ہم سب غلام ہیں

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 8 مارچ 2017

1852ء میں ایک کتاب ’’سولومن کی یادداشتیں ‘‘ لکھی گئی اور 1853ء میں شایع ہوئی جسے لکھنے والا ڈیوڈ ولسن تھا۔ آج یہ دنیا کی ہر اہم لائبریری میں موجود ہے 2014ء میں ہالی ووڈ میں اس کتاب پر ایک شاندار فلم بھی بنائی گئی، جسے سال 2014ء کی بہترین فلم کا آسکر ایوارڈ بھی دیاگیا۔ اس کے ساتھ ساتھ اسے گولڈن گلوب اور برٹش ایوارڈز جیسے بڑے ایوارڈز میں بھی سال کی بہترین ڈراما فلم قرار دیاگیا۔

ہدایت کاراسٹیو میکوین نے اس فلم میں شاندار علامت نگاری سے کام لیا ہے کیونکہ اس تمام فلم کو آئوٹ ڈور اور فطر ت کے منا ظر میں فلمایا گیا ہے جہاں کی کھلی فضا اورآزاد پرندے ہمیں آزادی کا پیغام تسلسل کے ساتھ دیتے ہیں اور یہ کہ ہمیں آزادی کو صرف اپنے لیے نہیں بلکہ ہر ایک کے لیے پسندکرنا چاہیے ۔ فلم کی کہانی کچھ اس طرح سے کہ ’’سولومن پیدائشی طور پر غلام نہیں تھا بلکہ ایک آزاد باشندہ تھا اوراس وقت تک امریکا میں غلامی کے بارے میں سخت قوانین بنائے جاچکے تھے لیکن اس کے باوجود دورافتادہ علاقوں میں اس کا رواج تھا سولومن نیویارک میں رہتا تھا اور اس کو امریکا کی اشرافیہ میں بہت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا کیونکہ وہ ایک خوبصورت فنکار تھا اور شاندار وائلن بجاتا تھااس دوران ایک دن چند اجنبی لوگ اس سے ملنے آئے جنہوں نے اس کے فن کی خوب تعریف کی اور اسے اپنے تھیٹرمیں کام کرنے کی دعو ت دی۔

اب ان اجنبیوں نے ایک دعوت میں اسے خوب شراب پلائی اور جب وہ نشے سے ہوش میں آیا تو ایک بند کمرے میں خودکو زنجیروں میں جکڑا ہوا پایا۔ اس دوران اچانک اس کمرے میں چند خو فناک قسم کے لوگوں کی آمد ہوئی سو لومن نے جب چیخ چیخ کر ان سے کہا اسے کیوں قید رکھا گیا ہے تو اس پر انکشاف ہوا کہ وہ تو ایک غلام ہے اور اسے زیادہ باتیں کرنے کی ضرورت نہیںیوں اس صورتحال میں اب وہ سخت مزاحمت کرتا ہے کہ وہ غلام نہیں بلکہ آزاد انسان ہے جس پر اسے سخت تشدد کا نشانہ بنایاجاتا۔اب اسے ایک بحری جہازکے ذریعے واشنگٹن ڈی سی منتقل کیا جاتا ہے اور اسے جہاز میں دوسرے غلاموں کے ساتھ رکھا جاتا ہے۔ جن میں سے سب کو اغواء کیاگیا ہوتا ہے اوران کی داستانیں اس سے ملتی جلتی ہیں۔

یہاں جہازکے ایک نیک دل ملازم کے ذریعے سو لومن اپنے خاندان کوآگاہ کرتا ہے، اسے اغواء کیاگیا ہے لیکن اسے کہاں لے جایا جارہا ہے اس بارے میں اسے خبر نہیں ہوتی۔ اس کے گھر والے اسے ڈھونڈنے نکلتے ہیں لیکن اس تلاش کے دوران وہ پر یشان ہوتے ہیں کہ اسے کہاں کہاں تلاش کریں اب سولومن اور دوسرے غلاموں کو جن میں بچے بھی ہیں امریکا کے ایک علاقے لو زینیا پہنچایا جاتا ہے جہاں سے انھیں سرخ دریا کی جانب لے جایا جاتاہے، وہاں انھیں خریدنے والے اپنی جاگیروں میں ان سے فصل اور گھاس کاٹنے کاکام لیتے ہیں۔

سولومن کو یہاں بھی ہروقت سخت تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ وہ کبھی بھی ذہنی طورپر یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ وہ غلام ہے، جب کہ اس کے مختلف مالکان اسے تشدد کا نشانہ بناتے وقت بار بار اسے باورکرانے کی کو شش کرتے ہیں کہ نہ تو وہ کبھی آزاد انسان رہا اور نہ ہی اس کا نام سولومن ہے۔

اس امریکی نیگرو کے اولیہ مالکان جن کے پاس وہ دو سال گزارتا ہے تو زیادہ سخت نہیں ہوتے لیکن اس کا آخری سفید فام مالک جس کے پاس و ہ اپنے آخری دس سال گزارتا ہے انتہائی سفاک، جابر اورسخت گیر ہوتا ہے اورخوفناک تشدد سے ہر وقت کام لیتا ہے اسی دوران سولومن اپنے ایک مہربان کو خط لکھنے میں کامیاب ہو جاتا ہے کہ جس میں اس کی داستان اور وہ مقام جہاں پر اسے رکھا جاتا ہے کانام بھی درج ہوتا ہے۔ یہ خط اس کے گھر والوں کے لیے ایک خوشخبری ہوتی ہے وہ فوراً قانون کے اداروں اور اپنے وکلا کو حرکت میں لاتے ہیں۔ اس طرح سولومن کو برآمدکیاجاتا ہے اور وہ دوبارہ پیانو بجانے والا ایک آزاد انسان بن جاتاہے۔

یہ فلم دیکھنے کے بعد اچانک یہ احساس ہوتا ہے کہ ہم سب بیس کروڑ انسان بھی غلام ہی توہیں جنہیں پاکستان کی اشرافیہ نے اغواء کر رکھا ہے، جو اپنے ذاتی مقاصد پورا کرنے کے لیے ہم سے دن رات بیگار لے رہے ہیں۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ ہمیں اغواء کرنے اور یرغمال بنانیوالے خود بھی آزاد انسان نہیں ہیں، وہ بھی ذہنی طورپر غلام ہیں۔ اپنی خواہشوں کے اپنی آرزئوں اور تمنائوں کے۔ یعنی اوپر سے لے کر نیچے تک سب کے سب غلام ہیں۔ ہرغلام اپنے سے کم اختیاراورکم حیثیت والے غلام کوکسی قسم کا حق یااختیاردینے کے لیے تیار نہیں ہے اورجس غلام کو جہاں موقع مل رہا ہے وہ دوسروں غلاموں کو پر یشان اورذلیل وخوارکر رہا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ’’تم کچھ نہیں جانتے‘‘ ہر غلام کا تکیہ کلام بن گیا ہے یعنی ہرغلام کے نزدیک صرف وہ ہی عقل مند، سمجھدار، ذہین ہے اور باقی 19 لاکھ 99 ہزار9سو 99 کچھ نہیں جانتے ۔

دنیا کا سب سے عقل مند انسان سقراط کہا کرتا تھا میں ایک بات جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا۔اس کا صاف مطلب یہ نکلتا ہے کہ ہم بیس کروڑ سب سقراط سے زیادہ عقل مند، ذہین اور سمجھدار ہیں کیونکہ ہم سب کچھ جانتے ہیں جب ہم سب کچھ جانتے ہیں تو ہم سقراط کے بھی استاد ہوئے کیونکہ وہ تو کہتا تھا کہ میں کچھ نہیں جانتا، اگر آج سقراط زندہ ہوتا تو سقراط کے استاد سقراط کو خوب لعنت ملامت کررہے ہوتے اورسقراط شرمندگی کے عالم میں چھپتا پھر رہا ہوتا۔آپ ایک چھوٹا سا تجربہ ضرورکرلیں، کسی بھی شخص کے سامنے کسی دوسرے شخص کی تعریف کی گستاخی کرلیں جب آپ یہ گستاخی کرچکے ہونگے تو وہ صاحب آپ کی بات سن کر آپ پر اس قدر آگ بگولہ ہونگے کہ آپ اس آگ میں جھلس جائیں گے اورپانی کی تلاش میں مارے مارے پھررہے ہونگے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم میں سے ہرشخص ہر وقت بارہ مہینے صرف اور صرف اپنی واہ واہ سننے کا عادی مجرم بن چکا ہے وہ اپنے علاوہ کسی دوسرے کوبرداشت کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ہے۔

اب علماء کو ہی دیکھ لیں اور سن لیں، ہر عالم اپنے علاوہ کسی اور کو عالم ماننے کے لیے ہی تیار نہیں ہے۔ ایک دوسرے کے پیچھے نماز پڑھنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وکلا کو دیکھو تو ہر وکیل یہ یقین کیے بیٹھا ہے کہ اس سے اچھی قانون کی تشریح کوئی دوسرا کر ہی نہیں سکتا ہے، باقی نرے جاہل ہیں۔ سیاستدانوں کو دیکھیں توان کی اکثریت اپنے آپ کو سپرمین سمجھے بیٹھی ہے۔

اپنے علاوہ باقی دوسروں کو سیاستدان ہی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ رہی بات دانشوروں اورتجزیہ نگاروں کی تو وہ تمام کی تمام سوچوں کوعرصہ دراز پہلے سوچ چکے ہیں آج کل سارا وقت یہ سوچتے رہتے ہیں کہ اب کیا سوچیں کیونکہ ساری کی ساری سوچیں تووہ سوچ چکے ہیں۔ والیٹر نے ایک ڈرامے میں یہ سین لکھا تھا کہ فرشتے دنیا کو تباہ کرنے آئے ہیں جب ان فلسفیوں کو دیکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ انھیں مار دیں تو ایک فرشتہ کہتا ہے ’’انھیں مارنے کی ضرور ت نہیں یہ سوچتے سوچتے ایک دن خود ہی مرجائیں گے‘‘ والیٹر نے یقینا یہ سین ہمارے ہی فلسفیوں کے لیے لکھا تھا۔ وہ تو قائداعظم خوش نصیب نکلے کہ جلد ہی رحلت فرما گئے ورنہ انھیں ایسی کھر ی کھری سننے کو مل رہی ہوتیں کہ اللہ کی پناہ۔ اب ان حالات میں بہتری کی گنجائش نکلے توکیسے نکلے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔