ایک دن عورت کا!!

شیریں حیدر  اتوار 12 مارچ 2017
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

(یہ ہمارے ملک کی کم از کم پچاس فیصد عورتوں کی کہانی ہے)

اس نے اپنا بستر درست کیا، ہاتھ سے بال سمیٹتے ہوئے کمرے سے باہر نکل کر فرج سے جلدی جلدی انڈے اور ڈبل روٹی نکال کر باہر رکھی، بچوں کے کمروں میں جا جا کر پہلے انھیں پیار سے آوازیں دے کر، پھر ذرا برہمی سے اور جب اس سے بھی کام نہ بنا تو انھیں جھنجوڑ جھنجوڑ کر جگایا اور انھیں ان کے کمروں سے ملحقہ غسل خانوں میں دھکیلا۔ ان کے کمبل تہہ کیے، بستروں کی شکنیں نکالیں۔ واپس اپنے کمرے میں آ کر منہ ہاتھ دھویا، دانت برش کیے اور پھر باورچی خانے میں۔ ناشتے کے ساتھ ساتھ بچوں کے اسکول کے لیے لنچ باکس تیار کرتے ہوئے وہ ساتھ ساتھ اپنے شوہر کے بارے میں بھی سوچ رہی تھی… جانے وہ آج کیا پہننا چاہے گا، کیا کھاناچاہے گا!!

ایک ایک بچے کی پسند کے مطابق ان کے لنچ باکس تیار کر کے ان کے اسکول کے بستوں کے پاس رکھے، ان کے بستے چیک کیے کہ انھوں نے ہر کتاب اور نوٹ بک اپنے اپنے بستے میں رکھی ہے کہ نہیں… ان کے بستوں میں پنسل، شارپنر اور ربڑ ہیں کہ نہیں ۔ ان کے تیار ہو کر آنے اور ناشتہ کرنے کے دوران اس نے اپنے کمرے اور ڈائننگ کے بیچ کئی چکر لگائے، بچوں کو جلدی جلدی ناشتہ کرواتے ہوئے وہ اپنے شوہر کے کپڑے اس کی مرضی کے مطابق تیار کر کے بچوں کو اسکول کے لیے روانہ کر کے اپنے شوہر کا ناشتہ بنانے لگی۔ اس کے ساتھ بیٹھ کر اسے ناشتہ کرتے ہوئے دیکھنے اور کسی خوبصورت بات کے سننے کی امید میں وہ اپنی چائے کے گھونٹ حلق سے اتارتی رہی۔

شوہر کے بے کچھ کہے روانہ ہوجانے کے بعد اس نے ہر روز کی طرح وہ بکھیڑے سمیٹنا شروع کر دیے جو کہ اس کا سال ہا سال کا معمول ہے۔ گھر کی صفائی کے ساتھ ساتھ چولہے پر ہانڈی چڑھائی، جتنی دیر بجلی کی لوڈ شیڈنگ تھی اس دوران اس وہ کام نمٹائے جو بجلی کے بغیرہو سکتے تھے۔ بجلی آتے ہی اس نے کپڑے دھونے کی مشین چلائی تو ساتھ ہی اسٹینڈ پر استری لگا لی تا کہ پہلے سے دھلے ہوئے کپڑے استری کر لے۔ کام کے دوران ہی اس نے گھر کے باہر دس دفعہ کسی نہ کسی گھنٹی پر باہر جا کر بھی دیکھا، کبھی کچھ بیچنے والے، کبھی کوئی پڑوسن، کبھی کوئی منگتا اور کبھی کوئی خواہ مخواہ میں کسی کے گھر کا پتا پوچھنے والا۔ دن بھر کام کار کے دوران اس کی پریڈ چلتی رہی۔

وقت نکال کر اسے اپنے شوہر کی ممانی کو دیکھنے اسپتال بھی جانا پڑا کہ وہ وہاں کسی آپریشن کے باعث داخل تھیں۔ اس کے شوہر تو مصروف ہوتے ہیں، اگرچہ ان کی ممانی ہیں مگر اعتراض صرف اس کے نہ جانے پر ہوتا۔ گھڑی پر وقت دیکھ کر اس کی رفتار بجلی سے بھی تیز ہو گئی کہ اس کے بچوں کے اسکول سے لوٹنے کا وقت ہو رہا تھا اور اس نے ابھی تک آٹا نہیں گوندھا تھا۔

وقت کی تنگی کے باعث اس نے تنور پر فون کر کے بچوں کے لیے روٹیاں منگوائیں اور اپنے بچوں کی خواہش پر رات کے کھانے کے لیے بریانی کی تیاری کرنے لگی۔ بچوں کے آنے کا وقت ہوا تو وہ بیرونی دروازے کے چکر لگانے لگی، بار بار دروازے کو کھول کر باہر جھانکتی کہ گلی کے موڑ سے اسے بچوں کی اسکول کی وین نظر آجاتی تھی۔ اسے زیادہ انتظار نہ کرنا پڑا اور بچوں کی اسکول وین نظر آگئی۔

اس کے بعد اس کے وہ کام شروع ہو گئے جو بچوں کی اسکول سے واپسی کے بعد شروع ہوتے تھے۔ انھیں یونیفارم بدلنے میں مدد کرنا، ان کے یونیفارم کو چیک کرنا کہ صاف ہیں یا دھلنے والے۔ انھیں دوپہر کا کھانا دینا، ان سے ان کے اسکول کے دن کی رپورٹ لینا، ان کے کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ان کے اسکول کا کام چیک کرنا، انھیں ایک گھنٹے کا ٹیلی وژن دیکھنے کا وقت عطا کر کے خود ان کے کھانے کے برتن سمیٹتے ہوئے اس نے ساتھ ہی مشین میں ڈال کر ان کے یونیفارم بھی دھو لیے اور انھیں سوکھنے کے لیے ڈالا ۔

بچوں کا ایک گھنٹہ کس طرح گزر گیا ، نہ اسے علم ہوا نہ بچوں کو۔ بچے تو مزید ٹیلی وژن دیکھنے پر مصر تھے مگر ماں کو معلوم تھا کہ اس کے دن کے ایک ایک لمحے کا حساب کتاب ہے جو ذرا سی بے ترتیبی سے بگڑ جاتا ہے۔ اس کے بعد انھیں ایک گھنٹہ کھیلنے کے لیے دیا ، اس کے دوران وہ بار بار باہر جا کر انھیں چیک کرتی رہی ، کھیل کے وقت کے ختم ہونے کا اعلان کرکے اس نے انھیں بستے لانے کو کہا۔ بچے بے دلی سے اپنے بستے لے کر آئے تو اس نے ان سب کو ہوم ورک کرنے کے لیے بٹھا دیا۔خود اپنے شوہر کی شام کی چائے کے ساتھ لوازمات بناتے ہوئے ساتھ ساتھ بریانی بنا رہی تھی اور ہر چند منٹ کے بعد بچوں کے پاس آ کر چیک کرتی کہ وہ پڑھ رہے تھے یا وقت تو ضایع نہیں کر رہے تھے۔ سہ پہر سے شام بھی یوں آئی جیسے پلک ہی جھپکی ہو۔ شوہر کے آنے کے بعد اسی معمول سے چائے تیار کر کے خود بھاگتے دوڑتے چائے پی کہ بیٹھنا اسے اس سے پہلے بھی کبھی نصیب نہیں ہوتا۔

بچوں کے کام چیک کر کے ان کے بستے پیک کروائے… رات کا کھانا کھلا کر انھیں ان کے کمروں میں لے جا کران کے ہاتھ منہ دھلوائے، سونے سے پہلے دانت برش کروائے، انھیں ان کے بستروں میں ڈالا، ان کی عادت کے مطابق انھیں کہانیاں سنائیں اور جب وہ نیند کی وادیوں میں اتر گئے تو ان کے ماتھے چوم کر وہ واپس باورچی خانے میں گئی جہاں کافی کچھ سمیٹنے کو پڑا تھا۔ سب کچھ سمیٹ سماٹ کر جب وہ اپنے کمرے میں لوٹی تو ہر روز کی طرح اس کی کمر تختہ بن چلی تھی، پاؤں یوں تھے جیسے ان میں آبلے پڑے ہوئے ہوں اور دماغ اس بات میں مصروف کہ کل کا آغاز کس طرح ہو گا۔

’’!Happy Women’s Day‘‘… ۔ (عورتوں کا عالمی دن مبارک ہو) اس نے چونک کر اپنے شوہر کو دیکھا…۔’’ کب تھا عورتوں کا عالمی دن؟ ‘‘ وہ زیر لب بڑبڑائی تھی…۔’’ آج… آٹھ مارچ کو!! ‘‘ شوہر نے جواب دیا…۔’’ اچھا !! ‘‘ اس کی حیرت کو زبان ملی تو فقط اتنی…۔’’ مبارک کے جواب میں تم نے شکریہ نہیں کہا؟ ‘‘ شوہر نے شکوہ کیا۔

’’ مبارک؟؟ ‘‘ کھویا کھویا لہجہ۔ وہ کچھ بھی نہ کہہ سکی، سوچ کر رہ گئی۔کیا مختلف تھا اس ’’عالمی دن ‘‘ میں اس کے لیے ؟وہی ہر روز کی طرح اپنے وقت پر سورج طلوع ہوا تھا، وہی صبح تھی اور صبح کی مصروفیت… کام کار میں مصروف دن اور بچوں اور شوہر کے معمول کی طرح کام ۔ وہی دھندے وہی دن بھر کی مصروف تنہائی۔ ہر روز کی طرح کھانا پکاتے اور برتن دھوتے ہوئے گزرنے والا دن۔ وہی کپڑے دھونے ، سکھانے اور استری کرنے کا چکر، گھر کی صفائی اور شام تک دوبارہ صفائی کے قابل ہوجانے والا گھر۔ ویسا ہی دن تھا اور وہی شام اور اب وہی ہر روز کی طرح تاریکی کی گود میں سر رکھ کر لیٹ جانے والی رات کا وقت۔ اسے تو یہ تک علم نہ تھا کہ اس روز تاریخ کیا تھی ا ور اس تاریخ کا عالمی دنیا سے کیا تعلق، اسے تو وہ دن بھی عام جیسا لگا تھا، اس کے معمولات بھی اس روز وہی تھے۔اگر ا س کا شوہر اسے نہ بتاتا تو اسے معلوم بھی نہ ہوتا … اور جو معلوم ہو بھی جاتا تو کیا مختلف ہوتا؟

’’ اگر عورتوں کا عالمی دن ایسا ہوتا ہے تو… ‘‘ اس نے دل ہی دل میں سوچا۔ ’’ میرے خیال میں تو سارے دن ہی عورتوں کے ہوتے ہیں… اگر ایسے ہوتے ہیں تو؟ ‘‘

عورت… ماں ہو، بہن یا بیٹی ، یا بیوی جو کہ ایک گھر کی معمار ہوتی ہے، اس گھر کی ایک ایک اینٹ کو اپنے ہاتھ سے لگاتی اور اس کے ذرے ذرے کو اپنے ہاتھوں سے سجاتی اور سنوارتی ہے۔ اپنے باپوں کی توقعات پورا کرنے کے لیے، اپنے شوہر کی خوشی کی خاطر، اپنے بھائیوں کی ذمے داریاں اور اپنے بچوں کا ہر کام چہرے پر مسکراہٹ سجا کرکرتی ہیں۔ اپنے شوہر کی غیر موجودگی میں اس کے گھر، مال اور عزت کی محافظ ہوتی ہیں۔

ایک بیوی دن بھر اپنے شوہر اور بچوں کا انتظار کرتی ہے اور ان کے گھر لوٹ آنے کے بعد سکون کا سانس لیتی ہے، انھیں دیکھ کر جیتی اور محبت سے ان کا ہر درد اپنی پوروں سے چن لیتی ہے، ان کی تھکاوٹ کو اپنی تھکی ہوئی انگلیوں پر منتقل کر لیتی ہے۔ہر وہ دن جس دن وہ اپنے بچوں کو خیریت اور عافیت سے گھر سے رخصت کرے اور وہ شام کو لوٹ کر واپس آئیں ، ان کے ساتھ شام گزار کر انھیں کھلا پلا کر، ان کے ماتھے پر بوسہ دے کر انھیں رات کو اپنے گھر میں سوتا ہوا دیکھے اور اپنے شوہر کی ایک مسکراہٹ دیکھ کر نیند کی وادی میں اترے… ہر وہ دن عورتوں کا دن ہوتا ہے۔ خواہ وہ آٹھ مارچ ہو یا کوئی اور دن!!

بس وہ محتاج ہوتی ہے مرد کی، اپنے ہر رول میں۔ باپ سے اعتماد کی، بھائی سے اعتبار کی، شوہر سے وفا کی اور بیٹوں سے احترام اور محبت کی۔ وہ ہر رشتے کے لیے خود کو تج دیتی ہے مگر بدلے میں داد وتحسین بھی نہیں پاتی۔ اس کے سارے کام اس نوعیت کے ہوتے ہیں کہ ہوتے ہوئے نظر بھی نہیں آتے، ہاں اس وقت علم ہوتا ہے جب وہ نہ ہو اور وہ سب کام جو معمول میں ہوتے ہیں، وہ رک جائیں۔ عورت کا وجود گھر میں ہوتے ہوئے اپنا احساس نہیں دلا پاتا، اس وقت اس کی کمی محسوس ہوتی ہے جب وہ نہ ہو۔

اپنے گھر میں موجود ہر عورت کی عزت، قدر اور احترام کریں،ا س کی خدمات کا اعتراف کریں اور اسے احساس دلائیں کہ آپ کو اس کی ضرورت ہے، آپ کو اس سے محبت ہے اور اس کا وجود آپ کی زندگی کے لیے کس قدر اہم ہے!!! وہی ایک دن عورت کا دن ہو گا جب اسے آپ کی طرف سے محبت اور اعتماد ملے گا!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔