آکسفورڈ بروکس یونیورسٹی لندن سے گریجویشن کر رکھا ہے۔ پیشے کے اعتبار سے کالمنسٹ ہیں، جبکہ ورلڈ کالمنسٹ کلب اور پاکستان فیڈریشن آف کالمنسٹ کے ممبر بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔