نوشاد کی خودنوشت

رفیع الزمان زبیری  بدھ 8 مارچ 2017

بمبئی میں کاردار پروڈکشنزکی فلم ’’نورجہاں‘‘ کی شوٹنگ ہورہی تھی۔ یہ فلم چونکہ تاریخی تھی،اس لیے اس میں بڑی تعداد میں ایکسٹرا اداکار اوراداکارائیں حصہ لے رہے تھے۔اکثر ایسا ہوتا کہ شوٹنگ کے بعد یہ اداکارگیٹ اپ اور فلمی ملبوسات کے ساتھ ہی اسٹوڈیو سے رخصت ہوجاتے اور اگلے دن شوٹنگ کے وقت دوبارہ گیٹ اپ اورڈریس تیارکرانے پڑتے۔کاردار جو یہ فلم بنا رہے تھے اس صورتحال سے پریشان تھے۔انھوں نے اس کا حل یہ نکالا کہ گیٹ پر ایک چوکیدارکی ڈیوٹی لگادی کہ وہ ہر شخص سے گیٹ اپ اور ملبوسات اتروائے۔ حکیم حیدر بیگ کاردارکے قریبی دوست تھے۔ وہ کاردار سے ملنے اسٹوڈیوآئے۔ ملاقات کے بعد جب وہ واپس جانے لگے توگیٹ پر زبردست ہنگامہ ہوگیا۔

شور سن کرکاردار بھاگے۔ جاکر دیکھا کہ چوکیدار حکیم صاحب سے اصرارکررہا ہے وہ ڈاڑھی اتار کر جائیں اورحکیم صاحب غصے میں آگ بگولا اس سے کہہ رہے ہیں کہ ’’خبیث، بدتمیز… تیری یہ مجال کہ میرے چہرے سے ڈاڑھی اتروائے۔ بے وقوف یہ اصلی ڈاڑھی ہے۔‘‘

فلم ’’گنوار‘‘ میں وجنتی مالا ہیروئن تھی، راجندرکمار ہیرو۔ اس میں ایک گیت کو اس طرح پکچرائز کرنا تھا کہ راجندرکمار زمین پر لیٹا ہے۔ وجنتی مالا اس کے سینے پرکھڑی ہوئی ہے اور راجندرکمار اپنے ہاتھوں سے اس کے پاؤں میں پائل باندھ رہا ہے۔ جب یہ سین پکچرائز ہونے لگا تو وجنتی مالا نے یہ کہہ کر انکارکردیا کہ میں ایسا نہیں کروں گی، کسی مردکی چھاتی پر عورت کا کھڑا ہونا معیوب ہے۔ جب راجندر اور فلم کے ڈائریکٹر نے بہت اصرارکیا تو وجنتی مالا جو سخت غصے میں تھی رقص کرتے ہوئے آئی اور اس طرح راجندرکے سینے پر کودی کہ اس کو دن میں تارے نظرآگئے۔

بمبئی کی فلمی دنیا کی یہ کہانیاں مشہورموسیقار نوشاد کی خودنوشت داستان زندگی کا حصہ ہیں جو دہلی کے رسالے ’’شمع‘‘ میں شایع ہوتی رہیں اوراب راشد اشرف نے انھیں اپنے حواشی کے ساتھ کتابی شکل میں شایع کیا ہے۔

نوشاد لکھتے ہیں ’’میں 1937ء میں بمبئی آیا۔کام کوئی نہیں تھا۔ رہنے کا کوئی ٹھکانہ بھی نہیں تھا لیکن دل میں جذبہ، لگن اورحوصلہ تھا۔ خدا سے دعا کرتا تھا کہ کچھ بننا چاہتا ہوں تو میری مدد کر۔ دادر میں خداداد سرکل ہے جہاں براڈوے سینما واقع تھا۔اسی سینما کے فٹ پاتھ پر آکر سوجاتا تھا۔ وہاں میں اس لیے سوتا تھاکہ براڈوے سینما کی روشنی فٹ پاتھ پرآتی تھی۔ میں اس روشنی میں اپنا مستقبل تلاش کرتا تھا۔ یوں نجانے کب نیند آجاتی۔ پھر وہی صبح وہی کام کی تلاش۔ تواس طرح کوشش کرتے کرتے سب سے پہلے مشتاق حسین کے آرکسٹرا میں پیانو بجانے کا کام ملا، یوں کچھ مصروف ہوگیا۔ پھرمیوزک ڈائریکٹر،کھیم چند پرکاش کے اسسٹنٹ کے طور پرکام شروع کردیا۔ سولہ سال بعد میری فلم ’’بیجوباورا‘‘ بہت کامیاب ہوئی۔‘‘ پھر یہ بھی ہوا کہ اسی براڈوے سینما کے مالک نے ان کا نہایت عزت واحترام سے استقبال کیا۔

نوشادکو موسیقی سے بچپن سے ہی والہانہ عشق تھا۔ لکھنو میں لاؤش روڈ پر استاد غربت علی کی دکان تھی ہرقسم کے ساز بکتے تھے۔ یہ روزانہ اس دکان کے سامنے جاکرکھڑے ہوجاتے تھے اور ہر سازکو حسرت سے دیکھتے۔ایک دن استاد نے پوچھ لیا کہ کیا چاہتے ہو؟ نوشاد نے مدعا بیان کیا تو خوش ہوئے اوراپنے گھر بلاکر ہارمونیم کی مشق کرانی شروع کردی، پھر جس ہارمونیم پر یہ مشق کرتے تھے وہ ان کو بخش دیا۔گھر کا ماحول بہت مختلف تھا، باپ کو پتہ چلا توکہہ دیا کہ میاں اس گھر میں رہنا ہے تو یہ شوق نہیں چلے گا۔نوشاد نے اس کا یہ جواب دیا کہ گھرسے نکل گئے۔

ایک بھلے آدمی نے مددکی، بمبئی پہنچ گئے۔اس کے بعد ایک لمبی کہانی ہے جدوجہدکی۔ اس دور میں ان کو ایسے ذی علم صاحب ملے جنھوں نے ان میں کیا دیکھا کہ ان سے کہا ’’نوشاد! لکھ لو، تمہیں تمہاری منزل ضرورملے گی۔‘‘

نوشاد کو منزل مل گئی۔ منزل تک پہنچنے تک اور پھراس کے بعد انھیں کن کن لوگوں سے واسطہ پڑا۔ان میں فلموں کے ڈائریکٹر، پروڈیوسر، فنانسر، ایکٹر، ایکٹریس، گیت نگار، گلوکار، شاعر، موسیقار، اچھے اور برے سب ہی طرح کے لوگ تھے۔ایک بابا بھی ملے۔ یہ تاج الدین ناگپوری کے مرید تھے۔

فلمی دنیا کے ضرورت مندوں کوکاغذ کے ایک پرزے پر ہزاروں،لاکھوں روپے کے ’’چیک‘‘ لکھ کر دے دیتے تھے اورمانگنے والے کوکہیں نہ کہیں سے اتنی رقم مل جاتی تھی۔ بابا کی نوشاد سے ملاقات ہوئی تو بابا نے کاغذ منگوایا اور اس پر لکھا۔ “Pay to him Rs. 25 Lakh” اور نوشادکو دے دیا۔ نوشاد نے کاغذ دیکھا اور بابا کو واپس کردیا، کہا ’’مجھے اس کی حاجت نہیں، مجھے دعا دیجیے کہ میں نیک بنوں، نیک رہوں۔‘‘ بابا نے انھیں اسی کاغذ پر ایک دعا لکھ کر دی کہ اسے پڑھتے رہو۔ نوشاد لکھتے ہیں ’’اس دعائیہ چیک کے دوسرے تیسرے دن سے لوگ گھرآنے لگے، نئی نئی آفریں آنے لگیں۔‘‘ ان دنوں جن لوگوں کی طرف سے فلموں کی پیشکش ہوئی ان میں وی۔شانتارام شامل تھے۔

نوشاد بتاتے ہیں ’’بابا کے چیک دینے کے سال ڈیڑھ سال بعد جب میں نے حساب لگایا تو آپ کو حیرت ہوگی اگر میں یہ تمام فلمیں سائن کرلیتا تو مجھے وہی معاوضہ ملتا جو بابا نے چیک پر لکھا تھا۔‘‘ یہ بابا صاحب منڈل بابا کہلاتے تھے۔بمبئی آنے کے بعد نوشاد کوموسیقار کی حیثیت سے پہلی ملازمت ایک نئی قائم ہونے والی کمپنی میں ملی۔ تنخواہ چالیس روپے ماہانہ طے ہوئی۔ تین چار مہینے میں فلم تیارہوگئی اور یہ پھر بے کار ہوگئے۔ اسی عرصے میں سیٹھ چندولال کے ہاں 75 روپے ماہانہ پرکام مل گیا۔ پھر 100 روپے تنخواہ پر بھونانی نے فلم ’’پریم نگر‘‘ کی موسیقی دینے کے لیے انھیں رکھ لیا۔ یہ فلم تین مہینے میں بن گئی اور جب یہ ریلیز ہوئی تو انھیں بھی بلایا گیا۔ کہتے ہیں ’’اس روز میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ زندگی میں پہلی بار اپنا نام اسکرین پرآرہا تھا۔ اس دن کے لیے میں نے بڑی منتیں مرادیں مانگی تھیں۔‘‘

اس کے بعد نوشاد آگے بڑھتے ہی گئے۔ بتاتے ہیں کہ مجھ پرکام کا ایسا جنون سوار تھا کہ اپنے ہوش میں نہ رہتا تھا۔ ہر وقت، ہر لمحہ کسی گیت کی دھن،کسی گیت کے بول میرے ہوش وحواس پر چھائے رہتے تھے۔

نوشاد نے جن کا نام نوشاد علی لکھنوی تھا، اپنی کہانی اپنی زبانی میں ان فلموں کا ذکرکیا ہے جن کی موسیقی انھوں نے ترتیب دی اورجو بڑی مقبول ہوئیں۔ ان کے بنائے ہوئے گیت بڑے پسندکیے گئے۔ان فلموں میں کمال امروہوی کی ’پاکیزہ‘ کاردار کی ’’دلاری‘‘ محبوب خان کی امر، دیدار، شاہ جہاں، درد، بیجوباورا، میلہ اور کے آصف کی ’’مغل اعظم‘‘ قابل ذکر ہیں۔ ’’مغل اعظم‘‘ کا نوشاد نے بڑی تفصیل سے ذکرکیا ہے، یہ فلم دس سال میں مکمل ہوئی اور اس وقت تک کی تمام فلموں سے زیادہ اس کی تیاری پر خرچ آیا۔ ایک دلچسپ بات انھوں نے یہ بتائی ہے کہ اس کے ایک گیت کی جو مدھوبالا پر فلمایا گیا، جب فلم بندی شروع ہوئی توذوالفقار علی بھٹو (جن کی جوانی کا زمانہ تھا اور وہ بمبئی میں رہتے تھے) سیٹ پرآگئے۔ بھٹو صاحب کے کے آصف سے بہت اچھے تعلقات تھے۔

تقریباً ایک ہفتے تک یہ گیت اوررقص فلمایا گیا اور بھٹوصاحب روزانہ پابندی سے سیٹ پر آتے رہے۔ ایک دن انھوں نے نوشاد سے کہا کہ وہ ان کی موسیقی سننے آتے ہیں۔نوشاد نے اپنی خودنوشت میں ان شاعروں کا ذکر کیا ہے جن کو وہ فلمی دنیا میں لائے۔ شکیل بدایونی، مجروح سلطان پوری۔ انھوں نے ان گلوکاروں کا بھی ذکرکیا ہے جنھوں نے یہ گیت گائے۔ رفیع، طلعت محمود، ہمنت کمار، لتا،آشا بھونسلے، سہگل اوران اداکاروں کا بھی جن پر یہ گیت فلمائے گئے۔ان کی موسیقی نوشاد نے دی اوریہ راتوں رات مقبول ہوگئے۔نوشادکی کہانی میں یہی نہیں اور بہت سی کہانیاں شامل ہیں۔کتاب کے دیباچے میں سلطان ارشد لکھتے ہیں ’’یہ یادداشتیں صرف نوشاد صاحب کی سوانح ہی نہیں بلکہ ہندوستانی فلمی صنعت کی تاریخ کا احاطہ کرتی ہیں۔ان کے ذریعے قارئین کو ایسے بے شمار فنکاروں کے بارے میں حقائق سے آگاہی حاصل ہوئی جن کا شاید انھوں نے صرف نام ہی سنا ہو۔‘‘

نوشادکیسے عظیم موسیقار تھے۔ وہ اپنی موسیقی سے ایک سماں باندھ دیتے تھے۔ جب فلم ساز محبوب اپنی فلم ’’مدرانڈیا‘‘ بنا رہے تھے تو اس میں ایک گیت تھا جس کی سچویشن یہ تھی کہ ایک لڑکی بیاہ کراپنے گھر سے جارہی ہے۔ نوشاد کہتے ہیں کہ جب وہ اس گیت کو ریکارڈ کررہے تھے تو گانا ریکارڈ ہوتے ہوتے گانے والیوں کی آوازیں غائب ہوگئیں۔ نوشاد سمجھے کہ مشین میں کوئی گڑبڑ ہوئی ہے مگر وہ بوتھ میں گئے اورگلوکاراؤں کی طرف دیکھا تو سب رورہی تھیں۔ ہچکیاں بندھی تھیں۔انھوں نے شمشاد بیگم اورکورس گانے والی لڑکیوں سے پوچھا،کیا ہوا۔آپ کیوں رو رہی ہیں؟ شمشاد بیگم بولیں ’’نوشاد صاحب! میری بچی بھی جوان اورشادی کے لائق ہے،گیت گاتے گاتے اس کی رخصتی کا خیال آگیا۔ یہ بھی تو جوان لڑکیاں ہیں،ان کے بھی جذبات امڈ آئے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔