عیادت بھی عبادت ہے

ساجد علی ساجد  جمعرات 9 مارچ 2017
sajid.ali@express.com.pk

[email protected]

پچھلے ہفتے تقریباً چاردن کے لیے لاہور جانے کا اتفاق ہوا۔ اس مختصر سے دورے کا مقصد اپنے ایک عزیز اورمشہور مصنف ایم اے راحت کی عیادت کرنا تھا جو شدید علیل ہیں۔ ان کی حالت دیکھ کر واقعی بڑا دکھ ہوا۔ ایم اے راحت کو ہم نے طویل عرصہ پہلے کراچی میں اس وقت دیکھا تھا جب وہ ایک ساتھ اپنے ایک دو نائبین کو اپنی کہانیاں ڈکٹیٹ کراتے تھے، مگر اب لاہور میں انھیں بستر علالت پر دراز اس حالت میں دیکھا کہ ان کے صاحبزادے راشدکو انھیں سہارا دے کر بٹھانا پڑا تاکہ وہ ہم سے بات کرسکیں ان کے لکھنے لکھانے کا سلسلہ کئی ماہ پہلے موقوف ہوچکا ہے۔

انھوں نے مختصر سی گفتگوکی اور یہ بات دکھ کے ساتھ کہی کہ وہ اس کرب اوراذیت سے گزر رہے ہیں کہ انھیں اپنے جسم پر بھی کنٹرول نہیں رہا ہے۔ راحت بھائی کی سب سے بڑی خوبی ان کی زود نویسی ہے اب تک وہ ڈھائی ہزارکے قریب کہانیاں اورساڑھے چارسو کے لگ بھگ ناول لکھ چکے ہیں جن میں سے کچھ کے کئی کئی ایڈیشن شایع ہوچکے ہیں۔کمال کی بات یہ ہے کہ انھوں نے اپنے پورے رائٹنگ کیریئرمیں ’’مقدار‘‘ کے باوجود اپنے ایک خاص معیارکو شروع سے آخر تک قائم رکھا اور اپنے پڑھنے والوں کا ایک وسیع حلقہ پیدا کر لیا جو آج تک موجود ہے کیونکہ ان کی بعض کہانیاں اورناول اب تک چھاپی اور پڑھی جارہی ہیں۔

ایم اے راحت نوے کی دہائی کے وسط میں خاص طور پر اپنے بیٹوں کوکراچی کے حالات سے بچانے کے لیے لاہور منتقل ہوگئے تھے۔ لاہورکی آب و ہوا جہاں ان کی صحت کے لیے زیادہ سازگار تھی وہاں اس شہر میں ان کے قدردان پبلشرز بھی زیادہ تعداد میں تھے ویسے بھی ایک پروفیشنل رائٹر کے طور پر ان کے لکھنے لکھانے کا سلسلہ کسی بھی جگہ جاری رہ سکتا تھا چنانچہ یہاں آکر بھی ان کا قلم فراٹے بھرتا رہا اور اس شہر میں بھی ان کی خوب پذیرائی ہوئی اور وہ قسطوں پر قسطیں لکھتے رہے۔

لاہور میں ابتدائی دور سے مقیم ہمارے ہم زلف کے صاحبزادے سیف الدین جوکلیئرنگ فارورڈنگ کی ایک بڑی فرم کے سربراہ ہیں ہمیں راحت بھائی سے ملانے اعوان ٹاؤن، ملتان روڈ میں واقع ان کے گھر لے گئے یہ ایک اوسط درجے کا گھر تھا جہاں راحت بھائی کو شدید علیل دیکھ کر دکھ ہوا وہاں یہ معلوم کر کے بھی دھچکا لگا کہ زندگی بھر لکھنے لکھانے سے اتنا کچھ کمانے والے راحت بھائی ابھی تک کرائے کے مکان میں رہتے ہیں۔ شاید اس کا سبب ان کی یہ انفرادیت ہے کہ انھوں نے تصنیف وتالیف کے علاوہ زندگی میں کوئی اورکام نہیں کیا۔

انھوں نے بہرحال ملک کے کئی ممتاز ڈائجسٹوں ایک مقبول ہفت روزہ کے لیے بے شمار سلسلے وار کہانیاں لکھیں یقینا وہ ان گنے چنے مصنفوں میں سے ایک ہوں گے جنھوں نے سب سے زیادہ قسطوں والی کہانیاں تحریرکیں اس زودنویسی اورطول طویل تحریروں میں شاید ایڈیٹر حضرات اور قارئین کا بھی اپنا کردار ہوتا ہوگا کیونکہ ان کی جب کوئی کہانی مقبول ہوجاتی تو ان سے قسطیں بڑھانے کی فرمائشیں کی جاتیں وہ اپنی کہانیوں میں جو بظاہر ناقابل یقین طلسماتی تصوراتی بلکہ دیومالائی ماحول تخلیق کرتے وہ قارئین کو ایک ایسی دنیا میں لے جاتا کہ لوگ چاہتے کہ یہ سلسلہ کبھی ختم نہ ہو۔

ان کی ایک اورخوبی اورانفرادیت یہ تھی کہ ہم نے ان کے گھر میں کبھی کوئی انگریزی زبان کا ناول یا میگزین نہیں دیکھا نہ انھیں انگریزی فلمیں دیکھتے پایا جس سے یہ شک ہوتا کہ وہ کسی غیر ملکی رائٹر یا فارن فکشن سے استفادہ کرتے ہوں گے۔

یہاں ہمیں لاہور شہر کا بھی کچھ تذکرہ کرنا ہے ہم جیسے لوگ جو طویل عرصے بعد لاہور گئے ہوں ان کو جو بات سب سے زیادہ حیران کرتی ہے وہ اس شہرکی بالکل بدلی ہوئی ترقی یافتہ شکل ہے۔ صاف ستھرا، روشن کشادہ، چمکتا ہوا، فلائی اوورز اور انڈرپاسزکا متاثر کن جال اگر لوگوں اور گاڑیوں کی تعداد کچھ کم کرلیں تو بالکل کسی غیر ملکی شہر کی Look آتی ہے۔ میٹرو بس کا منصوبہ تقریباً مکمل ہوچکا ہے اور لوگ صرف بیس روپے میں شہر کے ایک حصے سے دوسرے حصے تک سفرکرسکتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ شہباز شریف شاید اس فلسفے پر کام کر رہے ہیں کہ آپ شہریوں کو سہولت سے ان کی منزل مقصود تک پہنچا دیں باقی زندگی بدلنے کا کام وہ خود کرلیں گے۔ اسکول کالج اور اسپتال تک پہنچنے کے لیے ایک اچھی سڑک بنیادی ضرورت کی حیثیت رکھتی ہے۔

سچی بات ہے ترقیاتی منصوبے کراچی میں بھی جاری ہیں، مگر کچھوے کی رفتار سے جب کہ لاہور میں ’’خرگوش‘‘ دوڑ رہے ہیں چنانچہ ہم نے میٹرو ٹرین کے زیر تعمیر راستے پر جابجا شام کو مزدوروں کی شفٹ تبدیل ہوتے اور راتوں کوکام ہوتے دیکھا ایک ایسا نظارہ جو کراچی میں با لکل نظر نہیں آتا۔

سچی بات ہے ہمیں ان لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جو اپنا اتنا اچھا خاصا شہر چھوڑ کر لاہور سے دوسرے شہروں کی طرف منتقل ہو رہے ہیں حالانکہ ہم جیسے بہت سے لوگوں کو اگر حالات اجازت دیں تو وہ پہلی فرصت میں لاہور منتقل ہوجائیں۔

پنجاب کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ وہاں کے حکمراں تعمیر وترقی کو اندرون پنجاب گاؤں گاؤں لے گئے ہیں جس کے پیچھے قدرتی طور پر یہ مقصد کارفرما ہے کہ بڑے شہروں پر آبادی کا دباؤکم کیا جائے۔ ظاہر ہے اگر زندگی کی روزگار سمیت بنیادی سہولتیں گاؤں دیہات میں فراہم کردی جائیں تو وہاں کے لوگ شہروں کا کم رخ کریں گے۔ بہرحال ہمیں یہ اطمینان و سکون حاصل ہوا کہ ہمارا لاہور آنے کا بنیادی مقصد پورا ہوگیا ہے۔ کسی بیمار کی عیادت کرنا ایک سماجی خدمت بھی ہے اور عبادت بھی جسے اپنا ایک فریضہ سمجھ کر ادا کرنا چاہیے یہ کام بیمار شخص اور عیادت کار دونوں کے لیے فائدہ مند ہے اس سے بیمار کو بھی سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے اور عیادت کرنے والے کو بھی۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ آگے چل کر آپ خود بھی اس مرحلے میں داخل ہوسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔