عرفان کی ’’مسٹری‘‘ کہانی اور شاہ رخ خان

سلیم خالق  جمعـء 10 مارچ 2017
کئی ہفتے گذر چکے مگراسپاٹ فکسنگ کیس میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آ رہی ۔ فوٹو: فائل

کئی ہفتے گذر چکے مگراسپاٹ فکسنگ کیس میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آ رہی ۔ فوٹو: فائل

پی ایس ایل اسپاٹ فکسنگ کیس اب الجھتا جا رہا ہے، ایسا محسوس ہونے لگا کہ حکام نے اس پر مٹی ڈالنے کی تیاری کر لی ہے، جب پہلے میچ کے بعد خالد لطیف اور شرجیل خان کو الزام لگا کر واپس بھیجا گیا تو اس وقت بورڈ آفیشلز ایسے خوش ہو رہے تھے جیسے کوئی بہت بڑے دہشت گرد پکڑ لیے ہوں، نجم سیٹھی، شہریارخان اور کرنل (ر) اعظم تینوں سے جب کبھی میری بات ہوئی وہ یہی کہتے ’’ بڑے ثبوت ہیں، دونوں نہیں بچ سکتے، کرپشن کیخلاف زیرو ٹولیرنس کی پالیسی ہے‘‘ مگر کئی ہفتے گذر چکے کیس میں کوئی پیش رفت نظر نہیں آ رہی، دونوں کھلاڑی بھی اب پہلے کے مقابلے میں مطمئن دکھائی دیتے ہیں، بورڈ کی سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ جو ٹربیونل بنایا اس کے ارکان کو ہی کیس کے بارے میں تاحال اعتماد میں نہیں لیا، اس کا اعتراف ایک رکن توقیر ضیا نے بھی میڈیا میں آ کر کیا، اگر پختہ ثبوت تھے تو کیوں فوراً فیصلہ نہیں کیا یہ ایک راز ہے۔
شاید حکام سمجھ رہے تھے کہ دونوں کرکٹرز خود اعتراف کر لیں گے تو انھیں سزادینے سے معاملہ ختم ہوجائے گا، مگر وہ اس کیلیے تیار نہیں، سوال یہ ہے کہ اگر ٹربیونل شرجیل اور خالد کیخلاف ثبوتوں کو ناکافی قرار دیتے ہوئے انھیں کلیئر کر دے تو واپس بھیج کر جو ساکھ خراب ہوئی تو اس کا کون حساب دے گا؟ اس کیس میں کیا بورڈ نے جلد بازی میں قدم اٹھایا، یا واقعی پختہ ثبوت موجود ہیں اور کون ملوث ہے، تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟ یہ سب گھتیاں سلجھاتے ہوئے شاید جیمز بونڈ بھی چکرا جائیں، اسی طرح محمد عرفان کے بارے میں چیئرمین بورڈ کئی بار اعتراف کر چکے کہ ان پر شکوک ہیں اس کے باوجود انھیں پوری پی ایس ایل کھیلنے دی گئی، شاید اس کی وجہ اسلام آباد یونائٹیڈ کے وسیم اکرم کی درخواست بنی جو ان دنوں رمیز راجہ کی طرح بورڈ حکام کے بیحد قریب ہیں، ایسے میں سوال وہی اٹھتا ہے کہ پھر زیرو ٹولیرنس پالیسی کہاں گئی اور اگر عرفان نے کوئی جرم نہیں کیا تو اب کیوں انھیں کیمپ میں نہیں بلایا، کیا وہ اب 31 کھلاڑیوں میں شامل ہونے کے اہل بھی نہیں رہے۔
ایونٹ میں کئی میچز ایسے ہوئے جو آئی سی سی کے کسی ٹورنامنٹ میں ہوتے تو کئی فائلز کھل چکی ہوتیں، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 2 کھلاڑیوں کو قربانی کا بکرا بنا کر دیگر کو بچا لیا گیا، اطلاعات کے مطابق آئی سی سی کا اینٹی کرپشن یونٹ بھی کئی راز سینے میں دبائے بیٹھا ہے، اگر شرجیل اور خالد کو واپس نہ بھیجا جاتا تو سلمان ، عامر اور آصف کے مشہورزمانہ کیس کی طرح کونسل کو ایکشن لینا پڑتا، بورڈ حکام قوم کوحقائق بتائیں کہ پی ایس ایل میں ہوا کیا تھا، ’’فائنل لاہورمیں کرا لیا‘‘ کے نعروں کی آڑ میں اس اسکینڈل کو نہ چھپایا جائے کیونکہ غلط کاموں میں ملوث کرکٹرز جن کے اشاروں پر ناچتے ہیں وہ ان سے یہ کام انٹرنیشنل میچز میں بھی لے سکتے ہیں، اگر ایسا ہوا تو اس کا ٹیم کو حد سے زیادہ نقصان ہوگا، اسی کے ساتھ عرفان کو ممکنہ پلیئرز میں شامل نہ کرنے کی پہلے ہی دن وضاحت ہونی چاہیے تھی مگر میڈیا ڈپارٹمنٹ نے اسے مناسب نہ سمجھا، اسے بس یہی فکر لگی رہتی ہے کہ کہیں نجم سیٹھی اور پی ایس ایل کیخلاف کچھ نہ آئے، باقی جو ہوتا رہے راوی چین ہی لکھتا رہے گا، او بھائی یہ پاکستان کرکٹ بورڈ ہے قومی ٹیم کی بھی تو کوئی فکر کریں۔
سب کو بس یہ لگا ہوتا ہے کہ کسی طرح غیر ملکی ٹورز کر لیں جیسے انگلینڈ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں کئی بورڈ آفیشلز گھوم کر آئے، اب ویسٹ انڈیز اور چیمپئنز ٹرافی کیلیے انگلینڈ جانے کیلیے جوڑ توڑ شروع ہو چکی ہوگی، تنخواہ دینے کے باوجودآغا اکبر کو غیرفعال رکھتے ہوئے کام نہیں لیا جا رہا، ایسے میں پی ایس ایل کے نام پر ایک اور تقرری ہو گئی اور وہ میڈیا کا ہی کام کر رہے ہیں، آغا اکبر کے بعد اب رضا راشد کی باری ہے جنھیں آہستہ آہستہ سائیڈ لائن کیا جا رہا ہے، بورڈ کے دونوں بڑے بظاہر ایک مگر سب جانتے ہیں کہ یہ تاثر درست نہیں، جس کو جہاں موقع ملے کام دکھا جاتا ہے، جیسے شہریارخان نے مصباح الحق کو دورہ ویسٹ انڈیز کیلیے کپتان برقرار رکھنے کا فیصلہ خود کر کے اپنی اتھارٹی منوائی، نجم سیٹھی بھی ایسے کئی کام کر جاتے ہیں، ابھی سب پی ایس ایل کے خمار میں ہیں، آہستہ آہستہ یاد آئے گا کہ ورلڈکپ میں براہ راست شرکت کے لالے پڑے ہوئے ہیں، ٹیم ٹیسٹ اور ٹی ٹوئنٹی میں بھی زوال پذیر ہے، خیر ہونا تو کچھ ہے نہیں بس پھر عوام کو نیا لولی پاپ دے کر چپ کرا دیا جائے گا جیسے فلاں غیرملکی ٹیم پاکستان آ رہی ہے۔
آخر میں کچھ ذکر پشاور زلمی کا کر لیتے ہیں، شاندار فتح پر ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے مگراونر جاوید آفریدی کو ایک مشورہ دینا چاہوں گا کہ انھیں ویسے ہی بڑی شہرت مل چکی، اب مزید پبلسٹی کیلیے ’’شاہ رخ خان پشاور اور کولکتہ کے میچز کرانا چاہتے ہیں‘‘ جیسے بیانات نہ دیں، یقین مانیے جب کے کے آر کے سی ای او کا انٹرویو دیکھا تو ہر پاکستانی کی طرح مجھے بیحد شرمندگی محسوس ہوئی، وہ تو یہ کہہ رہے ہیں کہ شاہ رخ خان کو علم ہی نہیں کہ ایسی کوئی لیگ بھی ہو رہی تھی تو کہاں کی مبارکباد، اس پر بھارتیوں کے تبصروں نے جلتی پر تیل کا کام کیا، یقیناً اس تمام صورتحال سے شاہد آفریدی بھی خوش نہ ہوں گے جو خاصی جدوجہد کے بعد غیرملکی کرکٹرز کو لاہور لائے اور ٹیم کو فتح دلانے میں بھی پیش پیش رہے، میں جانتا ہوں کہ انھوں نے اس کیلیے کتنی محنت کی اور دن رات ایک کر دیے، پی ایس ایل کی دیگر چار فرنچائزز بھی ہیں، ایونٹ کے بعد ان کا کون مالک ہے کسی کو یاد تک نہیں رہتا، نہ وہ خود نمایاں ہونے کی کوشش کرتے ہیں، جاوید بھی بس یہی سوچ اپنا لیں تو اچھا رہے گا، کبھی کبھی خبروں میں زیادہ رہنا بھی نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، شاید انھیں اب اس کا اندازہ ہو گیا ہو، ویسے بھی پشاور زلمی کیلیے شاہد خان ہی کافی ہیں اسے کسی شاہ رخ خان کی ضرورت نہیں ہے۔

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔