پی ایس ایل فائنل

ظہیر اختر بیدری  جمعرات 9 مارچ 2017
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

پی ایس ایل کے انعقاد کے حوالے سے ایک منظم اور بھرپور مہم کے بعد آخرکار 5 مارچ کو پی ایس ایل کا فائنل مقابلہ کرا دیا گیا جس میں پشاور زلمی نے کوئٹہ گلیڈی ایٹرز کو ہرا کر فائنل جیت لیا۔ اس مقابلے میں شامل ہونے والی دونوں ٹیموں کا تعلق پاکستان ہی سے تھا۔ لیکن تاثر یہ ملتا رہا کہ اس فائنل میں باہر کی ٹیمیں بھی شامل ہیں۔ چونکہ دہشتگردی کے خوف سے برسوں سے پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ ختم ہو کر رہ گئی ہے اور کرکٹ کے شائقین بین الاقوامی کرکٹ دیکھنے کے لیے بہت بے تاب تھے لہٰذا اس فائنل کا لاہور میں انعقاد عوام کی نفسیاتی تشفی کا باعث بن سکتا تھا۔ غالباً اسی پس منظر میں ہماری کرکٹ کی قیادت نے کوشش کی کہ پی ایس ایل کا فائنل لاہور میں ہو۔ یوں یہ فائنل قذافی اسٹیڈیم لاہور میں کرایا گیا جو موجودہ حالات میں ایک قابل تعریف کارنامہ تھا۔

کرکٹ دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی بہت مقبول ہے لیکن سری لنکن ٹیم پر دہشتگردوں کے حملے کے بعد دوسرے ملکوں کی کرکٹ ٹیموں نے پاکستان میں کرکٹ کھیلنے سے احتراز کیا ہے، پی ایس ایل کے لاہور میں کھیلے جانے والے فائنل میں بھی باہر کے کرکٹر نے شریک ہونے سے احتراز کیا، کیونکہ اب تک باہر کے کرکٹر پاکستان میں کرکٹ کے مقابلوں کو غیر محفوظ ہی سمجھتے ہیں۔ کرکٹ سے ہماری دلچسپی بس واجبی سی ہے، اس حوالے سے اس کالم کا اصل موضوع پی ایس ایل کا فائنل نہیں بلکہ دہشتگردی ہے۔

لاہور، سیہون سمیت خیبرپختونخوا میں مسلسل ہونے والی خونی دہشتگردی کی وجہ پاکستانی عوام میں خوف و دہشت کی فضا ایک فطری اور منطقی بات ہے حکومت نے اس خوف و دہشت کی فضا سے عوام کو نکالنے کے لیے اس میچ کا اہتمام کیا جو ایک قابل تعریف اقدام ہے اور عوام میں خوف کم ہوا، یہ بھی ایک مثبت کارنامہ ہے۔ پنجاب حکومت نے اس حوالے سے جو حفاظتی اقدامات کیے وہ بھی قابل تعریف ہیں۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس فائنل کے بعد مذہبی انتہاپسند طاقتیں دہشتگردی کی کارروائیوں سے باز آ جائیں گی؟ اس سوال کے جواب کے لیے دہشتگردوں یا مذہبی انتہا پسندوں کے مقاصد کو سمجھنا ضروری ہے۔ عام طور پر کہا یہی جاتا ہے کہ مذہبی انتہا پسند طاقتیں ساری دنیا میں اپنا طے کردہ نظام نافذ کرنا چاہتی ہیں۔

کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنا طے کردہ نظام دنیا میں نافذ کرنے کی کوشش کریں، لیکن اس کی شرط یہی رہی ہے کہ یہ کام پرامن طور پر کیا جائے۔ سیکڑوں برسوں سے مختلف مذاہب کے نمایندے یہ کام تبلیغ کے نام پر پرامن طور پر کر رہے ہیں جس پر کسی کو اعتراض نہیں لیکن اگر تبلیغ میں کہیں تشدد کا عنصر شامل ہوا تو ہر مذہب کے اعتدال پسند عوام نے اس کی بھرپور طریقے سے مخالفت کی۔ پاکستان کے نامور مبلغین پاکستان کے اندر ہی نہیں بلکہ دنیا کے مختلف ملکوں میں تبلیغی کام انجام دیتے رہے ہیں اور اب بھی دے رہے ہیں جس پر دوسرے مذاہب والوں کو اس لیے اعتراض نہیں کہ خود انھیں بھی اپنے مذہب کی پرامن تبلیغ کی آزادی حاصل ہے۔ عیسائی مبلغین ساری دنیا جس میں مسلم ممالک بھی شامل ہیں تبلیغی کام انجام دے رہے ہیں اگر اس کام میں تشدد، زور اور زبردستی شامل ہو جاتے ہیں تو پھر لوگ نہ صرف اس کی مخالفت کرتے ہیں بلکہ جوابی تشدد اور زور زبردستی پر اتر آتے ہیں۔

بدقسمتی یہ ہے کہ اپنے عقائد کو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں تک پہنچانا اب پرامن تبلیغی کام نہیں رہا بلکہ پر تشدد خوف و ہراس پھیلانے والی مہم میں بدل گیا ہے اور اس حوالے سے سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اس پُر تشدد مہم جوئی میں مسلم ملکوں بلکہ اسلام کا نام لیا جا رہا ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ دنیا بھر میں جو دہشتگردی کی وارداتیں ہو رہی ہیں ان کے کارندے اپنے آپ کو مسلمان ہی کہتے ہیں لیکن اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ اسلام کے یہ داعی عام طور پر مسلمانوں کو ہی اپنا نشانہ بنا رہے ہیں۔ پاکستان ایک نہ صرف مسلم اکثریتی ملک ہے بلکہ اس کا نام ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ جب یہ طے ہے کہ پاکستان ایک مسلم ملک ہے اور یہاں کی آبادی میں 95 فیصد مسلمان ہیں تو پھر اس ملک میں مسلمانوں کو اپنا ہدف بنانا کہاں کی لاجک ہے؟

اصل میں اس ساری خونریزی کی پشت پر مذہبی جذبات کارفرما نہیں بلکہ فرقہ وارانہ جذبات اس انتہا پسندی اور دہشتگردی کے اصل محرک ہیں جب کہ خود مسلم اکابرین بار بار یہ کہہ رہے ہیں کہ اسلام میں نہ فرقوں کا کوئی تصور ہے نہ مذہبی انتہا پسند اور دہشتگردوں کا مذہب سے کوئی تعلق ہے اس منطق کے درست ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ مذہبی انتہا پسند مسلمانوں کو ہی اپنا ہدف بنا رہے ہیں۔ دہشتگردوں کے عقائد کے مطابق قبر پرستی اسلام میں ناجائز ہے، اگر یہ بات درست ہے تو اس کا ازالہ تبلیغ و تفہیم سے کیا جانا چاہیے نہ کہ مقبروں کو دھماکوں سے اڑا کر۔ سیہون سے پہلے بھی نورانی اور  لاہور کے مقابر پر دہشتگردانہ حملے ہوتے رہے ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ مذہب کا نہیں بلکہ مسلمانوں کو باہم لڑانے کا ہے۔

لاہور میں پرامن طور پر پی ایس ایل فائنل کا انعقاد کر کے حکومت نے عوام کا خوف دور کرنے کی ایک مثبت کوشش کی ہے لیکن کیا اس قسم کی کوششوں سے دہشتگردی ختم ہوجائے گی؟ اس سوال کا جواب نفی میں اس لیے آتا ہے کہ مسلم دنیا جن حوالوں سے تقسیم ہے ان میں ایک بڑا حوالہ فرقہ وارانہ  تقسیم ہے جب تک اس غیر منطقی تقسیم کو ختم نہیں کیا جاتا لاکھ پی ایس ایل کرا لیں دہشتگردی ختم نہیں ہو سکتی۔ اس تقسیم کو مثبت طریقوں سے میڈیا اور مسلم اعتدال پسند اکابرین کی مدد سے ختم کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔