ایک ملاقات پرویز مشرف سے

مقتدا منصور  جمعرات 9 مارچ 2017
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

اتوار کے دن دبئی اور ابوظہبی میں صبح ہی سے بادل چھائے ہوئے تھے اور وقفے وقفے سے پھوار پڑ رہی تھی۔اس روز دو بجے سابق صدرجنرل مشرف سے ملاقات کا وقت طے تھا۔ ہم جمعے کی شام دبئی پہنچ گئے تھے۔ خواہش یہ تھی کہ ہفتے کا دن اپنے بیٹے، بہو اور پوتی کے ساتھ گزار کر اتوار سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کریں۔ ملاقاتیں بھی زیادہ نہیں صرف دو تھیں۔ ایک پرویز مشرف صاحب کے ساتھ اور دوسری سابق گورنر سندھ عشرت العباد کے ساتھ۔

کوئی 12بجے کے قریب سید محمد عباس ہمیں لینے ابوظہبی کی بستی ابوغدیر پہنچ گئے۔ پرویز مشرف برج الخلیفہ کے قریب ایک کمپلکس ساؤتھ برج ٹاورز نامی عمارت کی39 ویں منزل پر موجود پینٹ ہاؤس میں رہتے ہیں۔ ابوظہبی سے دبئی تک جانے میں عام طور پر ڈیڑھ گھنٹہ لگ جاتا ہے، پہلے تو راستہ بھٹک کر دوسری جانب نکل گئے۔ پھر برج الخلیفہ کے علاقے میں عمارت کی تلاش میں وقت لگ گیا۔ یوں کوئی پونے تین بجے کے قریب وہاں پہنچے۔ ان کا ایک خدمت گار ہماری پیشوائی کے لیے موجود تھا، جو لازمی طور پر سابق فوجی تھا۔ اس کی معیت میں بالائی منزل تک پہنچے۔ چند منٹ انتظارکے بعد جنرل صاحب تشریف لے آئے۔ ان سے ہماری ملاقات ان کے دورِ صدارت میں ہمارے دوست عمراصغر خان مرحوم کے توسط سے ہوچکی تھی، جو انھیں یاد تھی۔

کہنے لگے میری ابتدائی ٹیم جو14افراد پر مشتمل تھیں، مگر سبھی اپنے اپنے شعبے کے نامور ماہرین تھے۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا، ڈاکٹرعطا الرحمان، ڈاکٹرحفیظ شیخ، عمراصغر خان وغیرہ نے تین برسوں کے دوران عمدہ ترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس پر سوال کیا کہ بے شک وہ ٹیم عمدہ تھی، مگر 2002کے بعد سیاسی جماعت کے جو لوگ سامنے آئے، انھوں نے تو نظام کو مزید ابتر کردیا۔ کہنے لگے اس کے سوا چارہ ہی کیا رہ گیا تھا۔ عدالت نے ہمیں تین برس کی مہلت دی تھی۔ جس کے بعد انتخابات لازمی طور پرکرانے تھے۔

اس وقت تک عمران خان کی تحریک انصاف اتنی مقبول جماعت نہیں تھی کہ تیسرا آپشن بن سکتی ۔ عمر مرحوم نے کچھ جماعتوں اور گروپوں کو باہم ضم کرکے ایک نئی جماعت بنانے کی کوشش کی، مگر اس میں انھیں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔ لہٰذا مسلم لیگ(ق) کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن باقی نہیں تھا، میں سمجھتا ہوں کہ وہ کوئی غلط فیصلہ نہیں تھا۔ ہم نے انھیں آزادانہ طورپر کام کرنے کا موقع دیا۔ ان کی کارکردگی اس وقت اقتدار میں موجود مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی دونوں سے خاصی بہتر تھی۔ البتہ یہ صحیح ہے کہ سیاسی عمل میں بہتری کی توقع پوری نہیں ہوسکی۔

ہم نے تبدیلی کے لیے مقامی حکومت کا نظام دیا ، جو اگر کامیابی کے ساتھ چلتا تو ملک میں دو اہم پیش رفت ممکن تھیں۔ اول، اقتدار و اختیارکی نچلی سطح تک منتقلی کا عمل شروع ہوجاتا۔ دوئم، موجودہ سیاسی status quoکے ٹوٹنے کے امکانات پیدا ہوتے۔

اس نظام کی دنیا بھر میں پذیرائی اور تعریف کی گئی، مگر اس نظام کو چلنے نہیں دیا گیا، اگر اس میں کچھ نقائص تھے، تو انھیں دور کیا جاسکتا تھا، مگر یکسر ختم کرکے نوآبادیاتی دور کا کمشنری نظام اور پولیس آرڈر بحال کرنا دراصل اقتدار و اختیار کی مرکزیت کو قائم کرنا ہے۔ جس کا نتیجہ نظم حکمرانی کی ابتری سے عیاں ہے۔ آج حکومتوں پر کرپشن کے جو الزامات ہیں، اگر اس نظام کو چلنے دیا جاتا، تو ان میں خاصی حد تک کمی آسکتی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ملک میں ایک ایسی ملک گیر سیاسی جماعت کی اشد ضرورت ہے، جو سیاسی عمل میں تیسرا آپشن ثابت ہو۔ اس کے بغیر سیاسی عمل سےStatus quoٹوٹنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔

اس سوال کے جواب میں کہ عام تاثر یہ ہے کہ وہ سندھ کے اربن علاقوں میں ایم کیوایم کے مختلف دھڑوں کو یکجا کر کے ایک نئی سیاسی جماعت بنانے کی کوشش کررہے ہیں۔ انھوں نے زور دار قہقہہ لگایا اور کہا کہ میں ملک کی مسلح افواج کا سربراہ اور ملک کا صدر رہا ہوں۔ اب میں اس قدر نیچے آجاؤں گا کہ علاقائی جماعت کی قیادت کروں۔

یہ بات غلط مفروضوں پر پھیلائی جارہی ہے، مجھے دیگر لوگوں کی طرح اپنی کمیونٹی سے ہمدردی ضرور ہے، مگر میں سمجھتا ہوں کہ انھیں اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر کمیونل شناخت کو ختم کر کے قومی دھارے میں شامل ہونا پڑے گا۔اس مقصد کے لیے ان کے لیے بہترین چوائس یہ ہے کہ وہ پیر صاحب پگارا کی مسلم لیگ(ف) کے ساتھ اتحاد قائم کریں۔ جب انھیں بتایا گیا کہ پیر صاحب کی فنکشنل لیگ تو خود ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے، اس کے ساتھ اربن سندھ کا سیاسی اتحاد کیا ڈیلیور کرسکے گا؟ تو اس کا انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

ان سے پوچھا کہ نجی شعبے میں ذرایع ابلاغ کی کارکردگی کے بارے میں ان کا کیا خیال ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ وہ اس کے کردار سے خاصی حد تک مطمئن ہیں۔ کچھ کمزوریاں اور خامیاں ضرور ہیں، جو وقت کے ساتھ دور ہوتی چلی جائیں گی۔ کہنے لگے جس وقت میں اقتدار میں آیا خبروں کا صرف ایک چینل ہواکرتا تھایعنیPTV۔ نجی شعبے میں STNنے اپنی نشریات شروع کی تھیں۔

وہ زیادہ تر CNNکی خبریں دکھاتا تھا۔ شام کو کچھ تفریحی پروگرام چلا کرتے تھے۔ ہم نے نجی شعبے میں لائسنس جاری کیے ۔ جس کے نتیجے میں چینل کھلنا شروع ہوئے۔ شروع میں ہمیں مشورہ دیا گیا کہ ان چینلوں کو خبروں اور تجزیوں کی اجازت نہ دی جائے تو میں نے اس کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ضروری ہے۔

مودبانہ عرض کیا کہ کارگل کے موقعے پر بھارت کے نجی میڈیا کا رویہ خاصا جارحانہ تھا۔اس کا مقابلہPTV نہیں کر پا رہا تھا، اس لیے ریاستی منصوبہ سازوں نے  نجی شعبے میں چینلوں کو کھولنے کی اجازت دینے کا فیصلہ کیا، اس نکتے پر وہ مسکرا دیے۔ ساتھ ہی  کہا کہ ہم نےPEMRAکی تشکیل اور اس کے قوانین بنائے تھے، تاکہ چینل اپنی حدود سے تجاوز نہ کرسکیں، مگر ان قوانین پر ان کی روح کے مطابق عمل نہیں ہورہا۔ میں ذاتی طور پر اخباری اداروں کو الیکٹرونک میڈیا کے لائسنس جاری نہ کرنے کا حامی تھا، مگر اس صورت میں پیشہ ورانہ انداز میں اطلاعات تک رسائی ممکن نہ ہوپاتی۔

اس وقت بعض غیر پیشہ ور افراد نیوز کے ان نجی چینلوں پر حاوی آگئے ہیں، جس کی وجہ سے پیشہ ورانہ کارکردگی متاثر ہورہی ہے، مگر اس کے باوجود میں خاصا مطمئن ہوں کہ آنے والے دنوں میں ہمارا الیکٹرونک میڈیا اچھی روایات قائم کرے گا۔ مجھے یہ بھی خوشی ہے کہ ہمارا میڈیا بھارتی میڈیا کی طرح متعصب اور تنگ نظر نہیں ہے۔

ان سے پوچھا کہ ایک نجی چینل سے ان کے نام کی تشہیر ہورہی ہے کہ وہ اس چینل سے بطور تجزیہ نگار وابستہ ہونے جارہے ہیں؟ اس سوال پر انھوں نے قہقہہ بلندکیا اور کہا کہ نہ تو مجھے اینکر بننے کا شوق ہے اور نہ ہی تجزیہ نگاری میرا شعبہ ہے، یہ آپ کو ہی مبارک ہو۔ میں نے انھیں بتادیا ہے کہ جب بھی انٹرویوکی ضرورت ہوگی میں حاضر ہوجاؤں گا۔ اب مجھے انھیں تنبیہہ کرنا ہوگی کہ وہ اس اشتہار کو بند کریں۔ میں جلد ہی لندن جارہا ہوں جہاں مجھے لیکچر دینے ہیں۔ اس کے بعد امریکا چلا جاؤں گا، جہاں کئی یونیورسٹیوں نے لیکچرز کے لیے مدعو کیا ہوا ہے۔ اس لیے میرے پاس روزانہ تجزیہ نگاری کے لیے وقت نہیں ہے۔

ان سے پوچھا کہ وہ وطن کب تک واپس آرہے ہیں؟ تو ان کا کہنا تھا کہ وہ آج واپس آجائیں،  مگر پاکستان میں ان کے خلاف جس طرح جھوٹے مقدمے قائم کیے گئے ہیں اور معاندانہ انداز میں انھیں چلایا جا رہا ہے، ان کا فی الحال پاکستان واپسی کا امکان نہیں ہے۔ان سے پوچھا کہ وہ اگلے انتخابات کے کیا نتائج دیکھ رہے ہیں، تو ان کا کہنا تھا کہ جب تک سیاست میں جاریStatus quoنہیں ٹوٹتا، موجودہ حالات کے تبدیل ہونے کے امکانات خاصے کم ہیں، وقت کافی ہوگیا تھا۔ چند تصاویر بناکر ہم نے اجازت چاہی۔ وہ دروازے تک ہمیں چھوڑنے آئے۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ڈیڑھ گھنٹے کی اس نشست کے دوران بہت سے امور پر آف دی ریکارڈ گفتگو بھی ہوئی، جو اخلاقی تقاضوں کے مطابق شایع نہیں کی جاسکتی۔ لیکن اس گفتگو سے بہت کچھ سمجھنے اور جاننے کا موقع ضرور ملا۔ مارچ کے مہینے میں دبئی میں ہونے والی ہلکی پھوار کے مزے لوٹتے ہوئے واپس ہوئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔