یہ تو ہم بھی کر کے دے سکتے ہیں

سعد اللہ جان برق  بدھ 8 مارچ 2017
barq@email.com

[email protected]

ہمیں اکثر اس وکیل کی یاد آتی رہتی ہے جسے ایک شخص نے اپنے بیٹے کا مقدمہ لڑنے کے لیے ہائر کیا تھا۔ بیٹے پر قتل کا مقدمہ چل رہا تھا اور اس نے ایک سستا سا وکیل کر لیا تھا، معاوضہ پانچ ہزار روپے طے ہوا تھا، ویسے آج تک یہ بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی کہ وکیلوں میں یہ سستے مہنگے کا چکر کیوں؟ قانون تو سارے پڑھے ہوئے ہوتے ہیں بلکہ عدالتوں میں جج بھی قانون پڑھے ہوئے ہوتے ہیں حتیٰ کہ عدالتوں کے ریڈر ٹائپ وغیرہ بھی قانون کے اچھے خاصے ماہر ہوتے ہیں ، پھر بھی کچھ بے چارے وکیلوں کی فیس ہزاروں اور کچھ کی لاکھوں بلکہ شاید آج کل سیاسی مقدمات کے باعث کروڑوں میں ہوتی ہے۔

اس کی وجہ کیا ہے لیکن چونکہ ہم اس کوچے سے زیادہ واقفیت نہیں رکھتے تو مٹی پا دیتے ہیں، لیکن اس شخص کو لوگوں نے اکسایا کہ پانچ ہزار کے وکیل سے کیا ہو گا کوئی مہنگا وکیل کر لو اور اس نے پچاس ہزار روپے کا وکیل کر لیا لیکن بیٹے کو پھانسی کی سزا ہوئی۔ ایک پرانے وکیل سے ملاقات ہوئی تو اس نے پوچھا کہ مقدمے کا کیا ہوا، اس نے بتا دیا کہ پھانسی کی سزا ہوئی۔ اس پر پہلے والا وکیل بولا ، یہ کام تو میں پانچ ہزار میں بھی کر دیتا ، تم نے خواہ مخواہ پچاس ہزار خرچ کیے۔ بظاہر یہ ایک عام سا لطیفہ لگتا ہے لیکن یہ ایک بہت بڑا حقیقہ ہے۔

وکیل کیا، ڈاکٹروں کا معاملہ بھی یہی ہوتا ہے۔ ہم نے عرصہ ہوا آپ کو اپنے گاؤں کے ایک ڈاکٹر امرود مردود کا قصہ سنایا تھا۔ نام تو اس کا کچھ اور تھا لیکن اسپتال کے گیٹ پر امرود کا ٹھیلہ لگاتا تھا، اس نے چار پانچ سال تک غور سے دیکھا کہ مریض دو پیروں پر چل کر آتے ہیں اور دو چارروز بعد بارہ پیروں پر واپس جاتے ہیں، چار پیر چارپائی کے اور آٹھ چارپائی اٹھانے والوں کے، تو اس نے سوچا کہ یہ کون سا اتنا مشکل کام ہے جس کے لیے اتنی بڑی بڑی عمارتیں بنائی جاتی ہیں اور جن میں سیکڑوں چھوٹے بڑے ملازم سفید لباس میں اس لیے رکھے جاتے ہیں کہ آنے والا اس رنگ سے مانوس ہو جائے، جس رنگ کا لباس اسے عنقریب پہننا ہو گا، ڈاکٹر امرود نے سوچا یہ کام تو میں ایک چھوٹی سی دکان میں بھی کر سکتا ہوں اور اس نے شروع کر دیا۔ یہ باتیں ہمیں پتہ ہے کیوں یاد آرہی ہیں؟

کیوں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ حکومت نے اتنی بڑی پی سی بی بنائی ہوئی ہے جس میں لوگ کرسیوں پر بیٹھ کر طرح طرح کے کھیل کھیلتے ہیں، طرح طرح کے ’’کوچ‘‘ ہوتے ہیں، اکثر تو زرکثیر صرف کر کے ’’فارن میڈ‘‘ بھی منگوائے جاتے ہیں یعنی جو ’’فارن میڈ‘‘ ہوتے ہیں یہاں بھی تقریباً کسی چھوٹے ملک کے لشکر جتنی نفری بھرتی کی ہوئی ہوتی ہے جن کی تنخواہیں بھی غالباً غیر ملکی یا بین الاقوامی سطح کی ہوں گی، مراعات میں ملکوں ملکوں کی سیر مع خاندان بلکہ اعزہ اقربا بھی شامل ہیں اور صرف اس لیے کہ چند لوگ سبز شرٹ پہن کر جائیں اور شکست کی متاع عزیز لائیں۔ ہم سوچ رہے ہیں کہ اگر حکومت یہ کام ہمارے حوالے کر دے تو ہم صرف دس بیس لوگوں کی مدد سے بھی نہایت شاندار شکست دلا سکتے ہیں تو پھر اتنا بڑا خرچا کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔

شکست ہی تو لانا ہے نا ۔۔۔۔ ویسے تو اگر ’’جیت‘‘ بھی لے کر آئیں تو قوم و ملک کی صحت پر کچھ بھی اثر نہیں پڑتا، فرض کیجیے آج ہم ایک ایسی ٹیم تیار کر لیں اور یہ صرف ہم ہی کم خرچے پر تیار کر کے دے سکتے ہیں، اتنے بڑے چیئرمینوں، ڈائریکٹر، سلیکٹروں کوچوں موچوں اور توپوں کے بس کی بات نہیں ہے کیوں کہ ان کی اور بھی ہزاروں سرگرمیاں، سپرگرمیاں، جگر گرمیاں اور منہ گرمیاں ہوتی ہیں، تو فرض کیجیے ہم ایک ایسی ٹیم تیار کر کے دیتے ہیں جو آیندہ دس سال میں پوری دنیا کی ٹیموں کو پچھاڑ دے بلکہ کلین واش کر کے آجائے، ہر کھلاڑی کسی نہ کسی قسم کا مین بن جائے اور بین الاقوامی رینکنگ میں ہم سب سے اوپر آجائیں تو کیا لوڈ شیڈنگ کم ہو جائے گی۔

مہنگائی اپنی پرواز ملتوی کر دے گی، بیروزگاری میں ایک انچ کی کمی آجائے گی، آئی ایم ایف اپنا ایک سال کا سود معاف کر دے گا، عالمی بینک خوش ہوکر ہمیں قرض حسنہ دے دے گا، فی فرد ایک لاکھ پنتیس ہزار کا قرضہ کچھ کم ہو جائے گا، پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور دوسری پارٹیاں اندرونی طور پر سلیکشن کے بجائے الیکشن شروع کر دیں گی، موروثی جمہوریت اصلی جمہوریت میں بدل جائے گی؟ مطلب یہ کہ کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے، ہارون رشید کے دربار میں ایک شخص کو لایا گیا، اس نے زمین پر ایک سوئی گاڑ دی اور دوسری سوئی لے کر دور سے نشانہ لگایا تو سوئی سیدھی اس گڑی ہوئی سوئی کے ناکے میں لگ گئی۔ ہارون رشید نے کہا، اس شخص کو دس دینار دے دو اور بیس کوڑے مارو، کہ اگر یہ اس فضول قسم کے کام کے بجائے کوئی مفید مشغلہ اپناتا تو اس سے بہتر ہوتا، اس لیے ہم مشورہ دیتے کہ ان لوگوں کو جن کا نام پی سی بی ہے ہمارے سپرد کر دیا جائے اگر ہم کسی کھیت میں ان سے گوڈی بھی کروائیں تو کم از کم پانچ چھ من گہیوں یا گڑ یا چینی تو ہاتھ آجائے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔