اس کا کوئی جواب ہے ہمارے پاس

نجمہ عالم  جمعرات 9 مارچ 2017
najmalam.jafri@gmail.com

[email protected]

8 مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا گیا اورہر سال منایا جاتا ہے، مگر کیا واقعی عورتوں کے حالات میں کوئی بڑی تبدیلی رونما ہوئی؟ اس دن کی تاریخی اہمیت، حقوق کے حصول کے لیے دنیا بھرکی خواتین کی جدوجہد اور مختلف ادوار میں حقوق نسواں کے لیے چلنے والی تحریکوں سے متعلق اس روزکے اخبارات میں کافی کچھ لکھا گیا، مختلف چینلز پر بھی خصوصی پروگرامز پیش ہوئے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ برصغیر خصوصاً پاکستان میں قیام پاکستان کے بعد سے اب تک عوامی و حکومتی سطح پر کئی کوششیں خواتین کے حقوق کے سلسلے میں ہوئیں۔

تقسیم سے قبل تحریک آزادی میں بھی پورے برصغیر سے خواتین نے حصہ لیا۔ وہ خواتین جوگھر کی چہار دیواری میں مقید تھیں ملکی ترقی ومعیشت میں ان کا کوئی کردار نہ تھا کچھ سرسید تحریک کے نتیجے میں اور کچھ تحریک آزادی کے باعث گھر سے نکلیں۔ برصغیر کے کچھ حصوں میں خواتین نے قبل از تقسیم ہی تعلیم حاصل کرنا شروع کردی تھی اور قیام پاکستان کے بعد تو بڑی تعداد میں شہروں میں لڑکیوں کو تعلیم سے آراستہ کرنے کا شعور پیدا ہوا، مگر دیہی عورت آج بھی تعلیم سے محروم ہے۔ سابقہ صوبہ سرحد اور موجودہ خیبرپختونخوا کی خواتین نے بھی تحریک آزادی میں حصہ لیا مگر آج اس صوبے کے بیشتر علاقوں میں عورت کو ووٹ تک ڈالنے سے محروم رکھا جا رہا ہے۔

اگر تقسیم کے بعد سے خواتین کے حقوق اور تحفظ پر سرسری سی بھی نظر ڈالی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ آزادی کے ستر سال بعد پاکستانی عورت جس مقام پرکھڑی ہے ماضی میں وہ اس سے زیادہ محفوظ اور ترقی یافتہ تھی۔ تعلیم کی شرح آج ماضی کے مقابلے میں کئی گناہ بڑھ چکی ہے۔ تعلیم کے ہر شعبے میں لڑکیوں کی کارکردگی واضح طور پر لڑکوں کے مقابلے میں بہتر رہی ہے۔ پاکستان کے تمام صوبوں کے میٹرک سے لے کر اعلیٰ درجوں کے نتائج میں لڑکیاں زیادہ تر لڑکوں پر سبقت لے رہی ہیں اس کے ساتھ ساتھ ان پر کئی شعبہ ہائے زندگی کے دروازے بھی کھل رہے ہیں۔

ایک زمانہ تھا کہ عورتوں کو طبی شعبے میں بطور ڈاکٹر اور نرس اور تعلیمی شعبے میں بطور استاد قبول کیا جاتا تھا مگر آج تقریباً ہر شعبے میں خواتین اپنی صلاحیتوں کو منوا رہی ہیں حتیٰ کہ مسلح افواج میں بھی ان کی کارکردگی کسی سے پوشیدہ نہیں۔ پھر ماضی کے مقابلے میں آگہی میں بھی اضافہ ہوا ہے مختلف ادارے خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم بھی ہیں، حکمرانوں کو بھی عورت کی اہمیت کا احساس ہوچکا ہے۔ اس کے باوجود جیساکہ پہلے ذکر ہوا کہ ماضی کی عورت آج کے مقابلے میں زیادہ محفوظ تھی۔ آخر بہتر تعلیمی صورتحال، شعورو آگہی کے باوجود ایسا کیوں ہوا؟ گزشتہ کچھ برسوں میں کئی ایسی خواتین جو معاشرے میں اعلیٰ مقام پر خدمات انجام دے رہی تھیں کو قتل کیا گیا۔ تیزاب گردی، جنسی زیادتی کے واقعات میں اضافہ ہوا، عورتوں پر طرح طرح کی پابندیاں لگانے کی باتیں ہوئیں۔

تحفظ حقوق نسواں بل پر مردوں خاص کر مذہبی عناصر کا واویلا وغیرہ آخر یہ سب کیا ہے؟ اس تمام صورتحال کا اگر گہرائی میں جاکر مطالعہ کیا جائے تو کئی وجوہات سامنے آتی ہیں ان وجوہات میں سے کچھ تو معاشرے میں پہلے سے موجود تھیں مگر کچھ نے گزشتہ کچھ دہائیوں سے سر اٹھایا ہے۔ مثلاً جاگیردارانہ نظام میں عورتوں کا استحصال پہلے ہی سے موجود رہا ہے، مگر مذہبی انتہا پسندی اورایک دوسرے کو برداشت نہ کرنے کا رجحان زیادہ پرانی بات نہیں۔ موجودہ صورتحال میں یہ کہنا کچھ غلط نہ ہوگا کہ پسماندہ سے پسماندہ معاشرے آگے بڑھنے کی کوشش تو کرتے ہی ہیں مگر ہم ترقی کی بجائے پیچھے جارہے ہیں۔ تحریک آزادی میں صوبہ سرحد کی خواتین نے بھی مقدور بھر حصہ لیا اور آج وہاں عورت کو ووٹ کے حق سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ شرح خواندگی میں اضافے کے باعث اسلام سے متعلق لوگوں کی معلومات میں اضافہ ہوتا اور جو روایات لاعلمی اور جہالت کے باعث معاشرے کا حصہ بن گئی تھیں ان سے نجات حاصل کی جاتی مگر ہم اپنے بچپن کے دور میں جب جھانکتے ہیں تو ہمیں فقہی یا مسلکی تعصب کہیں نظر نہیں آتا۔ ہم اپنے اسکول میں ہر مسلک وفقہ کی لڑکیوں سے دوستی رکھتے تھے اور ہمیں برسوں بلکہ بعض کے متعلق تو آج بھی یہ معلوم نہیں کہ وہ کس مسلک پر کاربند تھیں۔

مگر آج صورتحال مختلف ہوچکی ہے جتنا شور اسلامی تعلیمات کا آج ہے اتنا شاید پہلے نہ تھا (اگرچہ یہ کوئی پسندیدہ بات نہ تھی) مگر مذہبی آگاہی نے ہمیں ایک دوسرے سے دور کردیا۔ یہ صورتحال اس سے بھی بڑھ کر ناپسندیدہ ہے۔کیا اسلام کی تعلیمات، اصول اور ضابطہ حیات میں کوئی تبدیلی رونما ہوئی ہے؟ یقینا اس کا جواب نفی میں ہی ہے کیونکہ اسلامی اصول کسی بھی دور کسی بھی علاقے میں کبھی بھی تبدیل نہیں ہوسکتے۔ دراصل ہمارے درمیان انتہا پسندی اور دوسروں کے برداشت نہ کرنے کا چلن کچھ زیادہ عام ہوگیا ہے۔ ہرکسی نے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنالی ہے اوربضد ہے کہ جو میں کررہا ہوں وہ درست اورباقی سب غلط ہیں۔ صرف میں اور میرے ہم خیال جنت میں جائیں گے باقی سب جہنم میں۔

اس رجحان کا خواتین کے حوالے سے جو قابل مذمت پہلو ہے وہ اس خیال کو تقویت دینا ہے کہ شوہر بیوی کا خدائے مجازی ہے اورعورت کو اس کا ہر حکم بلا چوں و چرا تسلیم کرنا چاہیے۔ جب اسلامی اصولوں کو اپنی مرضی کا پیراہن پہنایا جائے گا تو بات یہاں تک پہنچے گی کہ شوہر کا حکم خدا کے حکم سے بھی بڑھ جائے گا۔ یعنی شوہر اگر بیوی کو خلاف شریعت کسی کام کا حکم دے تو اس کو وہ بھی مان لینا چاہیے ورنہ وہ اپنی پوری مردانگی اس کی ہڈی پسلی توڑ کر بھی دکھا سکتا ہے۔ یوم خواتین کے حوالے سے میری ایک رشتے دار جو کسی سرکاری اسپتال میں ڈاکٹر ہیں نے بتایا کہ ہم کس منہ سے یوم خواتین مناتے ہیں۔ کل ایک لڑکی جس کے ہاتھوں میں مہندی لگی تھی زخمی حالت میں میرے پاس لائی گئی اس کا ایک بازو ٹوٹا ہوا تھا، ہنسلی کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی اور ایک آنکھ پر اس قدر ورم تھا کہ کھل ہی نہیں سکتی تھی اس کے ساتھ ایک جوان شخص بھی تھا جو اس کو لے کر آیا تھا۔

وہ شاید اس کا بھائی تھا، لڑکی کی حالت دیکھ کر میں نے اس کی وجہ معلوم کی تو اس نے بتایا کہ کل میری شادی ہوئی ہے، میرے شوہر نے مجھے غیر شرعی فعل انجام دینے پر مجبور کیا جب میں نے اس کو بتایا کہ یہ تو گناہ ہے تو اس نے مجھے اس قدر مارا میرے سر کو دیوار سے ٹکرایا جس کے نتیجے میں میرا یہ حال ہوا۔ ساتھ آئے شخص نے انتہائی بے دردی سے فرمایا کہ وہ اس کا شوہر تھا اگر یہ اس کی بات مان جاتی تو یہ حال نہ ہوتا۔ میں نے پوچھا کہ شوہرکا حکم کیا حکم خدا سے بڑھ کر ہے؟ تو وہ بولا بالکل شوہر بھی تو خدا کے برابر ہے۔ بتائیے اس جہالت کا کوئی جواب ہے آپ کے ہمارے پاس۔ معاذ اللہ خاکم بدہن اگر شوہر اللہ یا خدائے مجازی ہے تو وہ اتنا ظالم، اتنا بے رحم اور بے درد کیوں ہے ہمارا رب تو بے حد مہربان اور رحم کرنے والا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔