کوریئر سروسز کی جگا گیری

عثمان حیدر  جمعرات 9 مارچ 2017
جب یہ کوریئر سروسز اخراجات وصول ہی اِس زمرے میں کرتی ہیں کہ دیئے گئے ایڈریس تک بر وقت ترسیل کو یقینی بنایا جائے گا، تو پھر اُمیدواروں اور طلبہ کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر اُن کا استحصال کس لئے کیا جارہا ہے؟

جب یہ کوریئر سروسز اخراجات وصول ہی اِس زمرے میں کرتی ہیں کہ دیئے گئے ایڈریس تک بر وقت ترسیل کو یقینی بنایا جائے گا، تو پھر اُمیدواروں اور طلبہ کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر اُن کا استحصال کس لئے کیا جارہا ہے؟

پاکستان کی بھی کیا خوب قسمت لکھی گئی ہے، 70 سال سے ادارے مضبوط کرنے کے اعلانات ہی ہو رہے ہیں۔ ایوانِ اقتدار کا ہر نیا مکین اپنی آمد پر ادارے مضبوط کرنے کا عزم کرتا ہے لیکن جب یہ مکین شہرِ اقتدار سے نکلتا ہے تو وہی ادارے وراثت میں چھوڑ جاتا ہے۔ پھر نئی حکومت آتی ہے، ادارے مضبوط کرنے کا عزم دُہراتی ہے اور اُسی ’’عزم‘‘ کے ساتھ رخصت ہوجاتی ہے۔ ہاں گزشتہ چند سالوں میں عوامی شعور میں ہونے والی بہتری اور میڈیا کے واویلے نے حکومتوں کو مجبور کیا ہے کہ اگر وہ خود کارکردگی نہیں دکھا سکتیں تو عوامی سہولت کی خاطر نجی شعبے کی ہی مدد حاصل کرلیں۔

جس کے بعد جنرل مشرف کے دورِ آمریت میں مختلف اداروں کی نجکاری یا اُن کے متوازی نظام کی حوصلہ افزائی کرکے نظام میں بہتری لانے کی اُمیدیں قائم کی گئیں۔ اِس پالیسی سے عوام پر معاشی اخراجات کا دباؤ تو ضرور بڑھا لیکن سہولیات کی فراہمی کی رفتار بھی بہتر ہوگئی۔

مواصلات، بینکنگ سیکٹر اور ڈاک کے نظام سمیت چند دیگر شعبوں میں نجی سرمایہ کاری کی شمولیت میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ پی ٹی سی ایل کی نجکاری، نجی موبائل کمپنیوں کی آمد اور پرائیویٹ کوریئر سروسز کے آغاز جیسی تبدیلیوں کو تحسین آمیز نظروں سے دیکھا گیا اور سراہا بھی گیا۔ توقع کی گئی کہ نجی شعبے کی شمولیت سے اخراجات میں اضافے کے باوجود عوامی سہولیات کی راہیں ہموار ہوں گی اور مفلوک الحال اداروں کا متبادل میسر آسکے گا۔ کچھ عرصہ تک تو یہ توقعات پوری بھی ہوتی رہیں لیکن پھر وہی ہوا جیسا یہاں ہوتا آیا ہے۔

ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ سرکاری ادارے نجی شعبے کی کارکردگی سے متاثر ہوکر اپنے نظام کو بہتر کرنے کی کوشش کرتے لیکن یہاں تو اُلٹا نجی شعبے نے سرکاری اداروں کی روش اپنالی۔ جوں جوں نجی شعبے کی جڑیں مضبوط ہوئیں ویسے ہی اُس کے لچھن بھی کھل کر سامنے آنا شروع ہوگئے۔ وہی استحصالی رویہ، ہٹ دھرمی، عوام کے ساتھ کرخت برتاؤ اور اجارہ داری جو سرکاری اداروں کا خاصہ ہے۔ یوں تو کئی مثالیں موجود ہیں لیکن آج جس نجی شعبے کے کردار کو سامنے لانا مقصود ہے وہ ہے پرائیویٹ کوریئر سروسز کا شعبہ۔

نجی کوریئر سروسز کا اجراء محکمہِ ڈاک کی ابتر صورتحال کے متبادل کے طور پر کیا گیا تھا۔ اِن کوریئر سروسز نے عجیب و غریب پالیسیاں اختیار کرلی ہیں۔ بھاری بھرکم فیسوں کے باوجود اِن کی کارکردگی میں کوئی خاص بہتری نظر نہیں آئی۔ اِن سروسز نے ایک طرف تو خط و کتابت کی فیس میں بتدریج اور بے تحاشہ اضافہ کردیا ہے، وہیں دوسری طرف دستاویزات کی بر وقت ترسیل بھی اب ویسی نہیں رہی جیسی کہ پہلے پہل ہوا کرتی تھی۔ چارجز آسمان کو چھو رہے ہیں اور خدمات زمین کو۔

حالت تو یہ ہے کہ اگر آپ نے کسی محکمہ میں ملازمت یا تعلیمی ادارے میں داخلے کیلئے اپلائی کیا ہوا ہے تو ٹیسٹ گزر جائے گا اور آپ کی رول نمبر سلپ بعد میں پہنچے گی۔ کئی مرتبہ تو رزلٹ بھی پہلے آجاتا ہے اور رول نمبر سلپ بعد میں موصول ہوتی ہے۔

آج کل آپ جس ادارے میں بھی اپلائی کریں وہاں کئی سو روپے پراسسنگ فیس کی مد میں ادا کرنا پڑتے ہیں، جس میں خط و کتابت کے اخراجات بھی شامل ہوتے ہیں۔ لیکن لگتا یوں ہے کہ یا تو وہ ادارے اِن کوریئر سروسز سے مفت کام کرواتے ہیں یا پھر یہ کوریئر سروسز اخراجات وصول کرنے کے باوجود اپنا کام ایمانداری سے سر انجام نہیں دیتی۔ ثانی الذکر بات کے امکانات زیادہ روشن ہیں۔

گزشتہ چند مہینوں سے تو یہ کوریئر سروسز گویا جگا گیری پر اتر آئی ہیں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ محکمہ تعلیم، پبلک سروس کمیشن اور دیگر کئی سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں گزشتہ چند ماہ سے ہزاروں اسامیوں پر بھرتی کا عمل چل رہا ہے۔ یہ ادارے درخواست وصول ہونے کے بعد امیدوار کو رول نمبر سلپ اور رزلٹ کارڈز وغیرہ انہی کوریئر سروسز کے ذریعہ ہی بھیجتے ہیں۔ جس کے بعد اِن کوریئر سروسز کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ معاہدے کے مطابق ہر اُمیدوار کی متعلقہ دستاویزات دیئے گئے پتہ تک بروقت پہنچائیں، لیکن اپنی ذمہ داری نبھانے کے بجائے اِن کوریئر سروسز کے مرکزی دفاتر سے اُمیدواروں کو فون کال کرکے کہا جاتا ہے کہ آپ کی فلاں دستاویزات آئی ہوئی ہے لہٰذا آپ خود کمپنی کے دفتر آکر اُسے وصول کرجائیں۔ اب جو اُمیدوار دفتر کے قریب رہائش پذیر ہوتے ہیں وہ تو آکر وصول کر جاتے ہیں لیکن مضافاتی علاقوں کے طلبہ کو کئی میل کا سفر کرکے اِن کمپنیوں کے دفاتر تک آنا پڑتا ہے۔

مرد تو پھر بھی کسی نہ کسی طرح اپنا کوریئر وصول کرنے کے لئے شہر میں واقع کوریئر سروسز کے دفاتر تک پہنچ ہی جاتے ہیں لیکن بے چاری خواتین کیلئے تو یہ ایک انتہائی کٹھن مرحلہ بن جاتا ہے۔ دور دراز کے دیہات میں رہ کر تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کیلئے تو بعض اوقات مقررہ وقت تک اپنی رول نمبر سلپ حاصل کرنا تقریباََ ناممکن ہی ہوجاتا ہے۔

یہ سراسر استحصالی رویہ ہے۔ جب یہ کوریئر سروسز اخراجات وصول ہی اِس زمرے میں کرتی ہیں کہ دیئے گئے ایڈریس تک بر وقت ترسیل کو یقینی بنایا جائے گا، تو پھر اُمیدواروں اور طلبہ کی مجبوری سے ناجائز فائدہ اُٹھا کر اُن کا استحصال کس لئے کیا جارہا ہے؟ صرف اِس لئے کہ کوریئرز کی متعلقہ پتہ تک ترسیل پر اِن کمپنیوں کے جو اخراجات آتے ہیں انہیں بچایا جاسکے، اور اِس طرح یہ کمپنیاں عملے کی تنخواہوں، فیول اور دیگر اخراجات کی مد میں غیر قانونی بچت کرکے سالانہ کروڑوں روپے کی بالواسطہ کرپشن کا ارتکاب کررہی ہیں۔

لہذاٰ ایسی تمام کورئیر سروسز سے گزارش ہے کہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں سے راہِ فرار اختیار کرنے کے بجائے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ جب آپ پیسے پورے وصول کرتے ہیں تو کام بھی پوری ایمانداری سے مکمل کیجئے۔ اِس کے علاوہ وفاقی و صوبائی حکوتوں کے متعلقہ حکام اگر یہ بات سُن یا پڑھ رہے ہیں تو اُن سے بھی گزارش ہے کہ آپ بھی اپنی ذمہ داری کا ادراک کرتے ہوئے اِس مسئلے کا نوٹس لیں اور کوریئر سروسز کی اس جگا گیری کی روک تھام کیلئے ضروری اقدامات کجیئے۔

کیا آپ کو بھی کبھی کورئیر سورسز کی جانب سے اِس قسم کی شکایات کا سامنا رہا ہے؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
عثمان حیدر

عثمان حیدر

بلاگر کا تعلق لیہ سے ہے۔ یو ای ٹی ٹیکسلا سے انجینئرنگ گریجویٹ ہیں اور آج کل واسا لاہور میں بطور اسسٹنٹ ڈائریکٹر تعینات ہیں۔ گزشتہ چھ برس سے مختلف موضوعات پر کالم اور بلاگز لکھ رہے ہیں۔ فیس بک آئی ڈی usman.haider.7503 ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔