میرے قاضی صاحب

اسلم خان  جمعـء 11 جنوری 2013
budha.goraya@yahoo.com

[email protected]

قاضی صاحب بھی چل دیے، قاضی حسین احمد، جن کا نام انگریز سامراج کے خلاف جنگ آزادی کے ہیرو حسین احمد مدنی کے نام ِنامی پر رکھا گیاتھا۔ قاضی صاحب جو اس خطے میں امریکی مفادات کے لیے سب سے بڑا خطرہ بن چکے تھے کہ وہ چالباز امریکیوں کی تمام چالاکیوں سے بخوبی آگاہ تھے ۔

دشمنوں کو نوید ہوکہ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کاغم خوار ،راہِ عدم کا راہی ہوا، وہ جو پاکستان کے میدانِ جنگ میں برسرپیکارسنی اور شیعہ جنگجوئوں کے درمیان پل بنا ہوا تھا، وہ جو اُمت کے دردمندوں کے لیے اُمیدِ نگاہ تھا۔ ایشیا اور افریقہ میں بکھری ہوئی مسلم ریاستوں کے لیے جس کا دل دھڑکتا تھا، وہ دل خاموش ہوا۔بیت المقدس ،قبلہ اول اور فلسطین کا عاشق ِزار قاضی حسین احمد رُخصت ہوا، جس کے لیے جماعت اسلامی تنگی داماں کا استعارہ بن کررہ گئی تھی جو اپنے خلوص اور بے پناہ جذبات پر قابوپانے کا کمال ملکہ رکھتا تھا لیکن کوئی نظم، کوئی غزل اُسے حق گوئی سے باز نہ رکھ سکتی تھی، وہ امریکی سامراج اور اس کے ٹوڈیوں کے لیے شمشیر برہنہ تھا،میری زندگی کا ایک اور باب تمام ہوا۔ایک اور نام کٹا،ایک اور فون بند ہوا۔

ہم رہ گئے ہمارا زمانہ گذر گیا

قاضی حسین احمد، جماعت اسلامی کے سابق امیر اور بزرگ قومی رہنما تھے جن کا نام عبوری وزیراعظم کے لیے بھی زیر غور تھا لیکن ان کا حقیقی مقام و مرتبہ اس سے کہیں بالا اور بلندو برتر تھا، وہ محض نظریاتی فلاسفر نہیں، علمیت پسند رہنما تھے۔اک سائبان تھا کہ نہ رہا۔

وہ جنوب مغربی ایشیا،جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کی تمام ریاستوں پر مشتمل ۔ مملکت خراسان میں مختلف محاذوں پر امریکا کے خلاف صف آراء مجاہدین صف شکن کے نمایاں کماندار تھے ۔اگر عسکری محاذپر ملا محمد عمرمجاہد امریکی افواج قاہرہ سے پنجہ آزمائی کررہے ہیں تو سیاسی اور سفارتی محاذ پر قاضی حسین احمد ان کے سامنے سینہ سپر تھے کہ میاں طفیل محمد مرحوم کی طویل معاونت اور جماعت اسلامی کی دو دہائیوں پر مشتمل امارت نے سفارتی نزاکتوں اور آداب شاہی اور اس کی سمجھ بوجھ کا استاد کبیر بنا دیا تھا۔

فخر ہے کہ دورِ جوانی میں ان کی جوتیاں سیدھی کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ۔90کی دہائی میں ذاتی تعلق کا یہ عالم تھا کہ ایک بار طلب کرکے فرمایا ’’اپنے دوست فیقا سے کہو میرا کارٹون تُند خو کے بجائے مہربان اور نرم بنایا کرے، شگاگو پلٹ برادرم اسلم ڈوگر کے ساتھ منفرد اور انوکھے کردار کے حامل فیقا جی سے کامیاب مذاکرات کیے اورفیقاجی کواُن کا من پسند خراج اداکرکے خوش کر دیا۔

قاضی صاحب کو مرحوم لکھتے ہوئے کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ وہ عاشق اقبالؒ تھے، وہ حافظ اقبالؒ تھے ۔فارسی میں قادرالکلام عبور رکھنے والے قاضی حسین احمد جواس دور ِجدیدمیںبھی افغانستان اور ایران کے مسائل کو شاعرِ مشرق ؒکی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔ بے رحم اور چالاک امریکی قاضی حسین احمد کو سنی اور شیعہ گروہوں کے درمیان پل سمجھتے تھے۔ جناب قاضی حسین احمد نے سال گذشتہ کے آخری دنوں میں اسلام آباد کے پنج ستارہ ہوٹل میں ملی یکجہتی کونسل کا شاندارا حیاء کرکے امت کے دشمنوں کو مسکت اور بھر پور جواب دیا تھا۔

یہ زمانے کا دستور رہا ہے کہ اپنے نامور فرزندوں کا دامن کانٹوں سے اُلجھا کر نفسیاتی تسکین پاتے ہیں ۔اسی طرح قاضی حسین احمد کو آغاز سے اختتام تک جماعت کی رجعت پسند اور روایت پر ست عناصر کی سنگ زنی کا نشانہ بننا پڑا۔ جن میں سنگ دشنام کے ساتھ ساتھ تیر الزام بھی شامل تھے، اقربا ء پروری سے مالی بے ضابطگیوں تک کیا کیا کیچڑ نہیں اُچھالا گیا لیکن وہ گدلے تالاب میںکنول کی مانند صاف وشفاف اور معطر رہے ۔انھوں نے ماتھے پر بل لائے بغیر سب کچھ ہنستے مسکراتے خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔

قاضی صاحب کے بارے میں لکھتے ہوئے تاریخ کے کٹہرے میں کھڑا ہوں، افغان جہاد اور قاضی حسین احمد دو لازم وملزوم استعار ے بن چکے ہیں لیکن 80کی دہائی میں جب برادرم نور الٰہی نے ذاتی اجتہاد کرتے ہوئے کلاشنکوف اٹھائی اور ڈیورنڈ لائن پار کرلی تو وہ بھی قاضی صاحب ہی تھے جنہوں نے اس کی سخت تادیب کی اور نورالٰہی کا اخراج کراکے دم لیا۔وہ نظم کی اجازت کے بغیر عملی جہاد کی راہ کھول کرنئے فتنے کا آغاز نہیں کرنا چاہتے تھے لیکن بعد ازاں ایسی جذباتی آندھی چلی کہ جہاد کے تقاضوں کے حوالے تمام شرائط، حدودو قیود خس وخاشاک کی طرح اُڑ گئیں۔

عملیت پسند سیاستدان کی حیثیت سے قاضی صاحب زمینی حقائق کوحددرجہ اہمیت دیتے تھے، اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب انھیں حکمت یار کا پیغام پہنچانے پر اس کالم نگار کو شدید رد عمل کا شکار ہونا پڑا۔91میں کسی وقت چند ساتھیوں سمیت سروبی میں اس وقت کے افغان وزیراعظم انجینئر گلبدین حکمت یار سے طویل انٹرویو کیا جو مقامی اور عالمی ذرایع ابلاغ میں شہ سرخیوں کاموضوع بنا۔ جناب حکمت یار نے استفسار کیا کہ کون ساتھی سیدھا لاہور جا رہا ہے ۔میرے اثبات پر انھوں نے قاضی صاحب کے لیے چند الفاظ پر مشتمل زبانی پیغام دیا۔ لاہور پہنچتے ہی امراء جماعت کے سدا بہار سیکریٹری ابرار صاحب کے ذریعے حاضر ہوا اور قاضی صاحب کو بتایا کہ حکمت یار کہتے ہیں ’’شرعی اور اخلاقی طور پر آپ کے احکامات پر عمل ممکن نہیں ‘‘… آج بھی قاضی صاحب کے شدید ردعمل کو یاد کرکے کانپ جاتا ہوں۔کہنے لگے، اب یہ مجھے شریعت پڑھارہا ہے۔

میں نے تو صرف یہ کہا تھا کہ اُستاد ربانی اور مسعود سے صلح کرکے حکومت کرو، یہ مجھے شریعت اور اخلاق کا درس دے رہا ہے مجھے کیا…وغیرہ وغیرہ… جذبات کاطوفان تھااور یہ خاکسار سر جھکائے عافیت کی دُعا کرتا رہا۔۔جب شدت جذبات میں کمی آئی تو جان کی امان پاتے ہوئے وہاں سے رُخصت ہوا ۔قاضی صاحب سابق افغان صدر پروفیسر برہان الدین ربانی اور ان کے نائب گوریلا کمانڈر احمد شاہ مسعود کا ذکر کررہے تھے جن سے وہ حکمت یار کی صلح کرانے چاہتے تھے وہ دونوں افغان رہنما بعد ازاں خود کش حملوں میں مارے گئے جس کی وجہ سے کابل کا سیاسی منظر یکسر بدل گیا جب کہ حکمت یار آج امریکیوں کو مطلوب سب سے بڑے کمانڈر ہیں ۔

قاضی صاحب کو بروقت یہ احساس ہوگیا تھاکہ جماعت کا روایتی ڈھانچہ ان کے شد ت جذبات کا متحمل نہیں ہوسکتا۔اسی لیے سابق وزیرا طلاعات محمد علی درانی کی قیادت میں ’’پاسبان‘‘کے نام سے نوجوانوں کی تنظیم تشکیل دی جو جماعت اسلامی کے مروجہ بلند اخلاقی معیارات پر کسی بھی طرح پوری نہیں اُترتی تھی ۔میری طرح کے ہزاروں نوجوان چنددنوں میں علی درانی کے ہم قدم ہوگئے تھے۔ اُس دور میں محمد علی درانی ہی قاضی حسین احمد کے لیے سب کچھ تھے۔میڈیا ایڈوائز،مشیر خاص اوربازو شمشیر زن جب کہ جماعت اسلامی کی ساری روایتی قیادت ان کے خلاف مورچہ زن ہوچکی تھی۔

اصل معرکہ تو پاکستان اسلامک فرنٹ کی شکست کے بعد شروع ہوا جب جماعتی بزرگوں نے قاضی صاحب کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کردیا ، اس وقت تک یہ کالم نگار یونیورسٹی سے فارغ ہوکر اسلام آباد سے شایع ہونے والے ایک قومی اخبار میں لینڈ کرچکا تھا۔ انھی دنوںدوستوں کی غیر رسمی مجلس میں قاضی صاحب کو شکست کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے امارت سے مستعفی ہونے کے مشورے دیے جارہے تھے جس پر قاضی صاحب نے فرمایا کہ مناسب وقت پر حتمی اقدام کروں گا اور دوماہ بعد جماعت کی عاملہ کا اجلاس بلایا گیا اور قاضی صاحب نے اس میں شرکت کے بجائے ایک سادہ سفید لفافہ جناب منور حسن کو بھجوا دیا کہ اجلاس میں اسے کھول کر پڑھا جائے اور وہ قاضی صاحب کااستعفی تھا ۔

اسی رات مجھے کسی مہربان نے بتایا کہ قاضی صاحب عاملہ کا اجلاس طلب کرکے خود جہانگیرہ میں ہیں ۔دال میں کالا ہے وہ مستعفی ہوچکے ہیں ۔ میں نے فوراًاپنے ایڈیٹر سے مشورہ کیا۔ انھوں نے ایک دوسرے اخبار کے چیف رپورٹر کوبھی Loopمیں لینے کا مشورہ دیا کہ خبر بڑی تھی اور ہمارا اخبار تن تنہا اس کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ اگلے روز ہمارے اخبار میں یہ لیڈ اسٹوری تھی جس نے عاملہ کے اجلاس میں آئے ہوئے اَکابرین جماعت کو ششدرکردیا۔

قاضی صاحب نے اگلے چند دنوں میں خاکسار کوطلب کرلیا، وہ ’’سورس‘‘پوچھتے رہے اور یہ خاکسار ادھر ادھر کی ہانکتارہا ۔یہ قاضی صاحب سے میری آخری ’’ون آن ون‘‘ملاقات تھی۔ کہتے ہیں کہ دل کے شیشے میں بال آجائے تو سب کچھ ختم ہوجاتا ہے ، سر راہ اجنبیوں کی طرح ملتا رہا، اگر کسی مجلس میں بھولے سے بھی کوئی مہربان ذکر کردیتا تو مسکرا کرموضوع بدل دیا کرتے تھے ۔ کاروانِ دعوت و محبت کے بعد آئی جے آئی کی تشکیل،میجرمست گل کی سواری، معرکہ کرباٹھ اور خالد گھرکی کے مقابلے میں انتخاب ،ایم ایم اے کا قیام اور خیبر پختون خواہ میں کرپشن کے الزامات تلے دبی۔ حکومت اور برادرم سراج الحق کی سینئروزارت، علاقائی منظرپر جہاد افغانستان کے بعد فساد افغانستان کے مختلف مراحل اورسخت گیر طالبان کا تختِ کابل پر قبضہ ……قاضی صاحب چلے گئے لیکن اُن کی یادوں کا لامتناہی سلسلہ ہے کہ تھمنے میں نہیں آتا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔