انصاف کے پیمانے

جاوید قاضی  جمعرات 9 مارچ 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

توخیر زرداری صاحب کو موقعہ اچھا ملا، چھکا لگانے کا ورنہ یہ آپ ہی تھے جن کی سمجھوتہ گری نے اکیسویں ترمیم و فوجی عدالتیں ہمیں دیں۔ وہ تو بھلا ہو سپریم کورٹ کا جس نے فوجی عدالتوں کو جوڈیشنل ریویوکے ماتحت کیا۔ اکیسویں ترمیم نے فوجی عدالتوں کی مدت دو سال تک محدود کی۔ سپریم کورٹ نے یہ کڑوا گھونٹ اس لیے پیا کہ مدت محدود تھی ورنہ پارلیمنٹ نے جو آئین کی روح کو مجروح کیا وہ پاکستان کے آئین کی تاریخ میں ایک نیا باب تھا۔کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

’’رونے سے جو میرے محبوب ٹھہر جاتے
تو میں آنسو بہاتے دریا بن جاتی‘‘

فوجی عدالتیں دو سال میں وہ کام کر نہ سکیں تو کیا دو سال اور میں یہ کام کر پائیں گی؟ مان لیا ہمارے کریمنل جسٹس سسٹم میں بے انتہا کمزوریاں ہیں تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اسپتال میں کام نہیں ہوتا لہذا حکیم کے پاس جایا جائے،آپ نے مجھے تھپڑ مارا اور میں آپ کو دو تھپڑ ماروں معاملہ دو افراد کے درمیان نہیں یہ معاملہ ریاست اور اس کے شہریوں کے درمیان کا ہے۔ ان کی فوجی عدالتوں سے کل بڑا کام لاہور میں کرکٹ کر گئی ایک ہی جھٹکے میں وحشت کسی برف کے تودے کی طرح اْس کی تپش سے پگھلا گئی۔

معاملہ یہ ہے کہ اس مملکتِ خداداد کو آئین کی بالادستی چاہیے اور آئین میں ریڑھ کی ہڈی کی مانند ہیں بنیادی حقوق۔ وہ میرے بھی ہیں اور دہشتگرد کے لیے بھی اور اس طرح سے نہ دیکھا گیا تو یہ شرفاء، یہ ایجنسیاں، یہ پولیس کسی کو بھی دہشتگرد قرار دے سکتی ہیں۔ بالکل ٹھیک زرداری صاحب آپ کا مطالبہ درست ہے کہ ’’دہشتگرد‘‘ کی واضح و شفاف تشریح کی جائے۔ آپ وہاں چْپ رہے جو اگر آگے یہ کہتے کہ دہشتگردی اور کرپشن کا بھی آپس میں بڑا گہرا سا رشتہ ہے اور ذرا اْس کی بھی واضح تشریح ہو جائے۔

دہشتگرد ایک ماں کی کوکھ سے معصوم مسکان لے کہ پیدا ہواتھا اْسے کیا پتہ تھا کہ جس سماج میں وہ پلنے جا رہا ہے وہاں کے اسکول بند ہیں۔ مفلسی و لاچارگی ہر سمت بہہ رہی ہے کہ وہ بھی ایک مسکین اور لاچار ماں باپ کا بیٹا ہے۔ گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہے لہٰذا اماں نے کہا ہے کہ بیرون ملک کے فنڈ سے چلتے ہوئے مدرسے میں جایا جائے جہاں ایک عدد چارپائی اور تین وقت کی روٹی مجھے میسر ہو گی۔ اماں مجھے پریوں کی کہانیاں سْناتی تھیں اور یہاں مجھے جنت کی حْوروں کے بہانے خود کش حملہ آور بننے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ایک زمانہ بِیت گیا اور اب آئی ہمارے پاس ’’سہولت کار‘‘ کی ایک نئے معنی، نئے ترّنم کے ساتھ کہ کون جیتا ہے تیرے زْلف کے سائے تلے یا یوں کہیے

خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
یہ آہیں یہ ْفغائیں، یہ ماتم یہ دھمال کی دھم دھم ۔ تبھی تو فیض ؔ نے کہا تھا کہ
’’تْجھ کو کتنوں کا لہو چاہیے اے عرض ِ وطن
جو تیرے عارضِ بے رنگ کو گلنار کر ے
کتنی آہوں سے کلیجہ تیرا ٹھنڈا ہو گا
کتنے آنسوؤں سے صحرا تیرا گلزار ہوگا
تیرے ایوانوں میں پْرزے ہوئے پیماں کتنے
کتنے وعدے تھے جو آسودہء اقرار ہوئے
کتنے آنکھوں کو نظر کھا گئی بد خواہوں کی
خواب کتنے تیری شاہراہوں میں سنگسار ہوئے‘‘

آپ ہی نے بنائے دہشتگرد آپ ہی نے مارے دہشتگرد، آپ ہی کہیں کون دہشتگرد اور کون نہیں ہے دہشتگرد۔
میرؔ کی اِس بات کی طرح:
’’جو چاہیں سو آپ کرے ہیں
ہم کو عبث بد نام کیا‘‘

دہشتگرد تو صرف ایک ہاتھ ہے اْس زنجیر میں پڑی بہت سی کڑیاں اور نکلتی ہیں۔ فوجی عدالت کی بصارت محدود ہے اس کی سننے کی صلاحیت بھی محدود ہے۔ شفاف و آزاد ٹرائل کورٹ یوں کہئے کہ آرٹیکل 10A کا کوئی بھی متبادل نہیں۔ لگ بھگ ستر سال لگ گئے ہمیں فاٹا کو آئین کے تابع کرنے میں۔ ہم یہ بھی سمجھ لیں کہ ہم دہشتگردوں کو فوجی عدالتوں میں لا کر جیسے فاٹا کا نظام دینے جا رہے ہیں جب کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ان کے نظریئے کو شکست دی جائے۔ اْن کی سوچ و فکر کو شکست دینے کے لیے آئین میںوضع کیے ہوئے ’’فری ہینڈ فئیر ٹرائل‘‘ کے تابع لانا چاہیے۔ تا کہ دہشتگرد مجھ میں اور پناما میں جو فرق ہے وہ تحلیل ہو۔ اور جو آئین ہے اْس کی ڈوریاں و سمتیں، تخّیل، احساس، انصاف عمیق ہو اور لائق تعظیم ٹہھرے۔

جناح کا پاکستان، وادیء مہران کی تاریخ و تشّخص، وہ رنگ جو باغ میں ہر پھول کے ہوتے ہیں سب مل جل کر مہک اٹھیں، اور میرا پاکستان اِک چمن کی مانند ہو اور چمن کا بارڈر امن کی مانند ہو۔

جس ڈگّر ہم کھڑے ہیں یہ دہائیوں سے لا قانونیت کی دی ہوئی ایک مختصر سی شکل ہے۔ دہائیوں کی لا قانونیت کہا ں اور کہاں فوجی عدالتیں!!! کاش کہ میں قانون و آئین کا طالب نہ ہوتا۔کاش کہ میں نے مارکس اور رْوسو کو نہیں پڑھا ہوتا تو میں بھی تالیاں بجاتا زرداری صاحب کی طرح اور خوب ڈھنڈورا پیٹتا کہ دہشتگرد ی اور کرپشن کا آپس میں کوئی تعلق نہیں اور پورے سندھ میں جس طرح ہیپاٹائیٹس پھیلی ہے جس طرح اسکول بند ہیں، جس طرح سندھ غذائی قلت کا شکار ہے اس کا دہشتگرد ی سے کو ئی تعلق نہیں لہٰذا دہشتگردوں کو پکڑو فوجی عدالتیں بناؤ اور ہوں وہ کچھ اس طرح کہ وغیرہ وغیرہ۔

زرداری صاحب کے لیے عرض کہ ہمارے جج ہو سکتا ہے کہ وہ خاص نظریہء فکر کے ہوں، ان کو بْرے اور شرافت اوڑھے کرپشن کرنیوالے اتنے بْرے نہ لگتے ہوں مگر آئین، ہمارا عدالتی نظام بہت ٹھوس و مضبوط بنیادیں رکھتا ہے، اس نے آپ ہی کی اکیسویں ترمیم کو ٹٹولا، جانچا اور رد کیا۔ ورنہ آپ نے کیا کسر چھوڑی تھی آئین سے انحرافی کی۔

آپ کر لیجیے اس بار بھی شوق سے اِک ترمیم اور دیجیے پچھلی سے خطر ناک فوجی عدالت اور تو کیا ہو گا؟ عدالت کے پاس ’’بنیادی ڈھانچہ‘‘ پیمانہ جو ہے وہ آپ ہی کی اکیسویں ترمیم کے تناظر میںآئے ہوئے آرٹیکل 3)) 184 کی جیورسڈکشن میںکورٹ نے وضع کی تھی۔ آپ کی آئین میں ترمیم جو ڈیشنل ریویو کے تابع ہے اور فوجی عدالتیں آپ بھلے ہی اس پر سیاست کریں، بھلے عرفان اللہ مروّت کو بھی لیں کہ کراچی کی پشتو آبادی مائل بہ کرم ہو۔ آپکا دین و ایمان ووٹر ہے اور ان کو بے وقوف بنانا آپ سے بہتر کوئی اور کیا جانے۔

’’تم سے بے جا ہے مجھے اپنی تباہی کا گِلا
اِس میں کچھ شائبہ خوبیٔ تقدیر بھی تھا‘‘

ہماری عدالتیں اپنا کام خوب جانتی ہیں، ہو سکتا ہے اْن کی تاریخ اتنی اچھی نہ ہو بہ حیثیت ادارہ وہ بھر پور اور واضح ہیں۔ ’’Judicial Mind‘‘ کوئی چھوٹی بات نہیں ہوتا۔ آپکا بس چلتا آپ بلدیاتی نظام نہ دیتے، آپ کا بس چلتا آپ مردم شماری نہ کرواتے یہ آج عدالتوں کا سِر ا ہے جو ہمیں مِلا ہے۔ سندھ کی گورنس کی تباہی پر بلآخر کورٹ کو فرنٹ فْٹ پر آ کرآپ کا محاصرہ کرنا پڑا۔

بس جاتے ہوئے ایک یہ عرض کروں کہ جِس طرح سجاد علی شاہ صاحب مرحوم کو آپ نے یہ کہا کہ ہم نے آپ کو دو ججوں پر فوقیت دے کر چیف جسٹس آف پاکستان بنایا ہے آپ اس کے عوض ہمیں بھی کچھ دیجیے گا کسی اچھے فیصلے کی صورت میں۔ وہ ’’بابا‘‘ سجاد علی شاہ قانون سے اِس حد تک بے خود تھے کہ آپ کے اس دیے ہوئے تحفے کو بھی’’الجہاد ٹرسٹ کیس‘‘ میں ٹھکرا دیا۔ یہ بات سجاد علی شاہ صاحب نے مجھے خود بتائی تھی، یہ باتیں اگلے مضمون تک رہنے دیتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔