توانائی کے بحران پر قابو پانا ناگزیر ہے

ایکسپریس اردو  پير 30 جولائی 2012
 ہمارے بہت سے صنعتکار اپنے اثاثے دیگر ممالک میں منتقل کر رہے ہیں ۔ فوٹو فائل

ہمارے بہت سے صنعتکار اپنے اثاثے دیگر ممالک میں منتقل کر رہے ہیں ۔ فوٹو فائل

پاکستان میں بجلی کی لوڈشیڈنگ مسلسل جاری ہے۔اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا کی اطلاعات سے تو یہی لگتا ہے کہ پنجاب کے شہر زیادہ متاثر ہورہے ہیں تاہم خیبر پختونخوا میں مینگورہ اور پشاور میں بھی لوڈشیڈنگ جاری ہے اور مظاہرے بھی۔ادھر حکمران صرف وعدے کرکے خود کو بری الزمہ سمجھتے ہیں۔ اس بار ماہ صیام میں سحر و افطار کے موقع پر لوڈشیڈنگ سے گریز کا جو دعویٰ کیا گیا تھا، وہ بھی پورا نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب کے کئی شہروں میں سحر و افطار کے وقت بھی بجلی کی بندش پر لوگ مشتعل ہو کر گھروں سے نکل آئے اور پُر تشدد مظاہرے شروع کردیے۔

شدید گرمی اور جان لیوا حبس کے موسم میں عوام کا آپے سے باہر ہونا حیرانی کی بات نہیں ہے۔بہرحال پاکستان میں لوڈ شیڈنگ اور توانائی کی کمیابی کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ خاصے عرصے سے جاری ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس حوالے سے کوئی قابل عمل پالیسی تشکیل دی جاتی لیکن یہ کہنے کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ اس حوالے سے کوئی ایسا کام نہیں کیا گیا جس سے یہ لگتا ہو کہ آیندہ ایک دو برس میں توانائی کا بحران ختم نہیں تو خاصی حد تک کم ضرور ہوجائے گا۔ اتوار کے اخبارات میں شایع ہونے والی خبروں کے مطابق صرف پنجاب میں بجلی کا شارٹ فال خاصا بڑھ گیا ہے جب کہ شہری علاقوں میں غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ 12 سے 14 گھنٹے تک جاپہنچا ہے۔

ایسی خبریں بھی شایع ہورہی ہیں کہ بعض علاقوں میں ہر دو گھنٹے کے بعد صرف آدھا گھنٹے کے لیے بجلی آتی ہے۔ اس صورت حال سے روزہ داروں کو بطور خاص شدید مشکلات کا سامنا ہے۔شدید گرمی اور حبس میں روزہ دار کے لیے جسمانی مشقت کرنا انتہائی مشکل کام ہے۔ ادھر اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ توانائی کی طلب اور پیداوار میں تفاوت بڑھ گیا ہے۔صاحب ثروت طبقات کی رہائش گاہوں اور دفاتر میں مسلسل اے سی چلتے ہیں، یوں بجلی کی طلب میں اضافہ ہونا ناگزیر ہے، اگر متمول طبقات بجلی کے استعمال میں کفایت کریں تو بھی صورتحال میں زیادہ نہیں تو تھوڑی بہت تبدیلی ضرور آسکتی ہے۔

تاہم اگر مون سون کی بارشیں کھل کر شروع ہو گئیں اور آبی ذخائر بھر گئے تو چند روز تک سسٹم میں بہتری آنے کی توقع رکھی جا سکتی ہے۔ جولائی کے اختتام تک بارشیں اس طرح کُھل کر نہیں ہوئیں جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ ادھر یہ حقیقت ہے کہ توانائی کے بحران کا اثر صرف شہریوں پر ہی مرتب نہیں ہو رہا بلکہ اس کا اصل ہدف ملک کی صنعت بن رہی ہے۔ بہت سی چھوٹی اور درمیانے درجہ کی صنعتیں تو بند ہی ہو چکی ہیں اور ن کی بندش سے کس قدر بیروز گاری پھیلی ہے، وہ ایک الگ موضوع ہے۔

یہ خبریں بھی اب کوئی راز نہیں رہیں کہ ہمارے بہت سے صنعتکار اپنے اثاثے دیگر ممالک میں منتقل کر رہے ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ بنگلہ دیش جسے مغربی پاکستان کی اس وقت کی اشرافیہ نے اپنی معیشت پر بوجھ سمجھ کر علیحدگی پر مجبور کر دیا تھا اب پاکستانی صنعتکاروں کا خاصا سرمایہ اسی کی طرف منتقل ہو رہا ہے کیونکہ اول تو وہاںتوانائی وافر ہے اور دوسرا افرادی قوت بھی ہمارے مقابلے میں سستی ہے۔ جب کہ ان کی حکومت کی پالیسیاں بھی اس انداز سے تشکیل دی گئی ہیں کہ وہ عالمی منڈی میں پاکستان کے شیئر پر قبضہ کرتے چلے جا رہے ہیں۔ ٹیکسٹائل کی مارکیٹ پر چین کے بعد بنگلہ دیش تیزی سے پھیلتی ہوئی طاقت ہے۔حکومت کو اس حوالے سے کوئی قابل عمل پالیسی اختیار کرنی چاہیے تاکہ ملک بحران سے نکل سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔