کھلاڑی کا کھیل سے کھلواڑ

حافظ خرم رشید  منگل 7 مارچ 2017
خان صاحب جن مہمانوں کی آپ نے بے عزتی کرنے کی کوشش کی اُس سے اُن کو تو کوئی نقصان نہیں ہوا  وہ تو پوری قوم کے ہیرو بن چکے ہیں، لیکن آپ کے ساتھ پورے پاکستان میں کیا ہورہا ہے؟

خان صاحب جن مہمانوں کی آپ نے بے عزتی کرنے کی کوشش کی اُس سے اُن کو تو کوئی نقصان نہیں ہوا وہ تو پوری قوم کے ہیرو بن چکے ہیں، لیکن آپ کے ساتھ پورے پاکستان میں کیا ہورہا ہے؟

تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کی وجہِ شہرت پاکستان کی موجودہ سیاست میں پریس کانفرنس، دھرنے، مخالفین پر تنقید حکومتی غلط فیصلوں کی نشاندہی اور خصوصاً پانامہ کیس بن چکی ہے۔ یہ الگ موضوع ہے کہ اب تک اُن کے دھرنوں کی وجہ سے اُن کا کوئی بھی مطالبہ پورا نہیں ہوسکا اور پاناما لیکس کا فیصلہ بھی تاحال تاخیر کا شکار ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ عمران خان نے کرکٹ کی دنیا میں منفرد مقام حاصل کیا وہ نا صرف بہترین آل راؤنڈر رہے بلکہ پاکستان کے لئے واحد ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کی قیادت کرنے والے کامیاب ترین کپتان بھی تھے۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کرکٹ عمران خان کے خون میں شامل ہے اور سیاست میں آنے کے بعد آج تک وہ اپنے بیانات میں کرکٹ کی ہی زبان استعمال کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ کبھی کسی مخالف کو میچ کھیلنے کی دعوت دیتے ہیں تو کبھی کسی کی وکٹیں گرانے کی بات کرتے ہیں۔ کبھی ایمپائر کی اُنگلی اٹھنے کا انتظار کرتے ہیں تو کبھی انتخابی دھاندلی کو میچ فِکسنگ سے تشبہہ دیتے ہیں۔ پاکستان سُپر لیگ کے کامیاب انعقاد پر جہاں پوری قوم خدا کی شکر گزار اور پرمسرت ہے وہیں تحریکِ انصاف کے چئیرمین عمران خان اپنے بیانات کے باعث میڈیا کی خبروں کی زینت بنے ہوئے ہیں۔

پاکستان سپر لیگ سیزن 2 کے دوران جب پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات شروع ہوئے تو یہ خدشات پیدا ہوگئے تھے کہ شاید اِس لیگ کا فائنل لاہور میں نہ ہوسکے۔ انہی حالات میں عمران خان کا بیان منظر عام پر آیا کہ

فائنل لاہور میں ہی ہونا چاہیے، یہ ریاست کی عزت کا سوال ہے۔

لیکن جب پوری ریاست نے ملکر یہ فیصلہ کیا کہ چاہے کچھ  بھی ہوجائے، فائنل لاہورمیں ہی ہوگا تو خان صاحب نے

 اِس فیصلے کو پاگل پن قرار دے دیا۔

اب پرستارحیران و پریشان ہو گئے کہ خان صاحب کی کونسی بات مانی جائے اور کس کو پاگل پن سمجھ کر رد کردیا جائے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اِس اہم ترین موقع پر عمران خان خود میدان پہنچ میں کرغیرملکی کھلاڑیوں کو خوش آمدید کہتے لیکن یہاں تو گنگا نے اُلٹا بہنا شروع کردیا۔ جو کھلاڑی تمام تر خطرات کو بالائے طاق رکھ کر ملک میں کرکٹ اور خوشیوں کی بحالی کے لیے پاکستان تشریف لائے،

انہیں خان صاحب نے ’’پھٹیچر‘‘ اور ’ریلو کٹے‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ تو وہ کھلاڑی ہیں جن کو پیسے دیے جائیں تو یہ  ڈومیسٹک کرکٹ کھیلنے بھی  آجائیں گے۔

اب یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ عمران خان کو وفاق اور پنجاب حکومت سے دشمنی ہے یا اُن کی پالیسیوں سے؟ عمران خان کو یہ سوچنا چاہیئے کہ وہ سیاسی لیڈر سے پہلے ایک کرکٹر ہیں اور اُن کی پہچان، وجہِ شہرت اور عوام میں پذیرائی کی سب سے بڑی وجہ بھی کرکٹ ہی ہے۔

انہیں سوچنا چاہیئے تھا کہ غیر ملکی کھلاڑی اُن کے اِس بیان کو سیاسی بیان نہیں سمجھیں گے بلکہ تمام کرکٹرز اُن کے اِس بیان کو بطور تجزیہ کار، تجربہ کار کھلاڑی، اور پاکستان کے معروف و کامیاب کپتان  کے بیان کے طور پر دیکھیں گے۔ اُنہیں سوچنا چاہیئے تھا کہ وہ جس صوبے پر حکمرانی کررہے ہیں اُس کی وجہ شہرت ہی مہمان نوازی ہے اور مہمانوں کو اِس طرح کے القابات سے پکارنا کسی بھی مہذب قوم کی شناخت نہیں۔

عمران خان کو سوچنا چاہیئے تھا کہ وہ جن غیر ملکی کھلاڑیوں کو پھٹیچر کہہ رہے ہیں، اُن میں سر ویون رچرڈز بھی شامل ہیں، جی ہاں یہ وہی ویون رچرڈز ہیں جنہوں نے پاکستانی قوم اور کرکٹ شائقین کو جذبے سے بھرپور پیغام دیتے ہوئے کہا تھا کہ

اُن کے لئے یہ ایک بڑا موقع ہے کہ وہ کرکٹ کی دلدادہ پاکستانی قوم سے مخاطب ہوکر یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان سپر لیگ کا فائنل لاہور میں کھیلا جارہا ہے۔ یہاں سیکورٹی کا مسئلہ نہیں بلکہ پاکستان سے بہت اچھی اور خوبصورت یادیں وابستہ ہیں۔ جی ہاں یہ وہی ویون رچرڈز ہیں جنہیں کرکٹ کے بے تاج بادشاہ اور کرکٹ حلقوں میں ان کے نام سے پہلے سر لگا کر پکارا جاتا ہے۔

پاکستان آنے والوں میں ڈیرن سیمی بھی شامل تھے، جی ہاں وہی ڈیرن سیمی جنہوں نے اپنی ٹیم ویسٹ انڈیز کو دو مرتبہ 2012ء اور 2016ء میں ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں عالمی چیمپئن بنایا۔ جی ہاں یہ وہی سیمی ہیں جو پاکستان سپر لیگ کی فاتح ٹیم کے کپتان تھے۔

پاکستان آنے والوں میں مارلن سیمولز بھی تھے، جنہوں نے اپنی ٹیم ویسٹ انڈیز کے لیے ایک دو نہیں بلکہ 71 ٹیسٹ میچز کھیلے ہیں۔

یہ وہی سارے کھلاڑی ہیں جنہوں نے پاکستان میں جاری حالیہ دہشت گردی کی لہر کی پرواہ نہ کرتے ہوئے لاہور آنے کا فیصلہ کیا اور دہشت گردی کو مات دے دی، یقیناً سیکیورٹی خدشات کے باوجود بھی ان غیرملکی کھلاڑیوں کا پاکستان آنا قابل تحسین ہے لیکن افسوس اُس وقت ہوا جب آپ نے مہمانوں کی جرات و بہادری کو سراہنے کے بجائے اُنہیں ’’پھٹیچر‘‘ قرار دے دیا۔

لیکن میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہ ہمارا شیوہ نہیں کہ ہم گھر آئے مہمانوں کی اِس طرح بے عزتی کریں۔ آپ دیکھیے کہ جن مہمانوں کی آپ نے گزشتہ روز بے عزتی کرنے کی کوشش کی اُس سے اُن کو تو کوئی نقصان نہیں ہوا  وہ تو پوری قوم کے ہیرو بن چکے ہیں، لیکن آپ کے ساتھ پورے پاکستان میں کیا ہورہا ہے؟  آپ کے اِس بیان کی وجہ سے پوری قوم آپ کو ’’پھٹیچر‘‘ کہنے پر مجبور ہوگئی ہے۔ میں ذاتی طور پر اِس روئیے کا حمایتی نہیں ہوں، لیکن چونکہ کھیل آپ نے شروع کیا تھا، اِس لیے اب کھیل کو ختم بھی آپ کو ہی کرنا ہوگا۔ اِس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے، فوری طور پر پوری قوم اور اُن مہمانوں سے معافی مانگیں جنہیں آپ نے بےعزت کیا ہے، کیونکہ ہم مہمانوں کو دل میں رکھنے والی قوم ہیں، اُنہیں ذلیل کرنے والے نہیں۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ عمران خان کرکٹ کے حلقوں میں ایک کامیاب اور مشہور کرکٹر کی حیثیت سے جانے اور پہچانے جاتے ہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ اپنے حریفوں کی نظر میں ایک ناکام سیاست دان ہیں اور اب یہ بھی خدشہ ہے کہ اُن کا یہ بیان انہیں کرکٹ کے حلقوں میں بھی ناکام اور متنازعہ شخصیت بنانے کا باعث بنے گا۔

عمران خان سے متعلق بیان کیے گئے خیالات سے کیا آپ اتفاق کرتے ہیں؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔
حافظ خرم رشید

حافظ خرم رشید

بلاگر جامعہ کراچی سے بین الاقوامی تعلقات اور وفاقی اردو یونیورسٹی سے ابلاغ عامہ میں ماسٹرز کرچکے ہیں۔ ایک نجی چینل پر ریسرچر اور اسکرپٹ رائٹر رہے ہیں۔ اس وقت ایکسپریس نیوز میں بحیثیت سینئر سب ایڈیٹر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔