خدا حافظ ادیب بھائی!

زاہدہ حنا  اتوار 12 مارچ 2017
zahedahina@gmail.com

[email protected]

وہ سفید لباس پہنے، ابدی نیند میں ڈوبے ہوئے تھے۔ میں ٹھٹھک کر رک گئی۔ ’آیئے آخری دیدار کرلیجیے‘ فاطمہ حسن نے ان کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ میں فاطمہ سے کچھ کہے بغیر چند قدم پیچھے ہوگئی۔ میں نے تیس بتیس برس سے جس ادیب سہیل کو ہنستے، بولتے، شعر سناتے، افسانہ سنتے سیاست پر بحث کرتے اور سارے جہان کی باتیں کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ اب کس دل سے ان کے بے روح بدن کو، سرد خانے کی ٹھنڈک سے یخ بستہ چہرے کو دیکھوں۔ پسلیوں کے پنجرے میں جو پرندہ چہچہاتا تھا، وہ پرواز کرگیا تھا اور ادیب سہیل کہلانے والا شخص 90 برس گزار کر رخصت  ہوگیا تھا۔

وہ ایک ایسی شخصیت تھے جس سے تعلق کا دائرہ 30 برس پر محیط تھا۔ ملاقات سے پہلے ان کی چند نظمیں ’’اوراق‘‘ اور ’’افکار‘‘ میں نظر سے گزری تھیں۔ شہزاد منظر اور رفیع احمد فدائی ان کا ذکر بہت محبت سے کرتے تھے لیکن ملاقات کا سبب شہزاد منظر بنے۔ میرے پہلے افسانوی مجموعے ’’قیدی سانس لیتا ہے‘‘ پر ادیب سہیل کا 22-20 صفحوں کا مضمون پشاور سے چھپنے والے تاج حیدر اور زیتون بانو کے پرچے ’’قند‘‘ میں شائع ہوا۔

شہزاد منظر نے یہ سن کر سر پیٹ لیا کہ اس مضمون کی نہ مجھے خبر ہوئی اور نہ ادیب سہیل نے مجھ سے کبھی کوئی رابطہ کیا۔ اس کے چھپنے کے شاید برس یا دو برس  بعد مرحوم شہزاد منظر ملاقات کے لیے انھیں ساتھ لے کر آئے اور یوں اس تعلق کا آغاز ہوا۔ وابستگی کے اس  دائرے میں عارفہ بھابھی، نزہت، ترانہ، حنا، گیتی اور روبی سب ہی شامل ہوئے۔

لگ بھگ دس برس سے وہ یاد فراموشی کے دریا میں شناوری کرتے تھے۔ اس کے باوجود میں انھیں یاد تھی جسے وہ ’سسٹر‘ کہتے۔ یہی وہ تعلق تھا کہ ہر دوسرے تیسرے مہینے روبی انھیں ساتھ لیے ہوئے میرے دفتر آتی۔ ان کا استقبال صرف میں ہی نہیں، دفتر کے تمام افراد کرتے۔ کوئی بھاگم بھاگ ’’ایوان شیریں‘‘ سے قلاقند‘ گلاب جامن اور دال موٹھ لے آتا جس سے وہ لگ بھگ بیس بائیس  برس تک ہر جمعہ کو شوق کرتے رہے اور کوئی ان کے لیے چائے بناتا۔ ان کے ساتھ محمود واجد‘ افتخار اجمل شاہین‘ کبھی کبھی احمد زین الدین اور بنگلہ دیش سے آجانے والے زین العابدین بھی ان محفلوں میں شامل ہوتے رہے۔

وہ روبی کے ساتھ آتے تو میں ان کے سامنے رکھی ہوئی قلاقند اور گلاب جامن کی طشتریوں کو دیکھتی اور دل کٹتا۔ مٹھائیاں موجود تھیں لیکن میٹھی باتیں کرنے والا شخص یاد فراموشی کا دو شالہ اوڑھے جانے کدھر نکل گیا جو چند برس پہلے ہر جمعہ کو میری طرف آتا تھا اور دوستوں کی محفل جمتی تھی جس کا کچھ لوگ شہر میں ذکر کرتے تھے‘ جانے ان محفلوں کو کس کی نظر لگی‘ وہ محفلیں خواب وخیال ہوئیں اور ادیب بھائی یہ کہنے کا حق رکھتے تھے کہ:

میں تھا گلدستۂ احباب کی بندش کی گیاہ
متفرق ہوئے میرے رفقا، میرے بعد

ادیب سہیل کو جو شاعر نہ مانے وہ کافر۔ ان کے مجموعے ’’یہ زندگی۔ یہ اپسرا‘‘ ’’غم زمانہ بھی سہل گزرا‘‘ ’’کچھ ایسی نظمیں ہوتی ہیں‘‘ اور ’’بکھراؤ کا حرف آخر‘‘ شائع ہوچکیں۔ اہل نظر سے داد وصول کرچکیں لیکن ان کی تحریری زندگی کا ایک نہایت اہم پہلو ان کی نثر تھی اور اس نثر کا رشتہ اردو سے اور ترقی  پسندعالمی ادب سے جڑا ہوا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ ان کی زندگی کا بہت اہم میلان اور میدان تحقیق تھا۔ کاش وہ پٹنہ کی خدا بخش لائبریری سے وابستہ ہوتے تو اردو افسانے‘ ناول اور ڈرامے کی اہم شخصیتوں کو ڈھونڈھ کر نکالتے جنھیں بھلا دیا گیا اور جن کے ذکر سے اب شاید ہم محروم ہی رہیں۔

ادیب سہیل کا خمیر بہار کی مٹی سے اٹھا‘ وہ دھرتی جہاں گوتم نے گیان کیا ‘ نروان پایا اور مہاتما بدھ کہلائے۔ اسی گیان دھیان کا سایہ تمام عمر ادیب سہیل کی ذات اور زندگی پر چھایا رہا۔ انکسار‘ دنیا سے بے نیازی‘ آخری صف میں بیٹھنے کی عادت‘ کوئی ان کی تحریری صلاحیتوںکا ذکر کرے تو شرماجانا۔ یہ وہ تمام ادائیں ہیں جو ہمارے سماج میں شہنشا دقیا نوس کے عہد کے سکّے ہیں۔ وہی سکے جنھیں اصحاب کہف لے کر نان کی تلاش میں نکلے  تھے اور ناکام لوٹے تھے۔

ہم اگر ان کے زمانے پر نظر ڈالیں تو یہ وہ دور ہے جب فرنگی راج میں ہندوستان پہلی جنگ عظیم کے زخموں سے نڈھال تھا۔ بارہ برس کے تھے کہ دوسری جنگ عظیم کا خونخوار دیو، آدم بُو۔ آدم بُو، پکارتا ہوا، ہندوستان کا پھیرا لگا گیا۔ فاقوں سے نڈھال خاندانوں نے اپنے بیٹے اس جنگ کو دان کر دیے۔اُن میں سے بیشتر واپس نہ آئے۔ ادیب سہیل جیسے گداز دل نوجوان نے یہ سب کچھ دیکھا اور پھر بنگال کا قحط اپنی روح پر سہا جس میںماؤں نے بیٹیاں ایک مٹھی چاول کے لیے پونجی پتی گھرانوں کو بیچ دیں۔

ان کا ذہن اور ان کی روح ان زخموں سے نڈھال ہوئی اور پھر 47ء اوراس کے بعد 71ء… حوادث کا ایک سونامی تھا جو انسانوں کو نگل رہا تھا۔ ایک ایسے عالمِ داروگیر میں وہ اگر اپنا ذہنی توازن قائم رکھ سکے تو اس کا سبب، انسانوں سے ان کا درد مندی کا وہ رشتہ تھا جس میں ترقی پسندی نے انھیں پُرو دیا تھا۔ وہ آخر تک اسی ڈور سے بندھے رہے۔ کراچی میں نادر گری کی جو چوبائی چل رہی تھی، اس میں بھی ان کی استقامت اور انسان دوستی پر آنچ نہ آئی اور وہ یہ کہہ سکے کہ!

غیروں پر الزام عبث ہے، ہم ہی اپنے دشمن ہیں
ہنستے بستے شہر کا اپنے ہاتھوں، سکوں برباد کیا

انھوں نے جم کر شاعری کی جس کی سچی قدر دانی ان کے پنڈی وال دوستوں نے کی۔ وزیر آغا کے سہ ماہی ’اوراق‘ میں ان کی شاعری اور ان کی نثرکے لعل و گہر بکھرے ہوئے ہیں۔

ایرن کریمر سے ان کا نظری رشتہ تھا۔ 1954ء میں ان کی اور کریمر کی خط و کتابت شروع ہوئی جو اس کی آخری سانس تک جاری رہی۔ ادیب بھائی کی طرح کریمر میکار تھی ازم کا کٹر مخالف تھا اور میکار تھی ازم امریکا  میں روشن خیالی اور روشن خیالوں کو نگل رہا تھا۔ انھوں نے کریمر کی نظمیں ترجمہ کیں۔

ایک طرف انیسویں اور بیسویں صدی کی ابتدا کے بھُلا دیے جانے والے ادیبوں سے گہری وابستگی اور ان کی چیزیں ڈھونڈ نکالنا ان کے دین ایمان کا مسئلہ تھا تو دوسری طرف عالمی ترقی پسند ادیبوں کی شاعری کو ترجمہ کرنا اور ان کے بارے میں لکھنا وہ اپنا فرض  منصبی تصور کرتے تھے۔ انھوں نے لورکا‘ ناظم حکمت‘ نجیب محفوظ‘ پابلونرودا‘ اوکتاویو پاز‘ گریگری کورسو اور ایرن کریمر پر تفصیلی مضامین لکھے۔

یہ تمام  مضامین ’’اوراق‘‘ میں شائع ہوئے۔ ایرن کریمر سے ان کی طویل عرصے تک خط وکتابت رہی۔ کریمر کے جو خط ان کے نام آتے وہ اسے کلیجے سے لگا کر مجھے دکھانے لاتے‘ اس وقت ان کے چہرے پر وہ تابانی ہوتی جیسے کوئی بچہ مٹھی میں بیر بہوٹی یا دامن میں جگنو چھپا کر کسی سنگی ساتھی کو دکھائے۔ کریمر کی موت پر انھوں نے ایک دل دوز نظم لکھی۔

ادیب سہیل اپنی زندگی کے جس سب سے بڑے سانحے سے گزرے، اس کے بارے میں لکھتے ہوئے قرۃ العین حیدر کی یاد آئی۔ ’’گردش رنگ چمن‘‘ میں انھوں نے لکھا ہے:

’’زندگی کی گاڑی اندھا دھند پٹریاں بدلتی ہے۔ کوئی اس کا انجن ڈرائیور نہیں ہے۔ سب معاملہ اندھا دھند ہے۔‘‘

تو یوں ہے کہ جوگی بیراگی‘ موسیقی پر سند رکھنے والے اور رقص کی نزاکتیں جاننے والے ادیب سہیل شعر سناتے ہوئے‘ ناظم حکمت اور ایرن کریمر کی شاعری کے رمز آشکار کرتے ہوئے کتھک‘ کتھا کلی اور اوڈیسی کے نرت بھاؤ سمجھاتے ہوئے چلتے چلے جاتے تھے۔ انھوں نے قحط بنگال کے عذاب سہے، مشرقی پاکستان میں دریائے خوں تیر کر پار کیا‘ پاکستان آئے تو یہاں کی مہربانیاں اور  نامہربانیاں دیکھیں‘ سہیں‘ لیکن شکایت کسی بات کی نہ کی۔

کہا تو بس یہی کہ ’’غم زمانہ بھی سہل گزرا‘‘ لیکن ہوا یہ کہ زندگی کی گاڑی کسی گم نام اسٹیشن پر لمحے بھر کو دھیمی ہوئی اور ایک شخص جو خود کو ادیب سہیل کہتا تھا وہ ہڑبڑا کر وہاں اتر گیا اور جانے کن سنہرے روپہلے خوابوں کی پگڈنڈی پر چلتا چلا گیا۔ وہ اپنے پیچھے ضلع مونگیر کی سادات بستی‘ میں پیدا ہونے والے سید محمد ظہور الحق کو اور اس کی پنشن بک کو چھوڑ گیا۔ ہم ان کی شخصیت کے یوں دولخت ہوجانے پر ملول رہتے تھے لیکن 7 مارچ کو سید محمد ظہور الحق اور ادیب سہیل ایک دوسرے سے آن ملے اور اب وہ دونوں باہم  ہوگئے ہیں ایک ہی لحد میں سوتے ہیں لیکن ہم سے جدا ہوجانے کا سفر مکمل ہوگیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔