کشمیری اور افغان صحافیوں کے جذبات

نصرت جاوید  جمعـء 11 جنوری 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

جنوبی ایشیاء میں علاقائی تعاون کو بڑھانے یا مضبوط کرنے کے نام پر جو بھی کانفرنسیں منعقد ہوتی ہیں، ان میں شریک پاکستانی اور ہندوستانی مندوبین نئی دہلی اور اسلام آباد کے باہمی معاملات میں اُلجھ کر رہ جاتے ہیں۔ سیفما کی جو کانفرنس بدھ کو ختم ہوئی ہے، اس میں بھی تقریباََ یہی کچھ ہوا۔ میں نے اگرچہ امرتسر اور لاہور میں اپنے قیام کے دوران کچھ دوسرے ممالک کا احوال جاننے کی کوشش بھی کی اور جو کچھ سمجھ میں آیا، اس نے مجھے حیران کر دیا اور کچھ معاملات کے ضمن میں پریشان بھی۔

مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنے اب 33 سال ہو گئے ہیں۔ خون کے دھبوں کو دھونے کے لیے پہلی برسات کا اہتمام ذوالفقار علی بھٹو نے 1974ء میں شیخ مجیب الرحمن کو لاہور میں ہونے والی اسلامی سربراہی کانفرنس میں مدعو کر کے کیا تھا۔ پھر بھٹو بھی نہ رہے اور شیخ مجیب الرحمن بھی۔ دونوں ممالک میں جرنیل بر سر اقتدار آ گئے۔ بنگلہ دیش کے فوجی سربراہ نے جنوبی ایشیاء کے ملکوں کو سارک تنظیم میں اکٹھا کرنے کی کوشش کی اور اس کو سب سے زیادہ تعاون پاکستان کے جنرل ضیاء کی طرف سے ملا۔ بھارت جنوبی ایشیاء کی اس تنظیم کے قیام سے کچھ زیادہ خوش نہ تھا۔

اس کے پالیسی ساز بڑے عرصے تک یہی سوچتے رہے کہ شاید اس کے نسبتاََ چھوٹے اور کمزور ہمسایے سارک کے پلیٹ فارم پر اکٹھے ہو کر اس کی بالادستی کا مقابلہ کرنے کو تیار ہو رہے ہیں۔ پاکستان اور بنگلہ دیش پھر بھی باہمی اشتراک سے سارک کو جاندار بنانے کی کوششیں کرتے رہے۔ نتیجتاً یہ تاثر بھی ابھرنا شروع ہو گیا کہ ماضی کی ساری تلخیاں بھلاتے ہوئے پاکستان اور بنگلہ دیش کے عوام اور حکومتیں ایک دوسرے کے بہت قریب آ رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے صحافیوں سے مل کر مجھے بھی اکثر یہی محسوس ہوا کرتا تھا۔

2013ء کی سیفما کانفرنس میں بنگلہ دیشی صحافیوں کو مل کر البتہ مجھے یہ احساس ہوا کہ 1970ء کی ناخوشگوار یادیں پھر لوٹ آئی ہیں۔ پتہ نہیں کن ٹھوس وجوہات کی بناء پر حسینہ واجد کی حکومت ان یادوں کو مسلسل اچھالتی رہتی ہے۔ اپنی سابقہ حکومت کے دوران بھی شیخ مجیب کی بیٹی نے یہ سب کیا تھا۔ مگر اس کی عوامی سطح پر اتنی پذیرائی نہیں ہوئی تھی۔ صحافیوں کی اب جو نوجوان نسل تیار ہو رہی ہے وہ اس بار حسینہ واجد کے Narrative کو بڑے جذباتی انداز سے اپنا رہی ہے۔ ہماری حکومت، وزارتِ خارجہ اور میڈیا کو ان جذبات کی شدت کا اندازہ ہی نہیں۔

ٹیلی ویژن کی اسکرینوں پر ’’افغان جہاد‘‘ کے چند سالاروں کی داستانیں سنتے ہوئے پاکستانیوں کی اکثریت نے یہ فرض کر لیا ہے کہ افغان عوام کی اکثریت اور خاص کر وہاں کے پشتون پاکستان سے جذباتی لگائو رکھتے ہیں۔ اس ملک کو اپنا محسن سمجھتے ہیں۔ یہی بات ذہن میں رکھتے ہوئے میں نے خاص طور پر نسبتاََ نوجوان مگر چند پشتون صحافیوں کے ساتھ گپ شپ کے طویل لمحات گزارے۔ ان کی باتوں کو دھیان سے سنتے ہوئے اندازہ ہوا کہ افغانستان کے شہروں میں رہنے والوں کی اکثریت خواہ وہ پشتون ہو یا غیر پشتون پاکستان کو شک و شبہ کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔

چند افغان صحافی تو مجھے یہ تاثر دیتے بھی نظر آئے کہ انھیں بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید گہرا بناتے ہوئے پاکستان سے گویا ’’جان چھڑانا‘‘ چاہیے۔ یہ الگ بات ہے کہ بھارت میں کم از کم میڈیا کی حد تک افغانستان میں کوئی خاص دلچسپی نظر نہ آئی۔ میرا نہیں خیال کہ پاکستانی میڈیا اور شاید حکومت کو بھی افغان شہروں میں پھیلتے متوسط طبقے کے دلوں میں ہمارے بارے میں پائی جانے والی بدگمانی کا کوئی خاص احساس موجود ہے۔ اس بدگمانی کی سطح کو پوری طرح سمجھنے اور اس کا تدارک کرنے کی شدید ضرورت ہے۔

بنگلہ دیش اور افغانستان کے صحافیوں کے جذبات جان کر میں حیران ہوا لیکن پریشانی کشمیر کے صحافیوں سے مل کر ہوئی۔ چند روز پہلے میں نے بشارت پیر کے ’’کرفیو زدہ راتیں‘‘ والے ناول کا ذکر کیا تھا۔ اس ناول کو پڑھنے کے بعد کشمیر کے نوجوان صحافیوں سے مل کر میں نے دریافت کیا کہ 1990ء کی دہائی کے دوران اور اس کے بعد جوان ہوتی ہوئی نسل اداس نہیں شاید ناراض ہے۔ اب تک ان کا غصہ صرف بھارت پر مرکوز ہوا کرتا تھا۔ مگر آہستہ آہستہ اس غصے کی شدت پاکستان کی طرف منتقل ہو رہی ہے۔

دو خواتین نے تو بڑی روہانسی آواز میں بڑے تلخ لہجے اور الفاظ میں یہ کہا کہ پاکستان نے ان کی ’’پیٹھ میں چھرا گھونپا‘‘ ہے۔ ان کے خیال میں پاکستان اور بھارت کے درمیان باہمی تعلقات میں جب کچھ بہتری نظر آنا شروع ہو جاتی ہے تو کشمیر میں موجود بھارتی فوج کے رویے میں مزید سختی آ جاتی ہے۔ انھیں اس بات کا بھی بہت دُکھ تھا کہ جب بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان آمد و رفت اور تجارت میں آسانیاں لانے اور بڑھانے کی بات چلتی ہے تو سارا فوکس واہگہ کی سرحد پر رکھا جاتا ہے۔ کوئی یہ نہیں سوچتا کہ راولپنڈی تاریخی طور پر کشمیر کی مرکزی ’’منڈی‘‘ ہوا کرتی تھی۔

اسے بحال کرنے اور کم از کم کشمیریوں کو ایک دوسرے سے ملنے میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے کیوں نہیں سوچا جاتا۔ میں نے جن کشمیریوں سے بات کی وہ بہت نوجوان اور شدید جذباتی تھے۔ میں نے ان کی باتیں سر جھکا کر ندامت سے سنیں اور دل ہی دل میں اس بات پر پریشان ہوتا رہا کہ پاکستان کی ’’شہ رگ‘‘ سمجھے جانے والی کشمیر کی نوجوان نسل میں تو ہمارے خلاف شدید لاوا پک رہا ہے۔ سمجھ میں نہیں آ رہا کہ جب یہ لاوا پھٹا تو کیا صورت اختیار کرے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔