شیَخ بھی رُخصت ہو گئے!

تنویر قیصر شاہد  بدھ 8 مارچ 2017
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

’’مَیں نے اپنے لوگوں تک صرف اسلام کا پیغام پہنچایا ہے۔ مَیں نے دہشت گردی کی ہے نہ امریکا کے خلاف کسی جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ اِس امریکی عدالت میں مختلف الزامات کے تحت میرے خلاف چلایا جانے والا یہ مقدمہ میرے خلاف نہیں، بلکہ امریکا نے اسلام کے خلاف مقدمہ شروع کر رکھا ہے۔‘‘یہ الفاظ معروف مصری جہادی عالمِ دین اور مذہبی رہنماشیخ عمر عبدالرحمن کے ہیںجو تقریباً بارہ سال قبل نیویارک کی عدالت میں ، بذریعہ مترجم، کہے گئے تھے۔ عمر قید کے سزا یافتہ شیخ عمر عبد الرحمن ، جو دونوں آنکھوں سے نا بینا اور امریکی شہریت بھی حاصل کر چکے تھے ، گزشتہ ماہ ایک امریکی جیل کے اسپتال میں اپنے خالق سے جا ملے۔ اُن کی عمر 78برس تھی۔ شدید قیدِ تنہائی، دل کے عوارض اور شوگر کے پیچیدہ امراض کا مقابلہ کرتے ہُوئے آخر کار وہ اگلے جہان سدھار گئے۔ جس زندگی کا آغاز مصر کے ایک چھوٹے سے قصبے’’ الجمالیہ‘‘ سے ہُوا تھا، اُس کا خاتمہ انتہائی کسمپرسی کے عالم میں امریکی ریاست ’’ نارتھ کیرولینا‘‘ کی ’’ برنٹ ‘‘ جیل کے اسپتال میں ہُوا۔

مصر سے افغانستان، پاکستان ، سوڈان اور امریکا تک ،اُن کا سفرِ زیست ایک حیرت کدہ ہی تو ہے۔ایک بھرپور زندگی۔ لاتعدادچاہنے والوں نے اُنہیں بے پناہ محبت اور احترام سے نوازا ۔ ناپسند کرنے والوں نے قانون کی طاقت سے اُن کی زندگی کے آخری بارہ سال جہنم بنا دیے۔ امریکی اور یورپی میڈیا میں اُن کے مبینہ جرائم کے پس منظر میںاُن کی مذمت کی جارہی ہے جب کہ عرب دنیا کے کئی ممالک میں اُن کے لاتعداد چاہنے والے اُنہیں ایک ’’عظیم مجاہد اور بے مثل مبلّغِ اسلام‘‘ کے القابات سے یاد کر رہے ہیں۔

وطنِ عزیز میں اُن کی رحلت پر کسی نے توجہ نہیں دی حالانکہ وہ تو سوویت یونین کے خلاف جہادِ افغانستان کا ایک بڑا نام تھے اور پاکستان اِس جہاد کا سب سے بڑا آرکیٹیکٹ! پھر بھی شیخ عمر عبدالرحمن کی وفات پر کسی نے فاتحہ کے لیے ہاتھ اٹھانا بھی مناسب خیال نہ کیا۔ اٹھارہ فروری 2017ء کو اُن کے انتقال کی خبر سُنی تو اُن سے وابستہ کئی کہانیاں یاد آ کر رہ گئیںکہ راقم نے نیویارک میںاُن کی امامت میں کئی جمعتہ المبارک کی نمازیں ادا کیں اور اُن سے مصافحہ بھی کیا۔

مجھے نیویارک آئے زیادہ دن نہیں گزرے تھے کہ رمضان المبارک کا مہینہ آگیا۔ میری رہائشگاہ نیویارک کے قدیم علاقے، بروکلین،میں تھی۔ میکڈونلڈ ایونیو پر۔ یہاں کے چرچ ایونیو ریلوے اسٹیشن سے اگر آپ ’’کونی آئی لینڈ سٹل وِل ایونیو‘‘ کی طرف جائیں تو دوسرا ریلوے اسٹیشن ’’ڈٹمس ایونیو‘‘ کے نام کا آتا ہے۔ یہاں اُتر کر اگر آپ اسٹیشن سے باہر نکل کر سڑک پر کھڑے ہوں توسامنے ہی ایک مسجد نظر آتی ہے۔

اس کا نام ’’مسجدِ عمر‘‘ ہے ۔ درمیانے درجے کے گھروں کے درمیان گھری ہُوئی۔ رمضان شریف کے دوران ایک جمعہ مجھ سے چھوٹا جا رہا تھا کہ اپنے اپارٹمنٹ سے نکلا اور بھاگتا ہُوا ’’ڈٹمس ایونیو‘‘ پر واقع مذکورہ مسجد میں داخل ہو گیا۔ مسجد اند باہر سے بھری ہُوئی تھی۔ بمشکل جگہ ملی۔ نماز ختم ہُوئی تو مَیں نے دیکھا کہ زیادہ تر نمازی عربی زبان بول رہے ہیں۔ مسجد سے باہر ایک بڑا سا اسٹال لگا تھا اور نمازی وہاں سے کسی عالمِ دین کی ٹیپ شدہ کیسٹیں خرید رہے تھے۔ مَیں نے کسی سے اس بارے استفسار کیا تو معلوم ہُوا کہ جس صاحب نے ابھی ابھی مسجدِ عمر میں خطبہ دیا ہے، یہ انھی کی کیسٹیں ہیں ۔ خطیب کا نام شیخ عمر عبدالرحمن تھا۔ مَیں واپس مُڑا ۔ سخت سردی کے باوجود دوبارہ مسجد کے اندر داخل ہو گیا۔

دیکھا کہ منبر کے سامنے فرش پر آلتی پالتی مارے ایک صاحب فروکش ہیں اور بہت سے نوجوان اُن کے ارد گرد ہالہ سا بنائے بیٹھے ہیں۔ اُن صاحب کی آنکھوں پر سیاہ چشمہ تھا، لمبی داڑھی تھی جس کے زیادہ بال سفید تھے ، سر پراونچی باڑ والی ٹوپی جس کا نصف حصہ سفید اور نصف سرخ تھا اور اُنہوں نے عربوں ایسا چوغہ پہن رکھا تھا۔ مَیں نے آگے بڑھ کر مصافحہ کیا ، جیسا کہ ہمارے ہاں اکثر جمعہ کی نمازوں کے بعد خطیب حضرات سے کیا جاتا ہے۔ مصافحہ کرتے ہُوئے مجھے احساس ہُوا کہ وہ نابینا ہیں ۔ عربی زبان بولنے والے نوجوان جس طرح اُن پرنثار ہونے کی کوشش کر رہے تھے، عقید ت و محبت کا یہ منظر حیرت خیز تھا۔ جناب شیخ عمر عبدالرحمن سے پہلی ملاقات کا یہ منظرا بھی تک میری نظروں میں گھوم رہا ہے۔

یہ راز تو اُس وقت طشت از بام ہُوا جب ایک روز صبح ہی صبح ’’وال اسٹریٹ جرنل ‘‘ کے صفحہ اوّل پر عمر عبدالرحمن صاحب کی فوٹو دیکھی اور یہ پڑھ کر میرے تو ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے کہ شیخ کو دہشت گردی، قتل اور امریکا کی سلامتی کے خلاف سازشیں کرنے کے الزامات میں گرفتار کر لیا گیا ہے۔ یہ الزامات بھی لگائے گئے کہ: اول، شیخ عمر نیویارک کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے تہہ خانے میں بم چلوا کر چھ بندوں کو قتل اور ایک ہزار سے زائد کو زخمی کروا چکے ہیں۔

دوم، نیویارک کے ایک یہودی وکیل اور یہودی جج کو قتل کروانے کی سازش کر چکے ہیں۔سوم، نیویارک کو نیو جرسی سے ملانے والی دونوں زیرِ آب سرنگوں اور ایک بڑے پُل کو ایک ہی دن بموں سے اڑانے کی سازش کی لیکن عملدرآمدسے قبل ہی اُن کے لوگ دھر لیے گئے۔کہا جاتا ہے کہ سی آئی اے اور ایف بی آئی ایسی امریکی ایجنسیوں کے ساتھ ساتھ مصر کی کئی خفیہ ایجنسیوں نے بھی عمر عبدالرحمن کو گھیرنے اور اُن کے خلاف مضبوط مقدمات قائم کرنے کے لیے بنیادی کردار ادا کیا۔

شیخ پر 9ماہ مقدمہ چلااور ’’مضبوط شواہد‘‘ کی بنیاد پر اُنہیں عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔ پچھلے بارہ سال سے اُنہیں امریکا کی مختلف جیلوں میں رکھا گیا۔ کوئی چار سال قبل مصر کے سابق صدر ، محمد مُرسی، نے امریکا سے درخواست کی تھی کہ شیخ عمر کو انسانی ہمدردی کی بنیاد پر چھوڑ کر مصر کے حوالے کر دیا جائے۔ ان کے بدلے مصری جیلوں میں قید کچھ امریکی قیدی رہا کر دیے جائیں گے لیکن امریکا ’’بہادر‘‘ نہ مانا۔ پھر تین سال قبل الجزائر میں ایک شدت پسند تنظیم نے کچھ امریکی سیاح اغوا کر لیے تھے اور اُنہیں یرغمال بناتے ہُوئے امریکا سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ اگر امریکی صدر شیخ عمر عبدالرحمن اور عافیہ صدیقی کو رہا کردیں تو وہ امریکی یرغمالیوں کو چھوڑ سکتے ہیں لیکن امریکا نے کوئی مطالبہ ماننے سے صاف انکار کر دیا، یہ کہہ کر کہ دہشت گردوں سے کوئی مکالمہ نہیں ہو سکتا۔

امریکا نے شیخ عمر کے معاملے میں بہت سختی برتی۔ اس کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ امریکا نے شیخ عمر کے وکلاء میں سے ایک امریکی وکیل (Lynn F Stewart )کو بھی 28ماہ کی سزا دے ڈالی ۔ مذکورہ وکیل پر الزام لگایا گیا تھا کہ اُس نے شیخ عمرعبدالرحمن کی ٹیپ شدہ کیسٹیں مصر میں شیخ کے وابستگان تک اسمگل کرنے کا ارتکاب کیا تھا۔

اور یوں 18فروری2017ء کو اُس شیخ عمر کی زندگی اختتام کو پہنچی جو کبھی امریکی پالیسیوں کے تحت افغانستان میں امریکا کے دشمن نمبر ایک، سوویت یونین، کے خلاف جہاد کرتے رہے تھے۔ وہ جہاد ِ افغانستان کے دوران پاکستان بھی آئے اور پھر افغانستان چلے گئے۔اُن کی ملاقاتیں شیخ عبداللہ عزام سے بھی رہیں اور اسامہ بن لادن سے بھی۔ اُن کے دو بیٹوں( احمد عمر اور عاصم عمر) نے افغانستان میں اسامہ بن لادن کی طرف سے جنگ کرتے ہُوئے اپنی جانیں ، جانِ آفریں کے سپرد کر دیں۔ رہے نام اللہ کا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔